نماز کا وقفہ اور بیٹے کی دوا
سنہ 1967۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے ایک باریش ڈاکٹر کے کلینک میں داخل ہوتا ہے۔ بچے کی حالت بہت نازک ہے۔ غریب باپ جس کے پاوں میں چپل تک نہیں ہے ڈاکٹر سے التجا کرتا ہے کہ خدارا میرے بیٹے کو بچا لیں۔ ڈاکٹر بہت آرام سے جواب دیتا ہے میری نماز کا وقت ہو ریا ہے واپس آکر دیکھوں گا۔ باپ حیرت زدہ ہو کر پہلے بیٹے کو پھر ڈاکٹر کو دیکھ کر پلٹ جاتا ہے پھر بھاگتا ہے اور ایک ہندو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جو اسی وقت اس کا معائنہ کرکے دوا دیتا ہے یوں وہ بچہ بج جاتا ہے اور آج الحمدللہ وہ ایک استاد ہے۔
سنہ 2016۔ ماہ رمضان ہے۔ حیدرآباد اسٹیشن کے بالکل سامنے الخدمت ہسپتال میں ایک سالہ بچہ ایڈمٹ ہے۔ اس کی حالت کافی خراب ہے ڈاکٹرز قریب قریب جواب دے چکے ہیں مگر ہر باپ کی طرح ایک امید ہے جو اس بچے کے باپ کو اس کا علاج کروانے پر مجبور کر رہی ہے۔ ڈاکٹر اس بچے کے باپ کو بلا کر کہتا ہے کہ ایک دوا جو ہمارے اسٹور میں ختم ہو گئی ہے فی الفور لے آئیں وہ اسی وقت دوا کی پرچی لئے ایک میڈیکل اسٹور سے دوسرے میڈیکل اسٹور تک پاگلوں کی طرح گھوم رہا ہے مگر کہیں مل نہیں پا رہی۔ لطیف آباد حیدرآباد میں ایک بڑا میڈیکل اسٹور ہے۔ سوچا، وہاں ہر دوا مل جاتی ہے، وہاں چیک کرتا ہوں۔ یوں اس کا رخ لطیف آباد نمبر 6 کی جانب ہوجاتا ہے وہاں پہنچ کے دیکھتا ہے افطار کا وقت قریب ہے۔ میڈیکل اسٹور بند کیا جا رہا ہے۔ وہ اسٹور بند کرنے والے لڑکے سے کہتا ہے بیٹا یہ دوا دیکھو مجھے فی الفور چاہیے میرا بیٹا ہسپتال میں ایڈمٹ ہے مگر وہ لڑکا اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جناب افطار کا وقت قریب آگیا ہے۔ اسٹور بند کرنا ہے۔ بحث کا وقت نہیں ہے نہ اس لڑکے کو یہ بتانے کا کہ کسی کی جان بچانا کس قدر افٖضل ہے۔ باپ پلٹ جاتا ہے۔ دوسرے قریب کے میڈیکل اسٹور سے دوا مل جاتی ہے وہ اسے لے کر ہسپتال پہنچ جاتا ہے۔
سنہ 2017۔ مہینہ پھر رمضان کا ہے۔ پھر ایک باپ کو اپنے بیٹے کے لئے دوا لینی ہے۔ وہ میڈیکل اسٹور پہ پہنچتا ہے نماز کا وقت قریب ہے۔ اسے بھی اسی قسم کا جواب ملتا ہے کہ نماز کا وقت ہے۔ باپ التجا کرتا ہے کہ بھائی صرف ایک دوا ہے، دیکھ لو۔ جواب ملتا ہے آدھی بھی نہیں ملے گی۔ پہلے نماز ہے بعد میں کچھ اور۔ باپ بند ہوتے میڈیکل اسٹور کے دروازے سے اندر جھانک کے دیکھتا ہے 3 افراد موجود ہیں۔ کوئی باہر نہیں آتا۔ باپ واپس پلٹ جاتا ہے۔
یہ تینوں سچے واقعات ہیں۔ ان کے کردار بھی زندہ سلامت ہیں۔ ایک واقعہ تو خود میرے ساتھ پیش آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کون ہیں اور کر کیا رہے ہیں؟ جس قرآن پاک کی ماہ رمضان میں بہت زیادہ تلاوت کی جاتی ہے۔ اسی قرآن میں تو اللہ پاک کا حکم ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا پوری انسانینت کو بچا لیا۔ اور ہم نماز کو کیوں اپنے دیگر فرائض سے دامن بچانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ نماز جو میدان جنگ میں بھی ادا کی گئی۔ نہ نماز روکی گئی نہ جنگ۔
آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز۔
اس حقیقت سے کسے انکار ہے کہ اول وقت میں نماز ادا کرنا باعث فضیلت ہے مگر کسی بیمار کی دوا، کسی انسان کی خدمت کو نظر انداز کرکے ہم اگر اول وقت میں اللہ کے حضور حاضر ہو بھی جائیں تو اللہ پاک کی نظر کرم کے مستحق قرار پائیں گے یا غضب کے؟
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا۔
اس رب واحد کی ذات کو واحد و یکتا ماننے والے اس کے عبادت گزار کلمہ گو مسلمانوں سے حد درجہ محبت رکھنے کے باوجود وہ رب کائنات خود کو رب المسلمین کے جگہ رب العالمین اور اپنے محبوب ترین رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے رحمت المسلین کے جگہ رحمت للعالمین کہلوانا پسند فرماتا ہے۔
نماز کی اہمیت اور اس کی بروقت ادائیگی سے کسی کو انکار نہیں ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ انسان اور انسانیت کی اہمیت کو بھی مدنظر رکھا جائے تو یقینی طور پر اللہ تبارک و تعالٰی کی خوشنودی و رضا کے حقدار ہو سکتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض کو نماز پر مقدم کیا جائے مگر جن کے پیشے سے کسی کی دوا، کسی کی صحت، کسی کی زندگی جڑی ہو، انہیں کیا کرنا چاہیے؟ یہ ضرور سوچنے والی بات ہے۔ اشفاق احمد کا ایک جملہ کیا خوب جملہ تھا۔ نماز کی قضا ہے خدمت کی قضا نہیں۔
اللہ تبارک و تعالٰی ہم سب کو انسانیت کا درد عطا فرمائے، آمین۔
- عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی - 21/07/2019
- نئی نسل اور ہماری ذمہ داری - 19/12/2017
- میاں بیوی اور بستر - 12/09/2017
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).