کپورہ اینکر


یہ پاکستان کا ایک نمبر چینل ہے اور اس کے ایک نمبر ٹالک شو کا نمبر ایک اینکر ہرے رنگ کی ٹی شرٹ پہنے سیٹ پر براجمان فرما رہا ہے۔ ”ویرات کوہلی کو محمد عامر نے آؤٹ کیا،اس وقت تک کپورے تیار ہوچکے تھے۔ ویرات کوہلی کے آؤٹ ہوتے ہی کپوروں نے بھی کہا کہ اب ہمیں تیار ہوجانا چاہیے اور قریباَ قریباَ یہ کپورے تیار تھے۔دیکھئے اس کے بعد کیا ہوا۔۔۔۔۔“۔

منظر بدلتا ہے غالباَ یہ پاکستان یا شائد دنیا کی سب سے بُری معاف کیجئے گا سب سے بڑی رمضان نشریات کے مناظر ہیں۔ میزبان نما مداری ایک درمیانے درجے کے ہوٹل کے باورچی کے حلیے میں لہک لہک کر گا رہا ہے ”کپوروں کی کٹاکٹ تیار ہو چکی ہے“ (نشریات کے شرکا کی تالیوں کی گونج اور تحسین کا شور)۔اس کے بعد مزا ح سے خالی لیکن تضحیک سے بھرپور چند جملے اور پھرایک پرجوش نعرہ ” کپورہ تحریک زندہ باد“( افسوس !ایک بار پھر پروگرام میں شریک شرکا کی تالیاں اور تحسین کا شور)۔

عجیب بدذوق قسم کی ویڈیو تھی لیکن کسی دوست نے بھیجی تھی اورہم نے اپنے صحافتی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے دیکھا۔ واٹس ایپ پر پیمرا کے ایک انتہائی ذمہ دار صاحب کو یہ ویڈیو اس سوال کے ساتھ بھیجی کہ ”کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں “۔کچھ ہی دیر بعد ٹکا سا جواب ملا JUDGES KNOW BETTER۔

میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے اس ایک نمبر اینکر، میزبان، مذہبی سکالر، سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاراور بزعم خود صدر (اس صدارت کے لئے ریاست کا ہونا ضروری نہیں،آخر جوناگڑھ ریاست کے نواب بھی تو موجود ہیں ) کو ماہرین نفسیات کے ایک بورڈ کے حوالے کردیا جائے تو وہ موصوف کے بارے میں متفقہ رائے کا اظہار کریں گے، یہ متفقہ رائے کیا ہو سکتی ہے اس کا اندازہ ہر قاری اپنی اپنی ذہنی سکت کے مطابق لگا سکتا ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ محترم ابصار عالم کے پیمرا کا سربراہ بننے کے بعد ادارے میں جو ایک ذمہ دار تحرک سامنے آیا اس سے بہت سے میڈیا ہاؤسز شاکی بھی ہیں لیکن قوم کا ایک بڑااور سنجیدہ طبقہ بجاطور پر یہ سمجھتا ہے کہ ٹیلی ویژن سکرین پر جو کچھ آج دکھایا جا رہا ہے اس پر CHECK AND BALANCE کا ایک موثر نظام ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی غیر اخلاقی مواد کے نشر ہونے یا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اِدھر پیمرا ایک نوٹس یا شوکاز جاری کرتا ہے اُدھرعدالت سے ایک سٹے آرڈر جاری ہو جاتا ہے، ہُن کر لو جو کرنا۔

ایک وقت تھا جب ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر ایک لفظ یا چند لمحوں کا ایک منظر بھی کڑی نگرانی سے گزارے بغیر نشر نہیں کیا جاتا تھا اور یہی وہ دور تھا جب ریڈیو اور ٹی وی نے شاہکار تخلیقات کے ڈھیر لگائے جن میں تفریح کے ساتھ ساتھ معاشرتی تعمیر کا پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا۔ کچھ ایسا ہی حال صحافت کا تھا، نجی چینلز کی عدم موجودگی میں پی ٹی وی پر خبروں کے الفاظ اور مناظر کا چناؤ اس قدر احتیاط سے کیا جاتا کہ کسی قسم کی سنسنی یا ہنگامہ خیزی کا تصور تک نہ تھا۔ اخبارات میں ہر خبر کے ہر لفظ پر نگرانی کا ایک کڑا نظام تھا، رپورٹرخبر فائل کرتا جسے سب ایڈیٹر کی عقابی جانچ سے گزرنا پڑتا، خبر کی ابتدائی تیاری کے بعد اسے سینئر سب ایڈیٹرز دیکھا کرتے اور آخر میں ایڈیٹر ایک ایک خبر کی جانچ پڑتال کے بعد اسے اخبار کے صفحے کی زینت بنانے کی سند عطا کرتا۔ لیکن یہ وہ دور تھا جب صحافت کی حیثیت ایک صحیفے سے کم نہ تھی اور غربت کے باوجود صحافی کی ساکھ کسی بھی چیز سے زیادہ مقدم تھی۔ آج کے دور میں تو خبر کا اعزاز یہ ہے کہ صرف ایک دن بعد وہ گلی کی نکڑ پر کھڑی ریڑھی کے پکوڑوں کا لباس ہوجاتی ہے۔ نجی چینلزکا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے جہاں عوام کو سماجی اور سیاسی شعور عطا کیا ہے وہیں ایک حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ بہت کم چینلز ایسے ہیں جہاں پیشہ وارانہ تقاضوں کے مطابق فعال ایڈیٹوریل بورڈ ز خبروں اور حالات حاضرہ کے پروگرامز کے مواد کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں ورنہ بریکنگ اور ریٹنگ کے چکر نے صحافت کو بھی کاروبار میں تبدیل کردیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ ایک خبر جس طرح رپورٹر فائل کرتا ہے بجلی کی رفتار کے ساتھ چند ہی لمحوں بعد وہ اسی حالت میں یا تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ سکرین پر نمودار ہوجاتی ہے۔ پاکستانی چینلز کا حال دیکھا جائے تو گورے کی عقل کو داد دینے کو جی چاہتا ہے جس نے ٹیلی ویژن کو IDIOT BOXکا نام دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کسی حادثے یا سانحے کی صورت میں بھی ایسے مناظر سکرین پر دکھائے جاتے ہیں جو ذہنی اور سماجی مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔

ہر کوئی آزاد صحافت کا علمبردار ضرور ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن پیشہ وارانہ اور قومی ذمہ داری بھی تو کسی بلا کا نام ہے یا نہیں؟ حالیہ تاریخ میں آپ نو گیارہ کے سانحے کو ہی لے لیجئے جس میں ہزاروں انسان لقمہ اجل بن گئے لیکن کسی ٹیلی ویژن کی سکرین یا اخبار کے صفحے پر آپ کو کوئی کٹی پھٹی یا خون آلود لاش کی تصویر یا فوٹیج دیکھنے کو نہیں ملی ہو گی۔ لیکن اگر آپ اس کا موازنہ پاکستان سے کریں تو دہشتگردی کے واقعات کی رپورٹنگ کے دوران جس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ کسی بھی طرح صحافتی پیشہ وارانہ یا قومی اخلاقیات کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ رپورٹنگ کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے تو یورپ،امریکہ،چین یا کوریا میں کسی حادثے کی صورت میں پولیس ایک لائن لگا دیتی ہے میڈیا کے افراد جسے پھلانگنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کی رپورٹنگ میں بھی اس قدر بے احتیاطی کا مظاہر ہ کیا جا تا ہے کہ صحافیوں کی ایک فوج ظفر موج پولیس اور امدادی اداروں کی طرف سے لگائی گئی تمام تر رکاوٹیں پھلانگ کر عین دھماکے کی جگہ پر مٹر گشت کرتی نظر آتی ہے جس کا کم از کم اور یقینی نقصان یہ ہوتا ہے کہ انتہائی اہم شواہد ضائع ہوجاتے ہیں اور خود صحافیوں کی جان بھی مسلسل خطرے میں ہوتی ہے۔ خروٹ آباد کا واقعہ اگر آپ کو بھول گیا ہو تو ذرا یوٹیوب پر مختلف چینلز پر چلنے والے مناظر دیکھ لیجئے جن میں نہتے افراد کو فائرنگ سے مرتے دکھایا گیا۔ ٹی وی سکرینوں پر یہ مناظر کسی غلطی کا شاخسانہ نہیں تھے بلکہ بار بار دکھائے جاتے رہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز تک نہ گونجی۔ حد درجہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے رویوں کو عوام کے ایک بڑے طبقے کی دانستہ یا نادانستہ قبولیت حاصل ہے یعنی

 کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

سوال یہ ہے کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو کیا دینا چاہتے ہیں؟ کاروبارکوئی بری بات نہیں کہ ذرائع ابلاغ سے لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی وابستہ ہے لیکن کیا ہماری صحافت اورہمارے ذرائع ابلاغ دنیا بھر میں مسلمہ خبروں کے حقیقی معیارکو مدنظر رکھتے ہیں؟ کیا خبروں اور تجزیوں میں قومی مفادات یا کم از کم اخلاقیات کو پیش نظر رکھاجاتا ہے؟ کیا اخبارات یا ٹیلی ویژن چینلز تعلیم کے شعبے کی کوئی خدمت کر رہے ہیں؟ قومی شناخت اورسماجی تعمیرو ترقی کے میدان میں ہمارے ذرائع ابلاغ کا حصہ کتنے فیصد ہے ؟مقام شکر ہے کہ حکومت بچوں کے لئے ایک خصوصی ٹیلی ویژن چینل قائم کررہی ہے لیکن کیا نجی شعبے کی اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں؟ بچوں کی شخصیت اور کردارسازی کے لئے ہمارے ذرائع ابلاغ کیا کر رہے ہیں؟ نوجوان کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں ایک واضح،مثبت اور تعمیری راستہ دکھانے کی بجائے اوئے توئے، تو تڑاخ اور گالی گلوچ کی سیاست کا رسیا بنار ہے ہیں۔ افسوس ہم نے نوجوانوں کو پختہ فکر اساتذہ یا دانش کدوں کے سپرد کرنے کی بجائے کپورہ اینکرز کے رحم وکرم پر چھوڑ رکھا ہے۔

 کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).