کیا فوج متبادل قیادت لا رہی ہے؟


غالب نے کہا تھا، کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ پہلے کچھ آسان باتیں کر لیتے ہیں تاکہ الجھی گرہیں کھل سکیں۔ وطن عزیز میں رائے عامہ کے بہت سے متوازی دھارے پائے جاتے ہیں۔ ایک موضوع قومی سلامتی کا ہے جس پر رائے عامہ کے متعدد متوازی دھارے موجود ہیں۔ قومی سلامتی کی اصطلاح اب ایک ایسے مبہم استعارے کی صورت اختیار کر چکی ہے جس میں ایک جہان آباد ہے۔ اس کے اجزا میں ملکی سلامتی، قومی مفاد، پاکستانیت، افغان جہاد، نظریاتی سرحدیں، ڈیورنڈ لائن، کشمیر پالیسی، سعودی شاہوں پر تنقید، وغیرہ سب شامل ہو چکے ہیں۔ سوشل ازم اور سیکولر ازم جیسے سیاسی بندوبست کی بات کرنا بھی قومی سلامتی کے کچھ دھاروں کی دانست میں الحاد و لادینیت اور مادر پدر آزاد معاشرے کی مانگ ہے جو ملک کے نظریاتی سرحدوں پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو اپنی کم ترین سطح پر سوشل میڈیا پر بیٹھے مڈل پاس آدمی کے ہاتھ میں ہے جو اس سے کبھی وسعت االلہ خان کی گردن ناپنا چاہتا ہے اور کبھی ملالہ کا سر اتارنا چاہتا ہے۔ کہیں یہ ان ٹیلی افلاطونوں کے ہاتھ میں ہے جو لال قلعہ پر پرچم لہرانا چاہتے یا افغانستان سے گھوڑوں پر سوار آنے والے مجاہدین کے منتظر ہیں۔ کہیں کہیں یہ شیخ رشید ، اوریا مقبول جان اور زید حامد جیسے حضرات کے ہاتھ میں ہے جو اسے کسی بھی سیاسی اور نظریاتی مخالف کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک ہڑبونگ مچی ہوئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قومی سلامتی ایک احساس ہے۔ وطن سے محبت کرنے والا ہر شخص وطن کی سلامتی کے لئے مثبت جذبات رکھتا ہے۔ قومی سلامتی کا ایک جزو ملک کا دفاع ہے جس کے اصل پاسبان اس ملک کے عسکری ادارے ہیں۔ سیاست کے سنجیدہ طالبعلم بعض اوقات اپنے عسکری اداروں سے اختلاف کر لیتے ہیں یا کسی معاملے پر سوال اٹھا لیتے ہیں جسے اخباری صفحات اور سوشل میڈیا پر اس تاثر کے ساتھ پھیلایا جاتا ہے جیسے انہیں فوج کے ادارے سے کوئی قائم بالذات اختلاف ہے۔ دیکھیے چار بار کے مارشل لاﺅں سے ایک بات تو سامنے ہے کہ وطن عزیز میں مختلف مواقع پر فوج اقتدار کی جنگ میں فریق رہی ہے۔ یہ وطن ہمارا سانجھا ہے اور یہ فوج ہماری اپنی ہے۔ فوج کے ادارے سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارے ہی بھائی ہیں۔ ہمارے ہی بیٹے ہیں جو اس مٹی کی دفاع پر مامور ہیں۔ ہمارے ملک کا آئین فوج کے ادارے کو سیاست میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم فوج کے کسی مفروضہ سیاسی کردار کے مخالف ہیں۔ ہمارے ملک کے اجتماعی سیاسی شعور نے جمہوریت کو بطور نظام اپنے لئے پسند کیا ہے۔ اس لئے فوج جب اقتدار میں آتی ہے یا سیاست میں مداخلت کرتی ہے تو اس کے سیاسی کردار پر آئینی تناظر میں تنقید سب کا حق ہے۔ اس کا اظہار ہم پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ خدا نخواستہ کبھی پھر ایسا موقع آیا تو آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ یہ کسی فوجی جوان کی قربانی یا کردار پر سوال اٹھانا نہیں ہے۔ یہ عوام کے حق حکمرانی کا سوال ہے۔ اسے بنیادی شہری آزادی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنی فوج سے کوئی قائم بالذات اختلاف نہیں ہے۔ ہم اپنی فوج کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ کسی آئینی سوال پر فوج سے اختلاف ممکن ہے۔ بدقسمتی سے کچھ احباب آئینی سوال سے ہٹ کر دیگر ہر معاملے پر جنرل امیر عبداللہ نیازی پر بھڑاس نکال کر اپنا دل پشوری کرتے ہیں۔ یہ رویہ درست نہیں۔ اجتماعی مکالمے میں زخموں پر نمک پاشی نہیں کی جاتی، باہم مکالمے سے مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف کچھ مخصوص لوگ جن کا فوج کے ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ سیاسی جلسوں، ٹی وی پروگراموں ، اخباری کالموں اور ٹویٹر میں فوج کے نمائندے کی حیثیت سے قوم کے نرخرے پر سوار ہیں۔ کبھی وہ کسی جرنیل کے چہرے کی کیفیات سے ہمیں باخبر کر رہے ہوتے ہیں کہ کب فوج حکومت کو چلتا کرنے والی ہے۔ کبھی وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ فوج کیا سوچ رہی ہے۔ کبھی وہ یہ باور کراتے ہیں کہ وہ فوج کے قریبی حلقوں سے ہیں۔ یہ احباب اپنی ذاتی زندگی میں مکمل لبرل ہوتے ہیں۔ ان کا طرز زندگی وہی ہوتا ہے جس کو یہ ٹی وی پروگراموں میں ’مغربی ‘ کہتے ہیں۔ البتہ یہ چودہ اگست کو شلوار قمیض پر واسکٹ پہن کر قومی مفاد کی خدمت کرتے ہیں۔ خوشی کی خبر ہوتی کہ کرتا واسکٹ یہ قومی جذبے سے سرشار ہو کر پہنتے۔ مشکل یہ ہے کہ ایسا کام وہ اپنی مارکیٹنگ کے لئے کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے آئی ایس پی آر کے کسی آفیشل پروگرام میں ان کو شرکت کا موقع مل جائے تو یہ احباب اگلے چار سال تک ان تصاویر کے بل پر خود کو فوج شناس اور قومی سلامتی کا ماہر ظاہر کرتے ہیں۔ کہیں کسی موقع پر ان کی کوئی خواہش یا امید بر نہ آئے تو پھر چار سال بعد ان کی غیرت جاگ جاتی ہے اور ڈی ایچ اے کے کسی پلاٹ پر کالم اور ٹویٹ لکھ لکھ کر داد شجاعت پاتے ہیں ۔اس کی ماضی میں بھی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔

تازہ مثال معروف صحافی جناب وجاہت ایس خان کی ٹویٹ ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف کو جے آئی ٹی چھری تلے لاتی ہے تو جی ایچ کیو متبادل لیڈر شپ کا فیصلہ کر چکی ہے۔ جناب وجاہت ایس خان کے بارے میں کیا بات کی جائے؟ کسی شخص کی ذات کے بارے میں کلام کرنا ویسے بھی کوئی شریفانہ کام نہیں۔ تاہم چونکہ ان کی حالیہ ٹویٹ نہ صرف ملک کے لئے بدنامی کا سبب ہے بلکہ بذات خود فوج پر کیچڑ اچھالنے کا ایک اوچھا ہتھکنڈا ہے اس لئے اظہار لازم ٹہرا۔ جناب وجاہت ایس خان کوجب ’ ڈان ‘سے ناگزیز وجوہات کی بنیاد پر فارغ کیا گیا تو انہیں اس وقت دیگر صحافیوں کے جلو میں آئی ایس پی آر کے آفیشل پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا۔ یہاں سے ان صاحب نے خود کو فوج شناس اور نجی مجالس میں کم و بیش فوج کا نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور اب معاملہ یہاں تک آن پہنچا کہ جناب قوم کو بتا رہے ہیں کہ کیسے فوج نے متبادل لیڈر شپ جی ایچ کیو میں تیار کی ہے۔

مشکل یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف وجاہت ایس خان کا نہیں ۔ اس نوع کے سینکڑوں صحافی اور ٹیلی افلاطون موجود ہیں جو گاہے گاہے عوام کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ فوج کیا سوچ رہی ہے یا کیا کرنے والی ہے، حالانکہ ان کا فوج سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی فوج سے یہ توقع کرنی چاہیے کہ وہ اتنی سادہ ہے کہ ملکی سیاست کے لئے جی ایچ کیو میں متبادل لیڈر شپ تیار کرے اور پھر اپنا منصوبہ ایسے ٹیلی افلاطونوں کے سامنے رکھے۔ پرویز مشرف کے بعد فوج کی سیاست میں براہ راست مداخلت کے شواہد نہیں ہیں۔ عمران خان کے دھرنے سے یہ تاثر ضرور پھیلا کہ اس کے پیچھے فوج ہے مگر فوج نے امید لگانے والوں کو مایوس کیا۔اس ملک کے ہر ادارے میں ایسے افراد ضرور پائے جاتے ہیں جو سیاست دانوں کو مجموعی طور بدعنوان سمجھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی مسیحا ظاہر ہو اور الہ دین کا چراغ لے کر سارے مسائل بیک جنبش ابرو حل کر دے۔ فوج میں بھی ایسے احباب کا پایا جانا ممکن ہے جو کسی مہم جوئی کے متمنی ہو سکتے ہیں۔ کچھ ایسے احباب نے دھرنے والوں کو شہ دی ہو گی مگر فوج پر اس کا مجموعی طور پر الزام لگانا درست نہیں۔

 فوج کے پاس ذرائع ابلاغ کا اپنا ادارہ موجود ہے۔ فوج کو جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ اپنے ذرائع استعمال کرتی ہے۔ کسی بھی ریاستی ادارے کے نقطہ نظر سے اختلاف کا حق ہر شہری کو حاصل ہے۔ تاہم ہر معاملے میں فوج کے کردار کو عمومی طور پر منفی نظر سے دیکھنا درست نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مگر آئی ایس پی آر کا ایک آدھ چکر لگانے اور کسی ریٹائرڈ یا حاضر سروس جنرل کے ساتھ تصویر بنوانے سے کوئی شخص فوج کا نمائندہ تسلیم نہیں ہو سکتا۔ لگی لپٹی رکھے بغیر یہ بات اب عوام کے سامنے آنی چاہیے کہ ڈاکٹر دانش سے لے کر عامر لیاقت تک اور زید حامد سے لے کر وجاہت ایس خان تک کوئی بھی فوج کا نمائندہ نہیں۔ ان احباب کی ذاتی خواہشات اپنی جگہ مگر یہ نہ فوج کے نمائندے ہیں اور نہ ان کو فوج کی نمائندگی کا حق ہے۔ فوج کے سرکاری نمائندوں سے گزارش ہے کہ فوج کے ادارے کے وقار کے لئے خود کو فوج کا نمائندہ ظاہر کرنے والے عناصر کی سختی سے مذمت کریں۔ بات غالب سے شروع ہوئی تھی، غالب ہی پر ختم کرتے ہیں۔

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں

پھر وہی زندگی ہماری ہے

پھر کھلا ہے درِ عدالتِ ناز

گرم بازارِ فوج داری ہے

ہو رہا ہے جہان میں اندھیر

زلف کی پھر سرشتہ داری ہے

پھر دیا پارۂ جگر نے سوال

ایک فریاد و آہ و زاری ہے

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah