آداب میزبانی تو کب کے بائیک کے نیچے آ چکے


ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں چینل ایک ہوتا تھا مگر اس پہ میزبانی کرنے والے افراد میں قابلیت کی ایک دوڑ ہوتی تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک میزبان۔ پروگرام کی طرز کوئی بھی ہو ہر لحاظ سے بہترین میزبانی کی جاتی تھی۔ مزاح، سیاست، ثقافت، طنز، تاریخ، معلومات، کھیل، گلوکاری و اداکاری، رمضان، عاشورہ غرض موقع کی مناسبت اور موضوع پہ بھرپور گرفت لے کر ایک بندہ پورا سماں باندھ دیتا تھا۔ پھر چینلز میں تو اضافہ ہوتا گیا مگر قابلیت گرتی چلی گئی۔ ادھر ادھر سے کہیں پرچی والے تو کہیں خوشامدی میزبانی کے نام پر آنا شروع ہوئے۔ خواتین کا ٹیلنٹ صرف پرکشش دکھائی دینا رہ گیا اور پھر خرابی جڑ پکڑتی گئی۔ پروگرام کوئی بھی ہو نہ موضوع پہ گرفت، نہ الفاظ کا چناؤ، نہ لہجے کا خیال، نہ آواز کا اتار چڑھاؤ، نہ موقع کی مناسبت کا خیال اور نہ ہی اخلاقیات کا پاس۔

اس سال دکان رمضان میں کیا کیا تماشے ہوئے ذرا موٹے موٹے کارناموں پہ نظر ڈالتے ہیں۔

ایک صاحب قائد اعظم کی محبت میں جوش خطابت اور ہوش حواس کھو بیٹھے۔ نہ انہیں خیال رہا صنف نازک کا جسے نازک اور کمزور بتا بتا کر بنا بنا کر ان کے پورے سال کے 70 فیصد پروگرام ہوتے ہیں اور نہ انہیں خیال رہا آداب میزبانی کا۔ شاہ رخ خان کی دیوداس فلم کے بہت سے انداز چربہ ہو گئے کچھ ہی منٹ میں۔ پھر ہاتھ جوڑ کر اس جہان اور اس جہان میں معافی طلب کرتے ہوئے بالکل محبتیں فلم یاد دلا دی بھائی صاحب نے مگر بات تو وہی ہے کہ نہ آپ میزبان ہیں نہ آپ بن سکتے ہیں اس لئے آپ اپنے پسندیدہ خوشامدی ٹولے کو پورا سال جب اپنے پروگرام میں مدعو کر کے اپنے منہ پہ تعریفیں کرواتے جاتے ہیں تو ذہنی کیفیت ابتر ہو جاتی ہے کہ صرف میں ہوں، مجھے بولنے کا حق ہے اور میں کسی اور پہ کیمرہ کیوں جانے دوں؟

ایک ہیں صاحب جو خود کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں کہ نہ مجھ سے بہتر کوئی خطیب ہے، نہ واعظ، نہ اداکار، نہ گلوکار، نہ نعت خواں، نہ قوال، نہ باورچی، نہ ڈاکٹر، نہ محب وطن اور نہ عالم۔ اللہ جانے اور وہ کس کس خبط میں مبتلا ہیں مگر ان کی جانب سے میزبانی کے نام پہ بد تمیزی کوئی نئی بات نہیں۔ ہاں ایک عجب لطیفہ یہ ہے کہ 2016 میں اپنے ایک گانے میں موصوف فوجی بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جس پہ پابندی لگ جاتی ہے تو شام کو اپنے گرد خوشامدیوں کا ٹولا بٹھا کر غصہ کرتے ہیں کہ i am not son of soil یعنی میں تو اس مٹی کا سپوت نہیں ہوں۔ مجھے تو قبول نہیں کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ پھر دن بدلے چینل بدلا۔ آج کل ان سے زیادہ تو کوئی اس مٹی کا سپوت ہی نہیں چل رہا۔ رات کے وقت دن بھر کی تھکن اور چڑچڑاپن نکالنے کا یہ ان کا وقت اور انداز ہوتا ہے کہ انہیں حب الوطنی کا ایک خاص ڈوز دیا جاتا ہے اور پھر وہ اخلاقیات کی دھجیاں اڑائیں یا اقدار کا پاس نہ رکھیں یہ انکی مرضی۔ دن رات وہ نعت خواں، ساتھی، ڈاکٹر، مہمان اور حاضرین سے جتنی بد تمیزی کریں وہ ایک طرف اور یہ ایک پروگرام ایک طرف۔ رشی کپور کو جواب دینے کا جو طریقہ انہوں نے اختیار کیا اس سے ان کے خیالات اور ذہنی پستی کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے کہ ہم تم گھر بیٹھ کر فرط جذبات میں کچھ بھی کہیں مگر ایک باقاعدہ پروگرام میں “دنیا کے 180 ممالک میں دیکھی جانے والی پاکستان کی نمبر ون ٹرانسمیشن” میں جب ایسی گھٹیا زبان استعمال کرو گے تو جناب “ایسے تو نہیں چلے گا”۔

جہاز تو خیر بہت بڑی چیز ہو گئی ہم تو ایک بریانی کی پلیٹ پہ بکنے والے لوگ ہو چکے ہیں۔ نہ اپنی آنے والی نسل کی اخلاقی تربیت کا خیال اور نہ اپنی عزت نفس کا۔ کیا؟ عزت نفس۔۔۔ ارے وہ تو کب کی بائیک کے نیچے آ چکی۔ رہی تربیت کی فکر تو وہ وہاں کی جاتی ہے جہاں سوچ پہ لالچ اور ہوس کے موٹے پردے نہ ہوں اور دماغ کو کھیل، مزاح اور برداشت کی تربیت دینے کی غرض سے کھولا جائے۔ “تو سارے مل کے بولو کھولو”۔

بہرحال یہ صرف پیشہ ور تربیت ہی کا فقدان ہے کہ کسی کو بھی پروگرام کا میزبان بنا دیں یا آج کل ایک رواج ہے کہ میں کیونکہ پروڈیوسر ہوں تو کوئی اور میزبان کیونکر ہو؟ اسی لئے کھلا میدان مل جائے تو نہ مہمان کی توقیر کا خیال اور نہ پروگرام کا فارمٹ بنانے میں دلچسپی۔ جب بہتری کی خواہش ہی ختم ہو جائے تو بدتری کی جانب سفر شروع ہو جا تا ہے۔ یاد آتے ہیں ضیاء محی الدین، راحت کاظمی، طلعت حسین، طارق عزیز، مستنصر تارڑ، عبید اللہ بیگ، معین اختر، اور نجانے کتنے ایسے نام کہ لکھتے جاو مگر طے نہ کر پاو کہ کس کا نام پہلے لکھیں کون اپنے فن میں کس بلندی پہ کھڑا ہے۔ یہ سب نام اور کئی اور اپنے آپ میں ادارہ ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہی بندہ کتنا کچھ سیکھتا ہے۔ ہم بچپن میں ہمدرد نونہال اسمبلی میں کس قدر آداب، اقدار، سلیقہ، گفتگو، آواز، انداز، الفاظ کتنی چیزوں کا خیال کرتے تھے مگر اب جو میزبانی کے نام پہ آج دکھایا جاتا ہے وہ ریٹنگ کی دوڑ ہے۔ وہ بد لحاظی، بد تمیزی اور بد اخلاقی ہے۔ آج بھی ٹیلنٹ موجود ہے مگر اسے آگے آنے نہیں دیا جائے گا کیونکہ قابلیت اور فن بدتمیزی کے ماحول میں گھٹن کا شکار ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).