اوول میں سب اتنا نیا تھا کہ نعیم چشتی جذباتی ہو گئے۔۔۔۔


کرکٹ باقی دنیا کے لیۓ ایک کھیل ہو گا لیکن انڈیا پاکستان میں یہ ایک جنون کا نام ہے۔ لوگ کرکٹ کھیلتے ہیں, کرکٹ دیکھتے ہیں اور کرکٹ ڈسکس کر کے جیتے چلے جاتے ہیں۔

اٹھارہ جون کو اوول کرکٹ گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا تھا۔ برصغیرکے کروڑوں لوگ گھروں میں ٹی وی کے سامنے دم سادھے بیٹھے تھے۔ بازاروں میں گاھک ندارد۔ سڑکوں پہ ٹریفک غائب۔ ارے کروڑوں انسان آج کہاں گم ہو گۓ؟ سب کام چھوڑ چھاڑ سب لوگ پاکستان انڈیا میچ دیکھنے کے لیۓ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے

 محمد عامر باؤلنگ کے لیۓ تیار کھڑے تھے۔ وہ محمد عامر جن کو قسمت نے 2010 میں بلندی سے زمیں پر پٹخ دیا تھا اور پھر پانچ سال بعد ہاتھ تھام کے اٹھا بھی دیا اور کمر تھپکا دی۔ اس عرصے میں محمد عامر کے اعتماد کو کتنی ٹھوکریں لگی ہوں گی یہ وہی جانتا ہے۔ مگر آج اس کے چہرے سے اعتماد چھلک رہا تھا۔ سامنے وہ بلے باز تھا جو اکیلا 264 رنزبنا سکتا تھا۔ جس نے دو بار ون ڈے میں ڈبل سنچری بنا رکھی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں بھی اچھی فارم رہی۔ محمد عامر کی تیسری بال روہت شرما کے پیڈ پہ لگی۔ زوردار اپیل۔ ہاوز دیٹ۔۔۔۔ایمپائر کی انگلی فضا میں بلند ہوئ تو ہر سو جذبات کے طوفان امڈ آۓ۔ اوول کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستانی سپورٹرز چلا رہے تھے۔ سبز پرچم لہرا رہے تھے۔ بھارتی سپورٹر بے جان بیٹھے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں پرچم سر نگوں اور ساکن تھے۔ خاردار تار لگے بارڈر کے مغربی حصے میں کروڑوں انسان خوشی سے اچھل رہے تھے اور اس پار مشرق میں افسوس کی ہوا چل رہی تھی۔ انڈین اوپنر اتنے ہڑبڑاۓ تھے کہ ریویو لینے کا بھی بروقت فیصلہ نہ کر پاۓ۔ پریشر گیم میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ ارے یہ انڈیا پاکستان میچ ہے بھائی۔ وہ بھی آئی سی سی چیمپئن ٹرافی کا فائنل۔ ریویو لیتے تو بھی روہت شرما کو جانا ہی پڑتا۔

ایسا جوش و خروش اوول کو شاید پہلی بار نصیب ہوا تھا۔ سوشل میڈیا پہ کسی نے لکھا “عامر کا دوڑنا, بال پھینکنا, اپیل کرنا اور جشن منانا۔ اوول نے اس سے خوبصورت نظارہ کبھی نہ دیکھا ہو گا۔”

آج سب کچھ نیا نیا سا ہو رہا تھا۔ پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ نے 338 رنز کا پہاڑ کھڑا کر ڈالا تھا۔ فخر زماں نے بیٹنگ میں جان ڈال دی تھی۔ پاکستان 6 سے زیادہ کی اوسط سے کھیلا تھا۔ اور اب انڈین اوپنر کا پہلے اوور میں آوٹ ہونا سب نیا تھا۔ آج کے فائنل میں کچھ روایتی نہ تھا۔

 تیسرا اوور۔ محمد عامر کی اچھال لیتی بال ویرات کوہلی کے بلے کو چھوتی ہوئ سلپ میں کھڑے اظہر علی کی طرف گئی۔ سرحد کے دونوں پار سب کی سانسیں اٹک گئیں۔ بس ایک پل کے لیۓ۔ پھر جذبات پھٹ پڑے۔ انڈیا خوش ہو رہا تھا۔ پاکستان کی حالت غیر تھی۔ ایک قوم کہہ رہی تھی کہ بہت اچھا ہوا۔ دوسری قوم رو رہی تھی کہ بہت برا ہوا۔ کوہلی کا کیچ اظہر علی کے ہاتھ سے نکل گیا۔ عامر غصے میں نہ جانے کیا بول رہے تھے۔ انڈیا کے کپتان, دنیائے کرکٹ کے بہت بڑے بلے باز, رنز کے تعاقب کے لیے شہرت پانے والے ویرات کوہلی کا آسان کیچ ڈراپ ہو گا تو بالر کو غصہ تو آئے گا۔

کوہلی کا کیچ گرا تو مجھے لگا کہ میچ ہاتھوں سے پھسل گیا۔ پورے پاکستان کو یہی کھٹکا لگا۔ کیا کریں آخر پاکستانی جو ٹھہرے ہم۔ بہت بار دل کو سمجھایا کہ کھیل کو اتنا سنجیدہ لینا عقل مندی نہیں۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ مگر دل ناداں کہاں سمجھتا ہے۔ پاکستان ہار جاۓ تو دل مرجھا جاتا ہے۔ جیت جاۓ تو زندگی سے لبریز ہو کے ناچنے لگتا ہے۔

بہت سارے پاکستانی میری طرح ابھی فیس بک, ٹویٹر اور واٹس ایپ پہ اظہر علی کے لیے برے بھلے الفاظ ٹائپ ہی کر رہے تھے کہ محمد عامر نے اگلی بال پھینکی۔ کوہلی پھر چکما کھا گئے۔ اس بار پوائنٹ پہ شاداب خاں نے کیچ دبوچ لیا۔ ساری قوم ناچ رہی تھی۔ اظہر علی نے سکھ کا سانس لیا۔ عامر فٹ بالر کے سٹائل میں جشن منا رہے تھے۔ مسلسل دوگیندوں پہ کوہلی کے دو کیچ۔ اوول تو نے کبھی ایسا نظارہ بھی نہ دیکھا ہو گا۔ بس آج دیکھتا جا اور حیران ہوتا جا۔

کوہلی پویلین واپس لوٹ رہے تھے۔ یہ نظارہ انڈیا کے لیے جتنا بھیانک تھا اتنا ہی پاکستان کے لیے دل کش تھا۔ سب کہہ رہے تھے کہ شکر ہے کیچ ڈراپ نہیں ہوا۔ پاکستانی فیلڈنگ کے لیےکیچ چھوڑنا انوکھی بات نہیں۔ اٹھارہ سالہ نوجوان شاداب نے مایوس نہین کیا۔ ارے کپتان نے اس کل کے چھوکرے پہ اتنا اعتماد کیا کہ سب سے اہم فیلڈ پوزیشن پہ کھڑا کر دیا۔ ابھی کل ہی تو پی ایس ایل سے سیدھا ٹیم میں آیا ہے۔ عمر بھی کم۔ تجربہ بھی ندارد۔ کہا تو ہے کہ آج یہاں سب نیا چل رہا تھا۔ پرانی باتین پرانی ہو چکیں۔

پورے پاکستان کو عامر پہ پیار آ رہا تھا۔ سب صدقے واری ہوئے جاتے تھے۔ آج محمد عامر کا دن تھا۔ تایا صوفی تو ٹی وی اسکرین پہ عامر کو چوم رہے تھے۔ حالانکہ ایسے جذباتی تایا صوفی زندگی بھر نہیں ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا پر آج کرکٹ ہی کرکٹ تھا۔ اور کچھ بھی نہ تھا۔ میچ شروع ہوا تھا تو جیت کی دعائیں تھیں۔ اب نعرے ہی نعرے تھے۔

دھون محمد عامر کا تیسرا شکار بنے۔ محمد عامر واز آن فائر۔ ٹورنامنٹ کا ٹاپ سکورر بھی آؤٹ ہو چکا تھا۔ عامر کے پانچ اوورز نے انڈیا کے ٹاپ آرڈر کو بکھیر دیا تھا۔ انڈیا کی امیدوں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ فیس بک پہ کسی منچلے نے کمنٹ کیا ” لو بھئی پاکستانیو۔ تسبیح مصلا چھڈ دیو تے ڈھول گل وچ پا لوو”۔ لیکن ابھی ڈھول بجانے کا وقت نہیں تھا۔ ابھی دھونی, یووراج, پانڈیا, یادوو اور جدیجا ایسے کھلاڑی تھے جو میچ کا پانسا بدلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ دونوں ٹیموں کے لیے سفر ابھی لمبا تھا۔

کپتان نے شاداب کو بالنگ کے لیے بلایا۔ سامنے سترہ سالہ شاندار کیرئیر اور تجربہ لیے یووراج سنگھ کھڑے تھے۔ چھ گیندوں پہ چھ چھکے لگانے والا یووراج شاداب کے کیرئیر کے لیے خطرہ تھا۔ یووراج کا بلا چل گیا تو شاداب جتنی جلدی انٹرنیشنل کرکٹ کے آسماں پہ ابھرے تھے اتنی جلدی غائب بھی ہو سکتے تھے۔ جب یووراج نے ڈیبیو کیا تھا تب شاداب نے دوسری سالگرہ بھی نہیں دیکھی تھی۔ شاداب کی گیند یووراج کے پیڈ سے لگی۔ اپیل مسترد ہوئی۔ پر اعتماد شاداب کو یقین تھا کہ وہ وکٹ لے چکا ہے۔ کپتان کو قائل کر کے ریویو لیا۔ شاداب کا یقین بالکل صیحح ثابت ہوا۔ یووراج آوٹ ہو گۓ۔ کپتان نے نوجوانوں پہ بھروسہ کیا تو حسن علی, شاداب خاں, رومان رئس, فخر زمان ایسے نو جوانوں نے بھی ٹیم میں نئی روح پھونک دی۔

جب ہردیک پانڈیا نے چھکے چوکے مارے تو انڈین ٹیم کی ڈوبتی نیا کو کچھ سہارا ملا۔ امیدوں کے چراغ پھر سے ٹمٹمانے لگے۔ پانڈیا رن آؤٹ کیا ہوئے سارے چراغ بھک سے بجھ گئے۔ پانڈیا بہت ناخوش تھے۔ پورا پاکستان چھلانگیں لگا رہا تھا۔

اوول کرکٹ گراؤنڈً ! آنکھیں مل کے ذرا دیکھو تو۔ پاکستان چیمپئین ٹرافی کا فائنل 180 رنز کے مارجن سے جیت گیا۔ آج تک آئی سی سی ٹورنامنٹ کے کسی بھی فائنل میں اتنے مارجن سے کوئ ٹیم نہیں جیت پائی۔ آج اوول میں سب نیا ہو رہا تھا۔ 1992 ورلڈ کپ میں ہماری ٹیم کمزور سمجھی جاتی تھی۔ ذرا اس ٹیم کو تو دیکھو۔ آٹھویں نمبر کی ٹیم۔ دو اہم کھلاڑی کرپشن کے الزام میں باہر, ایک ان فٹ ہو کے وطن واپس, ناتجربہ کار نوجوان ٹیم پہلے میچ میں نیچے گر گئی۔ پھر نۓ عزم کے ساتھ اٹھی اور دنیا کی بڑی ٹیموں کو ہرا کر چیمپئین بن گئ۔ پاکستان کا پرچم بلند کیا۔

پاکستان میں ہر طرف ڈھول کی تھاپ, آتش بازی, مٹھائیاں, قہقہے, ڈانس اور فلک شگاف نعرے تھے۔ ظاہر ہے انڈیا میں صورت حال اس کے برعکس۔ اوول میں میچ اٹھارہ جون کو ختم ہو گیا تھا۔ سوشل میڈیا پہ ابھی بھی جاری ہے۔ کوئی مذاق اڑا رہا ہے, کوئ فقرے بازی کر رہا ہے۔ ۔ ویڈیوز اپلوڈ ہو رہی ہیں اور تصاویر وائرل۔ کسی شوخ نے لکھا کہ ” انڈین ٹیم ون ڈے میچ میں بھی فالو آن ہو گئی”۔ کسی ظالم نے لکھا ” انڈیا۔ ریسٹ ان پیس۔”۔ کسی نے مبارکباد دی۔ کسی نے رشی کپور کو تلخ پیغام بھیجے۔ کسی نے کرکٹ کے ذریعے دو طرفہ تعلقات کو جوڑنےکا مشورہ دیا۔ کسی نے دھونی اور سرفراز کے بیٹے کی تصویر کو پسند کیا۔ کسی بھلے آدمی نے گلزار کی نظم شئیر کی جس میں انڈیا پاکستان کے لوگوں کے لیے محبت کا پیغام ہے۔ نفرتیں مٹانے کی تلقین ہے۔ آپس میں کھیلنے کا سندیسہ ہے۔ دشمنی ختم کرنے کی تمنا ہے۔

لکیریں ہیں تو رہنے دو

کسی نے روٹھ کر غصے میں شاید کھینچ دی تھیں

انھی کو بناؤ اب پالا

اور آؤ کبڈی کھیلتے ہیں

لکیریں ہیں تو رہنے دو۔۔۔

میرے پالے میں تم آؤ

مجھے للکارو

میرے ہاتھ پر تم ہاتھ مارو اور بھاگو

تمہیں پکڑوں،لپیٹوں ،پاؤں کھینچوں

اور واپس نہ جانے دوں

تمہارے پالے میں جب کوڈی کوڈی کرتا جاؤں میں

مجھے تم بھی پکڑ لینا

مجھے چھونے نہیں دینا

وہ سرحد کی لکیریں

کسی نے غصے میں یوں کھینچ دی تھیں

انھی کو بناؤ اب پالا

اور آؤ کبڈی کھیلتے ہیں

لکیریں ہیں تو رہنے دو۔۔

لکیریں ہیں تو رہنے دو۔۔

میچ کے آخر میں پاکستانی اور انڈین کھلاڑیوں کو خوش گپیاں لگاتے اور ہنستے مسکراتے بھی دیکھا گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اوول نے آج ایک دن میں کتنے زمانے دیکھ لیے۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti