ماسٹر چندر کی دو دفعہ موت اور لکشمی کی بھٹکتی روح
پاکستان بننے کے بعد اقلیتوں خصوصاً ہندوؤں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں میں اضافہ ہوتا آ رہا ہے۔ سندھ کی مشہور کہاوت ہے کہ “بھری بیڑی میں وانیو گورو“ مطلب کہ بھری کشتی میں اگر وزن کم کرنا ہوگا تو سب سے پہلے ہندو کو اتارا جائے گا۔ پاکستان بننے سے پہلے سندھ کے اکثر ساہوکاروں میں ہندوؤں کا نام آتا تھا ۔ وڈیرے اور جاگیردار ان سے سود پر قرض لیا کرتے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہ کاروباری ہندو، سیٹھ کہلاتے تھے۔ سندھ کی تعلیمی میدان میں ہندو اساتذہ کا انگریزی اور ریاضی کے مضامین میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ شعبہ طب میں بھی یہ منجھے ہوئے حکیم اور ڈاکٹر رہے ہیں، جن کا صرف لال کڑوا شربت پی کر ہی لوگ شفا یاب ہو جایا کرتے تھے۔ سندھ کی مستند تاریخ لکھنے والوں نے بھی یہ تسلیم کیا کہ قیام پاکستان سے پہلے اس خطے میں ہندو اور مسلمان پیار اور محبت کے ساتھ اکٹھے رہا کرتے تھے۔ اور جب پاک و ہند میں فسادات شروع ہوئے تو ہمارے وڈیروں اور جاگیر داروں نے سازباز کر کے ان کو یہاں سے جانے پر مجبور کیا تاکہ ان کے قرضوں سے نجات پا سکیں اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر سکیں۔ اور اسی طرح سندھ سے صدیوں کا تعلق رکھنے والے ہندو جو اس دھرتی کے اصل وارث تھے روتے دھوتے اپنے آبائی گاؤں، کھیت کھلیانوں کو چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے۔ اور جاتے جاتے سندھ کے مشہور اور مایہ ناز گلوکار ماسٹر چندر کا یہ گیت ” وجن تھا وجن تھا۔ پکی اڈامی۔ وجن تھا”
پرندے اڑ کے جا رہے ہیں۔
اپنے باغ اور وطن چھوڑ کے جا رہے ہیں۔
سندھو کا کنارا، ساز اور صوفی چھوڑ کے جا رہے ہیں۔
اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہاں سے صرف ہمارے جسم جا رہے ہیں روح ھمیشہ یہیں بھٹکتی رہے گی۔
آج بھی اس گیت کو سن کر دل کی دھڑکن بند سی محسوس ہونے لگتی ہے اور آنکھیں بھر آتی ہیں۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماسٹر چندر کا یہ درد بھرا گیت سن کر دل پھٹ جائے گا۔ ماسٹر چندر کے لئے کہا جاتا ہے کہ جس وقت وہ اپنا آبائی گاؤں ٹھارو شاھ، سچل، سامی اور شاھ لطیف کی دھرتی کو چھوڑ کر جا رہا تھا، اصل میں اس دن ماسٹر چندر مر گیا تھا صرف اس کا جسم بمبئ پہنچا تھا۔ بقول سندھ کی موسیقی کے معروف ڈائریکٹر اور تحیقق دان محمد قاسم ماکا کہ ماسٹر چندر دو دفعہ مرے تھے۔ ایک دفعہ تقسیم ہند کے وقت اور دوسری مرتبہ جب انھیں بمبئ میں موت آئی۔
تقسیم ہند کے بعد سندھ میں رہنے والے ہندوؤں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ اور ان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کی آوازیں اقتدار کے ایوانوں اور میڈیا پر سنائی دینے لگیں۔ جیسا کہ کچھ دن پہلے صوبہ سندھ میں ہندو لڑکی رویتا مینگھواڑ کے مبینہ اغوا اور جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کا واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔ یاد رہے اس طرح کے واقعات ہمارے ملک میں رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ چاہے میر پور خاص کی مالھی کالوںی کے مینگھواڑ برادری کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی زیادتیاں ہوں یا پھر ڈھرکی کی انجلی ہو جس کے حق میں سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور کی گئی ہو۔ یا پھر میر پور ماتھیلو کی رنکل کماری کے حوالے سے احتجاج ہو۔ یا پھر لاڑکانہ کی لکشمی کی تڑپتی روح ہو جو انصاف مانگتے مانگتے کہیں سناٹے میں گم ہو گئی۔ یا پھر اجو مینگھواڑ کی بیٹی راديکا مینگھواڑ ہو۔ جس کا باپ حیدرآباد پریس کلب کے باہر انصاف ڈھونڈتا رہا یا پھر عمر کوٹ کی پاروتی کولھی، یا پھر بدین کی ماوی، بادوی کولھی اور پارسا کولھی ہوں جن پر ظالموں نے ظلم کی انتہا کر دی۔ کوٹ ڈیجی کی 12 سال کی کویتا کی کون سنے گا جس کی ایک بہن سنگیتا کو ایک لاکھ روپے کے بدلے فروخت کیا گیا۔
اس جیسے تمام واقعات انصاف کے متلاشی ہیں اور کہیں نہ کہیں ہمارا کمزور ریاستی نظام، مذہبی ٹھیکیدار اور بااثر لوگ ان کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔ یہاں پر میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ ہندو چاہے اونچی ذات کے ہوں یا پھر مینگھواڑ، کولھی، بھیل، اوڈ ہو یا باگڑی ان تمام کو مسلسل زیادتیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کبھی اغوا برائے تاوان تو کبھی سیفٹی اور سیکیورٹی کے نام پر چندا تو کبھی جبری مشقت کے نام پر زمینداروں کی قید۔ نہ ان کی عزت محفوظ نہ ہی عزت نفس۔
آج بھی ان ہندو لڑکیوں کے روحیں انصاف کے لئے بھٹک رہی ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ ہندو شہری وطن عزیر کے ہر شعبے میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ انصاف نہیں کریں گے تو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت کون دے گا۔
ہمارے ملک میں ہر غریب کی عزت نفس غیر محفوظ ہے چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ ہمارے اس مذہبی اور نام نہاد مہذب معاشرے نے اقلیتی برادری کو ہمیشہ کم تر سمجھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
- مریم نواز، ریاست اور ففتھ جنریشن وار فیئر ٹرینڈ - 03/03/2024
- عام انتخابات، انگریز دلہن اور عجیب و غریب آوازیں - 29/02/2024
- بیٹا ہم پر امن ہیں لاٹھی نا مارنا - 31/05/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).