بلوغت کا سفر کیسے طے ہو
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے آج سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات اور اس مقصد کے لئے کام کرنے والی جے آئی ٹی کی کارکردگی پر گفتگو کے دوران سہ رکنی بنچ کے روبرو کہا ہے کہ ’ مائی لارڈ ، ایسا لگتا ہے کہ ہم ابھی بڑے ہی نہیں ہوئے ‘۔ اٹارنی کا جنرل کا یہ تبصرہ عدالت کی طرف سے میڈیا میں خبریں سامنے آنے اور جے آئی ٹی کے ارکان کی کردار کشی کے حوالے سے ججوں کی برہمی کے جواب میں سامنے آیا۔ بنچ کے ججوں نے اشتر اوصاف کو یہ بھی باور کروایا کہ وہ وفاق کے نمائیندے ہیں اور عدالت کی معاونت کرنا ، ان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اٹارنی جنرل نے پوری قوم کی ’کمسنی‘ کا رومانوی قصہ بیان کرکے اس معاملہ کا براہ راست جواب دینے سے گریز کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اس وقت عدالت کی طرف سے جو اعتراضات سامنے آئے ہیں ان کا تعلق براہ راست حکومت، اس کے اداروں اور مسلم لیگ (ن) کے نمائیندوں کے طریقہ کار اور طرز کلام سے ہے۔
عدالت کے ججوں نے آج کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دیئے ہیں وہ صورت حال کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں۔ مختلف محکموں پر نواز شریف اور ان کے خاندان کو فائدہ پہنچانے کے لئے ریکارڈ تبدیل کرنے کے علاوہ جے آئی ٹی کے ارکان کو ہراساں کرنے کی کوششیں کرنے کا الزام ہے۔ اب عدالت عظمیٰ کے جج یہ قرار دے رہے ہیں کہ حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف عدالت کے سامنے شواہد پیش کرنے میں تو تاخیر کر رہے ہیں لیکن میڈیا کے ذریعے جھوٹی معلومات سامنے لا کر رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ نواز شریف اوران کے بیٹوں کے لئے آسان ترین راستہ یہ تھا کہ وہ اپنے ’جائز طریقے سے حاصل کردہ وسائل ‘ کے بارے میں ٹھوس ثبوت جے آئی ٹی کے سامنے پیش کردیں تاکہ ان کے بارے میں بد عنوانی اور ناجائز مقاصد کے لئے سرکاری حیثیت استعمال کرنے کے الزامات کا قلع قمع ہو سکے۔
اب یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ برس قوم سے خطاب کرتے ہوئے اور بعد میں قومی اسمبلی میں اپنے خاندان کے وسائل کے حوالے سے سب دستاویزات فراہم کرنے کا جو دعویٰ کیا تھا ، انہیں اسے پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یا تو جن دستاویزات کو نواز شریف اور ان کا خاندان ٹھوس شواہد سمجھتا ہے ، وہ عدالت اور جے آئی ٹی کے لئے قابل قبول نہیں ہیں یا پھر ان کے پاس دولت کے حصول کا واقعی کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ شریف خاندان کو یہ بات ثابت کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ جن وسائل سے پہلے دبئی، پھر قطر اور سعودی عرب میں کاروبار استوار کیا گیا اور جس سے حاصل شدہ منافع سے لندن میں قیمتی اپارٹمنٹس خریدے گئے، وہ دراصل کیسے فراہم کئے گئے تھے۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ یہ دولت پاکستان سے دبئی کیسے پہنچائی گئی۔ پھر وہاں سے اس پر ہونے والے نقصان و منافع کا حساب اور مختلف ملکوں میں اس کی منتقلی کی دستاویزات کی عدم فراہمی کا گورکھ دھندا شبہات کو جنم دینے اور سیاسی اورعدالتی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
عدالت کے سامنے ایک ٹھوس معاملہ پیش ہے۔ نواز شریف اور ان کا خاندان دستاویزات فراہم کرکے ہی اس معاملہ میں خود کو سرخرو کرسکتا ہے۔ تاہم 20 اپریل کو پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ سامنے آنے اور اس کے بعد اکثریتی رائے کے مطابق جے آئی ٹی کے قیام کے بعد سے حکومت کے نمائیندوں نے جے آئی ٹی کے ارکان کے بارے میں شبہات پیدا کرنے اور ان کو بد نیت قرار دینے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ اب یہ الزام سامنے آیا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کو جے آئی ٹی ارکان کی ذاتی معلومات اکٹھی کرنے یا ان کی نگرانی کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو اگر جے آئی ٹی کے ارکان کی نیتوں پر شبہ بھی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی وابستگیوں یا کسی ’ خفیہ ایجنڈا‘ کی وجہ سے نواز شریف کو پھنسانا چاہتے ہیں تو بھی یہ بات تو واضح ہے کہ اگر شریف خاندان ٹھوس شواہد سامنے لائے اور جے آئی ٹی کے سوالوں کا مستک جواب فراہم کیا جائے تو ذاتی پسند ناپسند سے قطع نظر جے آئی ٹی کے ارکان کو انہیں قبول ہی کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ ان تحقیقات کی نگرانی عدالت عظمیٰ کا بنچ کررہا ہے جس کی غیر جانبداری پر بہر حال شریف خاندان نے بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا ہے۔
اس کی بجائے نواز شریف کے حامیوں اورحکومتی ارکان کی یہ کوشش ہے کہ جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کے لئے ہر ہتھکنڈا اختیار کیا جائے۔ اگرچہ تحیقاتی ٹیم کی طرف سے بھی بعض اوقات غیر ذمہ داری کا مظاہرہ سامنے آیا ہے اور اس نے حکومتی اداروں پر الزام تراشی اور اپنے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سہارا لے کر عدالتی فیصلہ سے پہلے ہی یہ تاثرقائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ نواز شریف چونکہ قصور وار ہیں ،ا س لئے جے آئی ٹی کے ارکان کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ لیکن حکومت کے نمائیندوں نے جس سطح پر اس تحقیقاتی ٹیم کے خلاف پروپیگنڈا تیز کیا ہے اور میڈیا کو جس طرح ان مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے، اس سے حکومت اور نواز شریف کے حامی خود اپنے لیڈر کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اسی طرح بعض غیر ضروری معاملات کو اچھال کر اور ان کے خلاف عدالت میں درخواستیں دائر کرکے ان تحقیقات کو سبو تاژ کرنے کی عملی کوششیں کی جارہی ہیں۔
اب سپریم کورٹ کے جج بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے ادارے میڈیا کے ذریعے جھوٹا مواد اور افواہیں پھیلا کر فیصلہ سے پہلے فیصلہ صادر کرنے کی کو ششیں کررہے ہیں۔ یہ ایک سنگین الزام ہے۔ صرف اس تبصرہ سے اس کا جواب فراہم نہیں ہوتا کہ ابھی ہم بالغ نہیں ہوئے۔ بلکہ اٹارنی جنرل اور حکومت کو یہ جواب دینا چاہئے کی بلوغت کا یہ سفر کیسے طے ہوگا۔ کیا سوالات اور الزامات کا براہ راست جواب دے کر بلوغت کا مظاہرہ ہو سکتا ہے یا تحقیقات کرنے والے ہر شخص اور ادارے کی نیت پر شبہ کے ذریعے یہ مقصد حاصل ہوگا۔ فی الوقت تو حکومت اور نواز شریف کے نمائندے غیر ذمہ دارانہ لب و لہجہ اختیار کرکے اور الزام تراشی کی فضا پیدا کرکے نواز شریف کو بے قصور ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی رویہ سپریم کورٹ کے ججوں کو مایوس اور عوام کو مشتعل کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).