کچھ اپنے سیاسی سفر کے بارے میں


 میں اس کالم کے ذریعے اپنے بہت سے نئے دوستوں کو اپنے سیاسی سفر کی بابت بتانا چاہتا ہوں تا کہ انھیں میری مختصر اور ہلکی پھلکی تحریروں کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔

ایک غیر سیاسی لیکن روایتی طور پر مسلم لیگ کی طرف رحجان رکھنے والے خاندان میں آنکھیں کھولنے کے بعد جب میری اپنی سیاسی آنکھ کھلی تو جلد ہی میں سرخ انقلاب کی طرف جانے والی پگڈنڈیوں سے ہوتا ہوا میں اسلامی انقلاب کے داعیان کے دالان میں آن آکھڑا ہوا۔

میں بھی بہت سارے اہل فکرونظر کی طرح اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ پاکستان کو مطلوب و مقصود تبدیلی، مروجہ انتخابی نظام اور موجود دو بڑی پارٹیوں یعنی پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے طرز ہائے سیاست سے نہیں آ سکتی۔

پھر چلتے چلتے اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر ایک طرف الیکشن سے بات نہیں بن رہی تو دوسری طرف انقلاب کے در آنے کے بھی امکانات کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔

جب 1999میں پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تو اندرونی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹس کے حوالے سے میرے خیالات میں تیزی سے نکھار آنا شروع ہو گیا۔ وہی دو بڑی پارٹیاں جو مجھے پاکستان میں سب خرابیوں کی وجہ کبیر لگتی تھیں اب ان کے ساتھ ہمدردی سی پیدا ہونے لگی۔ تاہم چونکہ اس وقت تک میرے تصور کے گھوڑے انقلابی دریاوں کا پانی پی چکے تھے وہ نوازشریف یا بے نظیر صاحبہ کو اپنا سیاسی راہنما قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ ہو پا رہے تھے۔

جوں جوں عوام کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی زندگی پر مشرف پرویز کی آمریت کے منفی اثرات کا میرا تاثر گہرا ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ نوازشریف کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پوزیشن/بیانات وغیرہ نے مجھے احساس دلایا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سے کوئی شخص عوام کو ان کے غصب شدہ حقوق کچھ بہتر طریقے سے واپس دلا سکتا ہے تو وہ نوازشریف ہی ہے۔ موصوف کو جناب ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اس نےاپنے زہر آلود پنجوں سے پکڑ کر اگلے جہان تو نہ پہنچایا لیکن اسے معزول کر کے سعودی عرب بھجوا دیا۔

یقیناً مذکورہ بالا دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کے علاوہ بھی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے سربراہان میں بشمول عمران خان ایسی شخصیات موجود تھیں جو مجھے اچھی لگتی تھیں لیکن ان کی اس خاص موقع پر انتخابات میں کسی خاطر خواہ کامیابی کا کوئی امکان نہ تھا اس لیے ان سے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کے توڑ کی امید رکھنا عبث تھا۔

یہی وہ وقت تھا جب مذکورہ دونوں بڑی کی کارکردگی سے مایوس لوگ عمران خان کی طرف سنجیدگی سے دیکھنے لگے اور میرا تاثر کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے علاوہ کوئی تیسری پارٹی انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتی، زائل ہونے لگا۔ میڈیا نے موصوف کو اتنا اوپر اٹھایا کہ مجھے اس میں ایک انقلابی کی جھلک نظر آنے لگی۔ میں جلد ہی اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستانی عوام کو اگر کوئی بندہ نوازشریف سے بھی بہتر کوئی ڈیل کے کر دے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف “سونامی” کی قیادت کرنے والا راہنما ہی ہے۔

سیاسی سفر کے اس مقام پر پہنچ کر میں نے جلدی سے پاکستان تحریک انصاف میں باقاعدہ ممبرشپ حاصل کرلی۔ پارٹی کی تنظیم اور مالی معاونت کے لیے پرخلوص اور مقدور بھر کوشش کی۔ شاید میرے جذبے کی تڑپ ہی تھی کہ مجھے اپنے ممدوح و محبوب راہنما سے نہ صرف مصافحہ بلکہ معانقہ کا شرف نصیب ہوا۔

اگرچہ میری پارٹی کو 2013 کے انتخابات میں اتنی کامیابی تو نہ ہوئی کہ وہ حکومت بنا سکے لیکن اس کے حاصل کردہ ووٹوں کو دیکھ کر مجھے بہت اچھا بھی لگتا تھا اور اپنی محنت کے ضائع ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔

میرا خیال تھا کہ ایک طرف جب پی ٹی آئی، کے پی میں اپنے بیان کردہ پروگرام کے مطابق اپنی کارکردگی دکھائے گی اور دوسری طرف میرا ہیرو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جب پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنے پیدا ہوئے عوامی سیاست کرنے کے تاثر کے مطابق اپنا قائدانہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرے گا تو حکومت وقت مجبور ہوکر اتنے اچھے اچھے اقدامات کرے گی اور اس طرح پاکستان میں ترقی کی رفتار تیز ہوکر ہر طرف بہتری ہی بہتری نظر آئے گی۔ بصورت دیگر اگر میرے قائد کی کوششوں کے باوجود اگر موجودہ حکومت اپنی پیشرو حکومتوں سے واضح طور پر بہتر نہ ہوگی تو عمران خان کو 2018 کے انتخابات میں کامیاب ہوکر “نیا پاکستان” بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

عمومی طور پر الیکشن کے نتائج کو تسلیم کر لینے کے کچھ عرصہ بعد جب “چار سیٹوں کو کھولنے” کے نعرے کے تحت جب میری پارٹی نے تقریبا باقی سارے مسائل کو ایک طرف رکھ کر الیکشن دھاندلی پر اپنی توجہ مرکوز کر لی اور انتخابی سسٹم میں اصلاح کے اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا تو مجھے پارٹی کے معاملات اس طرح نظر آنے رک گئے جیسے دیکھ کر میں نے اس میں شمولیت اختیار کی تھی۔

جوں جوں بات 2014 کے دھرنوں کی طرف جارہی تھی، (یاد رہے کہ طاہرالقادری صاحب نے بھی ایک دھرنے کا اعلان کر دیا تھا) میرے ذہن میں عمران خان کی سیاست کے بارے شکوک و شہبات بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ ہر آنے والا واقعہ مجھے پارٹی سے دور ہی دور لے کر جا رہا تھا۔ اس دوران حالات و واقعات کا اچھی طرح مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے بعد میں نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اگرچہ یہ اپنے محبوب سے ترک تعلق ایسا معاملہ تھا اور دوسری وجہ اپنے پی ٹی آئی میں قریبی دوستوں کی ناراضگی کا احساس بھی اندر ہی اندر بہت تنگ کر رہا تھا۔ آخر وطن کا مفاد اور اس کے باسیوں کی محبت نے میری یاوری کی اور میں اپنے عمران خان اور پی ٹی آئی سے رومان سے باہر نکل آیا۔

اب میں نہ غیر سیاسی ہوں، نہ سرخ انقلابی ہوں، نہ میں سبز انقلابی ہوں اور نہ کسی پارٹی کا جیالا/متوالا/دیوانہ ہوں۔ بہرحال اس سب کچھ نہ ہونے کے باوجود میں اعلانیہ جانبدار ہوں، اور مجھے اس پر فخر بھی اور میری موجودہ حثیت میرے لیے بہت سکون اور عزت کا وسیلہ بھی ہے۔

میں اپنی جانبداری کی تھوڑی سی وضاحت کر دوں۔ میں پاکستان اور عوام کی جانب ہوں اور میرے سامنے جمہوریت، آزادی، مساوات، شرف انسانیت، رواداری ایسی اعلی اقدار ہیں جن کو بنیاد بنا کر میں پاکستان کے میدان سیاست میں اثرانداز ہونے والے مرئی اور غیرمرئی عوامل کا مطالعہ و مشاہدہ کرکے اپنی رائے بناتا ہوں اور اس کے جس حصے کا اظہار ممکن ہوتا ہے، کر دیتا ہوں۔ ظاہر ہے میرا اظہار اور طرز اظہار کسی کی موافقت میں نظر آتا ہے اور کسی کی مخالفت میں، اس لیے میں کسی کا محبوب ٹھہرتا ہوں اور کوئی مجھے مردود گردانتا ہے، شروع شروع میں کبھی کبھی الجھن سی اور اکیلا پن محسوس ہوتا تھا لیکن اب اپنے جیسی سوچ اور ذوق والے احباب کے ساتھ مل کر چلنے میں بہت مزہ ہے۔ اس لیے اب تو اپنا یہ سفر جاری ہے اور تادم مرگ جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).