تالاب سلامت…. مگر پانی گدلا ہو گا


ابتلا کا یہ موسم کچھ زیادہ طویل ہو گیا۔ تین عشرے ہونے کو آئے، ہماری مشکل آسان نہیں ہوتی۔ 1988 کا برس تھا۔ جنرل ضیا الحق کے منظر سے ہٹنے کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ اب جمہوریت کا سفر ہموار ہو سکے گا۔ جلد ہی ہمیں مطلع کیا گیا کہ انتقال اقتدار کا کوئی ارادہ نہیں، البتہ شراکت اقتدار پر غور کیا جا سکتا ہے۔ یہ امتحان ضیاالحق کی آمریت کے گیارہ برس سے زیادہ کڑا ثابت ہوا۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدار کے دو متوازی مراکز ہوں گے۔ سیاسی قوتوں کو جونیئر فریق کا درجہ حاصل ہو گا۔ انہیں پالیسی کے بنیادی خدوخال پر اختیار نہیں دیا جائے گا۔ البتہ کارکردگی کا تقاضا پیش منظر کی دیدہ حکومت یعنی سیاسی قیادت سے کیا جائے گا۔ اس دوران پوری کوشش کی جائے گی کہ سیاسی قوتوں کو جم کر کام کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ برسراقتدار گروہ کے مقابل سیاسی گروہوں کو تھپکی دی جائے اور اگر ضرورت ہو تو عوامی تائید رکھنے والی قوتوں کے مقابلے میں عکسی سیاسی جماعتیں تشکیل دی جائیں۔ میڈیا ٹرائل میں وقفہ نہ آنے پائے۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں بدیہی طور پر جمہوریت کو ایک ناگوار سمجھوتے کا درجہ دیتی ہیں۔ چنانچہ جہاں ممکن ہو، ایسی سیاسی قوتوں کی آبیاری کی جائے جو وقت آنے پر مذہب کے نام پر منتخب حکومت کو مفلوج کر سکیں۔ یہ نقشہ ناکامی کا تیربہدف نسخہ تھا۔ اس سے غرض نہیں تھی کہ مسلم لیگ حکومت میں ہے یا پیپلز پارٹی، بحرانی صورت حال برقرار رکھی جائے گی۔ الزامات کی فہرست بھی کم و بیش ایک جیسی ہو گی۔ نااہلی اور بدعنوانی کے الزامات فراخ دلی سے عائد کئے جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کی حب الوطنی کو مشکوک قرار دیا جائے گا۔ ریاست کے غیر منتخب حصوں کو دو ٹوک پیغام دیا جائے گا کہ اقتدار کے حقیقی سرچشمے سے وفاداری قائم رکھیں۔ ان غیر منتخب قوتوں میں بیوروکریسی، عدلیہ، میڈیا اور مذہبی گروہ شامل تھے۔ منتخب جماعتوں میں بھی اپنے وفادار عناصر شامل تھے جو سبوتاژ کی کارروائیوں میں مددگار ثابت ہوتے تھے۔ 1985 میں مسلط کی جانے والی آٹھویں آئینی ترمیم کی بدولت اٹھاون 2-بی کا میزائیل ہمہ وقت تیار تھا۔ آٹھ برس میں تین منتخب حکومتیں اسی اٹھاون 2-بی کی ٹکٹکی پر شہید ہوئیں۔ ذلت اور رسوائی کے اس پل صراط پر دس برس تک چلتے رہنے کے بعد سیاسی قوتیں صرف ایک کامیابی حاصل کر سکیں۔ یکم اپریل 1997 کو تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے اٹھاون 2-بی کی شق ختم کر دی گئی۔ اس اقدام کو سیاسی قوتوں کی غداری پر محمول کیا گیا۔ یہ وہی 1954 کی تمثیل کا تسلسل تھا جب دستور ساز اسمبلی میں ہاشم گزدر کی قرارداد کے ذریعے گورنر جنرل غلام محمد کے اختیارات میں کٹوتی کی گئی تھی۔ 1997 کی اس جسارت کا انجام بھی 1954 سے مختلف نہیں تھا۔ کھلم کھلا اعلان کیا گیا کہ اٹھاون 2-بی کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ مارشل لا کا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔ بالآخر اکتوبر 1999 میں وہ گھڑی ان پہنچی اور پرویز مشرف سریر آرائے مملکت ہوئے۔ ایک عشرہ زیاں اپنے اختتام کو پہنچا۔

اس بدنما کھیل میں المیہ کا عنصر اس حقیقت میں پوشیدہ تھا کہ سیاسی قوتوں کو قومی پالیسی کے ان حصوں میں دخل اندازی کی قطعی اجازت نہیں تھی جں پر نظر ثانی قومی مفاد میں اشد ضروری تھی۔ ان از کار رفتہ پالیسیوں کی بدولت دنیا میں قوم کی ساکھ خراب ہوتی تھی۔ اندرون ملک ریاست کی عمل داری مجروح ہوتی تھی۔ معیشت کے امکانات پر کاری ضرب لگتی تھی۔ کمزور سے کمزور منتخب حکومت بھی خود اپنے مفاد میں ان خارجی اور داخلی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔ منتخب قیادت کی اس ناگزیر خواہش کو قومی مفاد کے منافی قرار دیا جاتا تھا۔ ٹکراو ¿ ہوتا تھا۔ چھری اور خربوزے کے اس تصادم میں بہرصورت خربوزے کو ہزیمت اٹھانا پڑتی تھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ محمد خاں جونیجو جیسا دست اموز اور مرنجاں مرنج شخص وزیر اعظم تھا یا نواز شریف جیسا خود کاشتہ سیاسی نہال منظر پر تھا۔ جمہوری عمل میں طویل تعطل کے باعث سیاسی قوتیں بھی ناتجربہ کاری کا شکار تھیں۔ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں سیاست دانوں کی ایک نئی فصل متعارف کروائی گئی تھی جسے کسی سیاسی سوچ کی بجائے صرف مقامی اقتدار سے غرض تھی۔ اپنے حلقے میں پٹواری، تھانے دار اور اسکول کے استاد کی تعیناتی اور تبادلے پر اختیار ہی اس سیاسی مخلوق کے لئے اقتدار کی معراج تھی۔ قانوں ساز اداروں کی نفسیات بلدیاتی اداروں میں ڈھل گئی۔ حکومت کو بحران سے نمٹنے اور حزب مخالف کو بحران کی سازش تیار کرنے سے فرصت ملتی تو سیاسی جماعت میں تنظیم سازی پر توجہ دی جاتی۔ اب حکومت کے ایوانوں میں کوئی مولوی تمیز الدین تھا اور نہ حسین شہید سہروردی۔ کوئی ذوالفقار علی بھٹو تھا اور نہ کوئی غوث بخش بزنجو۔ قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں…. دجلہ و فرات کی لہریں آمریت کے گیسوؤں کو تابدار کرتی رہیں۔

پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور اقتدار میں سود و زیاں کا گوشوارہ ایک طرف رکھ دیں۔ ایک جوہری تبدیلی 14 مئی 2006ءکو رونما ہوئی جب دس برس تک باہم دست و گریباں رہنے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے عہد کیا کہ آئندہ اقتدار کی خاطر غیر جمہوری مداخلت کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ جمہوری تائید کی حامل قوتوں کا یہ قدم بھی 1997 کی طرح ان کے ناقابل اعتبار ہونے پر محمول کیا گیا۔ افغان پالیسی، پاک بھارت تعلقات، مغربی دنیا کے ساتھ مخاصمت آمیز محتاجی اور معاشی جمود جیسے مسائل بھاری پتھروں کی طرح قوم کے گلے میں آویزاں تھے۔ دہشت گردی کا عفریت ہماری زمیں پر پوری قوت کے ساتھ دندنا رہا تھا۔ اس صورت حال میں بے نظیر بھٹو کی شہادت اور عدلیہ تحریک دراصل آئندہ جمہوری تجربے کے خدوخال کا پیش خیمہ تھیں۔ ممبئی حملوں، این آر او کی دہائی اور کیری لوگر بل کے خلاف مہم سے ثابت ہو گیا کہ قوم سعادت حسن منٹو کے کردار منگو کوچوان کی طرح پرانے قانوں ہی سے الجھ رہی ہے۔ 2010 میں اٹھارہویں آئینی ترمیم ایک اہم قدم تھا جس سے آئینی بندوبست کا پارلیمانی تشخص بحال ہوا اور صوبائی خود مختاری کے تقاضے کسی حد تک پورے کئے گئے۔ اس پس منظر میں ایبٹ آباد آپریشں رونما ہوا۔ میمو گیٹ اسکینڈل کھڑا کیا گیا۔ عمران خاں اور طاہر القادری کی صورت میں نئے گھوڑے میدان میں اتارے گئے۔ مئی 2013 کے انتخابات کے بعد کے مناظر ابھی تازہ ہیں۔ ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ رسمی طور پر عسکری قوتیں سابق آمروں کی طالع آزمائی سے بریت کا اعلان کرتی ہیں۔ یہ ایک درست حکمت عملی ہے۔ جمہوری قیادت اور ایک اہم ریاستی ادارے کے مابین تعلقات مستقل محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ تاہم ناقابل فہم طور پر سابق آمروں کی عذر خواہی کر کے کسی تازہ بیانیے کا راستہ روک دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جسے دور کرنا سیاسی قیادت اور جمہور کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ یہ فیصلہ تو کہیں اور کیا جانا چاہیے۔ اس وقت پانامہ کیس ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ ایک برس کے دوران وقت کی رفتار ہموار نہیں ہو گی۔ ہمیں سی پیک منصوبہ، مشرق وسطیٰ کے معاملات اور خطے میں تناؤ جیسے معاملات درپیش ہیں۔ مناسب یہی ہو گا کہ قومی قیادت سنجیدگی سے خارجہ پالیسی، معاشی امکانات اور داخلی بندوبست کے امور پر سر جوڑ کر بیٹھے۔ اگر کھلواڑ جاری رہتی ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہو گی تاہم دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہمارا تالاب سلامت رہے، خدشہ یہ ہے کہ موجودہ رویوں کو جاری رکھنے سے پانی گدلا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).