عوام کی شہزادی ۔ بینظیر بھٹو


آج شہید ذوالفقارعلی بھٹوکی پنکی اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی چونسٹھویں سالگرہ ہے۔ گو انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً دس برس بیت چکے مگر وہ اپنے والد محترم کی طرح آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔ بلاشبہ گڑھی خدابخش کے شہید کسی ایسے دیومالائی داستان کی طرح ہیں، جس کے ایک ایک کردار کو صدیاں اپنے آغوش میں سنبھال کررکھتی ہیں۔ جنہیں کروڑوں لوگ یادوں کے طویل رہگذر پر گھنے درختوں کی چھاوں تلے قدم قدم پر محسوس کرتے ہیں۔ جنہیں وہ صبح کی اذان میں تلا ش کرتے ہیں اور زندگی کی گھرائیوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ وہ غریب بستیو ں کے کچے گھروں میں آباد مسکین مکینوں کی ڈھارس ہیں۔ وہ دن کی کڑکتی دھوپ میں تھکے ماندے مسافروں کے لئے برگد کی گھنی چھاوں ہیں۔ وہ پیاسے، بنجر ویرانوں پر بارش کی اس بوند کی طرح ہیں، جوزمین کے جسم میں جذب ہوتے ہی مٹی کی خوشبو کو آزاد کردیتی ہے۔ وہ اجاڑ دیس میں بسنے والے انسانوں کے لئے خوشحالی کی نوید ہیں۔ وہ ایک ایسی تاریخ کا تسلسل ہیں، جس میں انسان مرنے کے بعد بھی زندگی کی علامت بنے رہتے ہیں۔وہ لوگوں سے محبت اور لوگوں کی محبت کے انوکھے، عجیب اور ان مٹ کردار ہیں، جن کا ذکر محفلوں کے مان کو بڑھاتا ہے۔وقت کے بہتے دریا میں یادیں پت جھڑ کے پتوں کی طرح بہتی جارہی ہیں اور مجھے وہ سب زمانے یاد آرہے ہیں، جن کا تعلق شہید اور اسکی بیٹی سے ہے۔ یہ انیس سو نواسی کا سال ہے۔ جنرل ضیا کی مارشل لا اپنے عروج پر ہے۔ زندگی اور زہر کا فرق معلوم کرنا محال ہوگیا ہے۔ ہر طرف آمر کے آوازکی گونج ہے اور سہمے اور ڈر کی ڈائن سے خوفزدہ انسان سر چھپانے کے لئے سائبان ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ شہید ذوالفقارظالم صیاد کی قید میں مقید ہے اور چاہنے والے اپنے محبوب رہنما کی خیریت جاننے کے لئے پریشان۔ ایسے میں معلومات تک رسائی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کا بلیٹن۔ کروڑوں چاہنے والوں میں سے ایک میرے مرحوم نانا، شام ڈھلے ہی اپنے ریڈیو کو ٹیون ان کرکے انتظار کا آغاز کردیتے ہیں۔ ٹھیک رات آٹھ بجے بی بی سی بلیٹن کی سگنیچر ٹیون بجتی ہے، تب بوڑھے شخص کے چھرے پر پریشانی کے آثار نمایا ں ہوجاتے ہیں۔ بلیٹن کے اختتام پر وہ اپنے آپ سے سرگوشی کرتے ہوئے آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر دعا کرتے ہیں۔ پھر پہلی اپریل انیس سو نواسی کو بزرگ اس جہان فانی سے رخصت ہوجاتے ہیں اور ٹھیک تین بعد پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شہید کردیا جاتا ہے۔ بزرگ کی دعا قبول ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے محبوب رہنما کی موت کی خبر سے پہلے ہی مکت ہوجاتے ہیں۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اور سال انیس سو چھیاسی آجاتا ہے۔ اس بار شہید کی بیٹی پنکی چاروں صوبوں کی زنجیر بن کر شہر شہر، قریہ قریہ، بستی بستی گھومتی ہے اور ہر جگہ لاکھوں لوگوں کے مجمعے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ وہ میرپورخاص میں بھی جلسہ کرنے آتی ہیں۔ ہر شخص کی چھرے پر خوش آمدید اور لبوں پر جیئے بھٹو کا نعرہ ہے۔ رات گئے وہ جب اسٹیج پر آتی ہیں تو ہر طرف جیئے بھٹو، صدا جیوے کے نعرے بلند ہوجاتے ہیں۔ میں اسٹیج کے نزدیک آکر محترمہ کو قریب سے دیکھ لیتا ہوں، ایساہی ایک منظر انیس سو ستاسی کو حیدر آبا د میں نظر آتا ہے، جب محترمہ صحافی کالونی میں پیپلز پارٹی کے ایک مرکزی رہنما کے گھر پر آتی ہیں۔ پورا شہر ان کے پیچھے پیچھے تنگ گلیوں میں گھس آتا ہے۔ تل دہرنے کی جگہ نہیں ہوتی، لیکن میں یہاں بھی انہیں قریب سے دیکھنے میں کامیاب ہوجاتا ہوں۔ مجھے یاد ہے انہوں نے سفید رنگ کا جوڑا پہنا ہوا تھا اور چہرے پر گلابی رنگ کا ہلکا میک اپ کیا ہوا تھا۔ زندگی آگے بھڑتی ہے۔ انیس سو اٹھاسی آجاتا ہے۔ وہ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن جاتی ہیں۔ اور پھر اگست نوے کی ایک شام کو غلام اسحاق خان ان کی حکومت برخاست کردیتے ہیں۔ مجھے وہ شام آج بھی یاد ہے۔پھردو ھزار سات کا ایک منظر۔ اکتوبر اٹھارہ کادن ہے اور محترمہ بینظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس لوٹ رہی ہیں۔شہر کراچی کی سڑکوں پر ملک کے کونے کونے سے انسانوں کا سمندر امڈ آیا ہے۔ میں ایک نجی ٹی وی کی میگا ٹرانسمیشن کا حصہ ہوں اور کنٹرول پینل پر بیٹھ کر ایک ایک منظر کا امین بنتا ہوں۔
اسی ماہ کے آخر میں، میں آمریکا کے سب سے بڑے نشریا تی ادارے سی این این کی ٹریننگ کے لئے روانہ ہوتا ہوں۔ تین نومبر کو مشرف ملک میں ایمرجنسی نافذ کردیتے ہیں، تب مجھے سی این این کے نیوز روم میں پاکستان ڈیسک پر اسائنمینٹ ایڈیٹر کی ذمیداری سونپی جاتی ہے اور مجھے محترمہ بینظیر بھٹو سے رابطہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ میں ان کی دبئی کی رہائشگاہ پر رابطہ کرتا ہوں۔ جہاں ان کے شوہر آصف علی زرداری فون اٹھاتے ہیں۔ رسمی تعارف کے بعد وہ مجھے بتاتے ہیں کہ محترمہ اس وقت دبئی ایئر پورٹ پر موجود ہیں اور پاکستان جارہی ہیں۔ وہ مجھے ان کے پی ایس کا نمبر دیتے ہیں، جس پر کال کرنے کے بعد بلآخر میری محترمہ سے پہلی بار، زندگی میں پہلی بار ذاتی طور پر بات چیت ہوتی ہے۔ وہ تھوڑی بہت تفصیلا ت لینے کے بعد سی این این سے براہ راست گفتگو کے لئے راضی ہوجاتی ہیں۔ سال کے آخر میں میں پاکستان واپس لوٹ آتا ہوں اور کراچی میں بلاول ہاوس پرہونے والی ایک ہنگامی پریس کانفرنس اٹینڈ کرتا ہوں۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر میں آگے بڑہ کر محترمہ سے اپنا تعارف کراتا ہوں اور انہیں تین نومبر کوکی گئی ہماری ٹیلیفونک گفتگو یاد دلاتا ہوں۔ وہ عجلت میں ہونے کے باوجود میرا حال معلوم کرتی ہیں اور یوں ان سے پہلی بار مختصرآمنے سامنے بات ہوتی ہے۔
پھر ستائیس دسمبر کی جان لیوا شام آتی ہے، جب محترمہ کے مرگ کی خبر چاروں طرف طوفان کی طرح ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ہر آنکھ نم ہوتی ہے اور ہر دل میں شام گریباں کا سماں ہوتا ہے۔زندگی ایک دم سے بیچارگی کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہر چہرے پر سوالوں کا سلسلہ ہوتا ہے مگر سب ایک دوسرے سے غم چھپانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ زبانیں چپ اور چہرے ساکت معلوم پڑتے ہیں۔ محترمہ کے سوئم کے دن میں سی این این کی ایک ٹیم کے ساتھ چارٹرڈ طیارے کے ذریعے گڑھی خدابخش روانہ ہوتا ہوں ۔ صبح سویرے موئن جو داروایئرپورٹ پر جہاز لینڈ کرتا ہے۔ ہر طرف موت کی سی خاموشی ہے۔ صدیوں سے کئی دکھوں کی داستانیں دل میں سمائے کھڑا موئن جو دارو اس نئے درد سے کراہتا محسوس ہوتا ہے۔ میں دن بھر سی این این ٹیم کے ساتھ کام میں مصروف رہتا ہوں۔میری آنکھ کئی ایک ایسے منظر دیکھتی ہے، جن پر کسی اور دن کچھ نہ کچھ تحریر کرنے کی جسارت کروں گا۔پھر شام ڈھلنے لگتی ہے اور انتیس دسمبر کا سورج اپنی پیلی دھوپ کو آغوش میں سمیٹ کر گہرے درد کا پورٹریٹ بن جاتا ہے اور اگلے ہی چند لمحوں میں دکھ کی چادر اوڑھ کرغائب ہوجاتا ہے۔ دکھوں کی دھرتی کے باسی یونہی روتے روتے تھک جاتے ہیں۔ میں واپسی پر ایک بینر پر یہ تحریر پڑہ کر چونکتا ہوں جس پر لکھا ہوا ہوتا ہے۔ پنڈی کے کوفے سے سندہ کے مدینے آمد پر خو ش آمدید۔

زندگی ہمیشہ کی طرح ہر حال میں آگے بڑہتی رہتی ہے اور میں اپنے ایک دیرینہ دوست کے ساتھ بھٹو صاحب کی برسی پر گڑھی خدابخش جاتا ہوں، جہاں لوگوں کا ہجوم ہمیشہ کی طرح آج بھی جواں ہے اور شہیدوں کے قبروں پر ڈالے گئے پھول کی پتیاں مرجھانے کا نام تک نہیں لیتیں۔ کسی نے پھر میرے کان میں یہ کہا، شاید وہ میں ہی تھا کہ اس دیومالائی داستان کے کردار ایک ایسی تاریخ کا تسلسل ہیں، جس میں انسان مرنے کے بعد بھی زندگی کی علامت بنے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).