لندن حملہ: انتہا پسندی کا تیزی سے پھیلتا زہر


 کل رات لندن کے فنس بری پارک کے علاقے کی ایک مسجد میں نماز تراویح سے فارغ ہو کر باہر آنے والے مسلمانوں پر ایک شخص نے وین چڑھا دی جس کے نتیجے میں دس افراد زخمی ہوگئے جنہیں لندن کے مختلف ہسپتالوں میں بھیجا گیا ہے۔ ایک شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاع بھی دی گئی ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ شخص وین کی زد میں آکر جاں بحق ہؤا ہے یا وہ عارضہ قلب کی وجہ سے اللہ کو پیارا ہو گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق کچھ لوگ مسجد سے نکلتے ہوئے ایک شخص کی طبیعت اچانک خراب ہوجانے کی وجہ سے اسے سنبھالنے کی کوشش کررہے تھے کہ ایک 48 سالہ شخص نے ان پر وین چڑھا دی۔ برطانیہ کی وزیر اعظم نے اسے مختصر مدت میں دہشت گردی کا چوتھا واقعہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ پولیس اس واقعہ کی دہشت گرد حملہ کے طور پر تحقیقات کررہی ہے۔ موقع پر موجود لوگوں نے جس وقت حملہ آورکو پکڑا تو وہ چیخ رہا تھا کہ ’میں سب مسلمانوں کو مار دوں گا‘۔

مسلم ویلفیر ہاؤس کے ترجمان توفیق کاظمی نے میڈیا کو بتایا ہے کہ مسلمانوں کی ہوشمندی ، صبر اور امام مسجد محمد محمود کی بہادری اور مداخلت کی وجہ سے حملہ آور کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ موقع پر موجود سب لوگ مسلمان تھے لیکن انہوں نے اشتعال میں آکر حملہ آور کو زد و کوب نہیں کیا اور پولیس کے پہنچنے پر بحفاظت اسے پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ برطانیہ میں مارچ سے لے کر اب تک دہشت گردی کا یہ چوتھا واقعہ ہے۔ ان میں سے تین حملوں میں گاڑیاں لوگوں پر چڑھا کر انہیں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ صرف دو ہفتے پہلے تین دہشت گردوں نے لندن برج پر پہلے وین راہگیروں پر چڑھا دی بعد میں نیچے اتر کر چاقوؤں سے وار کرکے آٹھ افراد کو ہلاک کردیا۔ اس حملہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ لیکن کل رات ہونے والا حملہ مسلمانوں کے خلاف مغرب میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نفرت کا شاخسانہ ہے۔ پولیس اب اس بات کی تحقیقات کررہی ہے کہ کیا یہ فرد واحد کی حرکت ہے یا اس کی منصوبہ بندی میں دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔

اس دوران امریکہ کی ریاست ورجینیا سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ وہاں اتوار کو مسجد سے نکل کر گھر جانے والی ایک سترہ سالہ لڑکی کو اغوا کرلیا گیا اور بعد میں اس کے ساتھ زیادتی کرکے اسے ہلاک کردیا گیا۔ لاش ملنے کے بعد پولیس نے حملہ آور کو گرفتار کرلیا ہے لیکن یہ بتانے سے گریز کیا ہے کہ اس نے یہ حملہ کیوں کیا۔ ان دونوں واقعات سے امریکہ اور یورپ کے ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور شدت پسندی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میڈیا، سیاست دان اور تبصرہ نگار کوئی بھی دہشت گرد حملہ ہونے کے بعد ، مسلمانوں کو عام طور سے مطعون کرنے اور صورت حال کے لئے مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان سیاسی لیڈروں میں شامل ہیں جو مغرب میں کسی بھی شدت پسندی کا الزام مسلمانوں پر عائد کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ نے فنس بری میں ہونے والے حملہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زخمی و ہلاک ہونے والوں کے اہل خاندان سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور انتہا پسندی کی دوسری وجہ داعش اور اس کے ہم خیال گروہوں کی طرف سے خاص طورسے مغرب میں آباد مسلمانوں میں سے ایسے لوگوں کو تلاش کرنے کی کوششیں بھی ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے ان کے مذہبی انتہا پسندی پر مبنی پروپیگنڈا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان عناصر کے ذریعے مغربی ممالک میں حملے کرواکے یہ دہشت گرد گروہ اپنی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد مغرب میں آباد مسلمان آبادیوں اور مقامی باشندوں کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنا ہے تاکہ یہ معاشرے خوف اور انتشار کا شکار ہوں۔ داعش اور اس کے ہم خیال عناصر کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ تیزی سے منفی ہوتی جارہی ہے۔ اسی لئے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ امریکہ سے موصول ہونے والے ایک جائزے کے مطابق 2016 کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں 57 فیصد اضافہ ہؤا ہے۔

لندن کے مئیر صادق خان نے فنس بری میں ہونے والے حملہ کے بعد بالکل درست کہا ہے کہ ‘ یہ حملہ ہم سب پر کیا گیا ہے۔ یہ ہماری اقدار پر حملہ ہے۔ یہ دوستی، بھائی چارے، آزادی اور باہمی احترام کے اصولوں پر حملہ ہے‘۔ کثیر اثقافتی معاشروں میں آباد تمام شہریوں کو اس صورت حال سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مسلمان اس نفرت اور انتہا پسندی کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن اگر اس مزاج کی بیخ کنی نہ کی گئی تو کل کو کوئی دوسرا گروہ ایسے عناصر کی زد پر آسکتا ہے۔ اسی طرح معاشرے کے مہذب ارکان کے طور پر مسلمانوں اور ان کے رہنماؤں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں پروان چڑھنے والے انتہا پسند عناصر پر نظر رکھیں اور ان کی روک تھام کے لئے ہر ممکن اقدام کئے جائیں۔

صادق خان نے بجا طور سے کہا ہے کہ دہشت گردی مسلمانوں کے خلاف ہو یا غیر مسلموں کے خلاف، اس سے یکساں طاقت اور دل جمعی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali