پیار اور یار مسلمان ہو گئے اور سیاسی بھی!


کو ایجوکیشن میں پڑھے تھے مگر لڑکی نہیں دیکھی تھی۔ زیادہ تر ٹیچر خواتین بلکہ لڑکیاں ہی ہوتی تھیں۔ لڑکوں کو سزا ملتی تو انہیں کسی ہم جماعت لڑکی کے ساتھ ڈیسک شیئر کرنا پڑتا تھا۔ مناسب فاصلہ رکھنے کے لیے آدھی کرسی پر آدھی تشریف رکھے منہ پھیرے لال ہوئے بیٹھے رہتے۔ ہم جماعت اس سزا پر الگ سے مذاق اڑاتے۔

ہمسائے میں ایرانی رہتے تھے۔ ان کے گھروں میں چلے جاتے۔ وہاں لڑکیاں خواتین ہاتھ ملا لیا کرتی تھیں۔ کابل کا ایک نیم جہادی پھیرا لگایا تو کمانڈر صاحب نے جہادی قرار دے دیا۔ ان کے گھر پردہ نہیں ہوتا تھا اکثر چلا جاتا۔ روح اللہ سے ملنا ہوتا تھا لیکن ان کے گھر جب تک کچھ کھلا نہ دیا جاتا واپسی ممکن ہی نہیں ہوتی تھی۔ تو ہم بیٹھے رہتے اس گھر میں خواتین سے باتیں کرتے، گل جان بھی بیٹھی ہوتی۔

کلاس میں خوب استی کے ساتھ مانیٹری بھی کرتے رہے۔ ایک شادی پر اپنی سکول ٹیچر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے گلے لگایا۔ اتنی خوبصورت خاتون نے جب اتنے لوگوں کے سامنے گلے لگایا تو بہت اور حسین نظروں کو خود پر غور کرتے پایا تھا۔ میڈم نے پھر وہاں بتا بھی دیا کہ میں اس کی کلاس ٹیچر تھی یہ کابل بھاگ گیا تھا۔ ہم ساری ٹیچر بیٹھ کر ان تینوں نمونوں کی سلامتی کی دعائیں کیا کرتی تھیں۔

کالج میں ابھی تھرڈ ائیر میں ہی تھے کہ جواہرات کی ایک امریکی فرم میں ملازمت ہو گئی۔ کیسے ہوئی یہ ایک الگ کہانی ہے۔ جواہرات ہوں، زیور ہوں، تو ملاقات پھر حسینوں سے ہی ہوتی ہے۔ یعنی لڑکیوں سے ہی ملنا ہوتا تھا روز ہی، ہماری فرم میں زیادہ تر آنے والے لوگ بھی غیر ملکی ہی ہوتے تھے۔ پھر کچھ طبعیت تھی، کچھ شوق تھا، خود بھی قیمتی پتھروں کا زیورات کا کام شروع کیا۔ ملاقات ظاہر ہے حسینوں سے ہی ہوتی تھی کہ ہم انہی کا دل چسپی کا سامان فراہم کرتے تھے۔ یہ سب تھا، خود ہی بھگتا تھا، پھر بھی سچ یہی ہے کہ کوئی لڑکی نہیں دیکھی تھی۔ پشاور ایک ملٹی کلچرل شہر تھا اب بھی ہے۔ حسن کی فراوانی تھی لاتعلقی کی بھی شاید یہی وجہ تھی۔

لڑکی نہ دیکھنے کی ایک وجہ افغانی بھی تھے، قبائلی دوست بھی تھے۔ جن سے سیکھا تھا کہ خاتون کو آتے دیکھ کر نظریں جھکا لیتے ہیں۔ جان پہچان والی ہوں تو منہ پھیر کر بھی کھڑے ہو جاتے تھے۔

لڑکیوں سے جو پہلی انٹریکشن ہوئی وہ انٹرنیٹ پر ہوئی۔ نوے کی دہائی آدھی گزر چکی تھی جب نیٹ ہماری دسترس میں آیا۔ تصور ہی بڑا عجیب بڑا زوردار تھا کہ لڑکا لڑکی اکیلے آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ آپس میں بات کر رہے ہیں اب یہ ان کی اپنی ہمت اور مزاج ہے کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہیں۔

اپنے ہی دوستوں کو ہم دوستوں نے مل کر لڑکیوں کی آئی ڈی بنا بنا کر پھنسایا۔

کیا بوکھلاہٹ ہوتی تھی لڑکوں کی بات کرتے ہوئے۔ ہم دوستوں نے مل کر اپنے گینگ کے سب سے سینئیر اور سب سے خطرناک مشر کو نیٹ پر ایک مشترکہ زنانہ آئی ڈی سے لائن ماری۔ انٹرنیٹ کلب میں ہم تین چار لوگ بیٹھے ہوتے۔ سب الگ الگ کمپیوٹر پر بیٹھے ہوتے۔ ایک بندہ مشر کو ہدایت دینے کے لیے اس کے ساتھ بیٹھا جاتا۔ مشر سے سب سے زیادہ جس نے مار کھائی تھی وہی لڑکی بن کر اسے ہیلو کہتا۔ مشر کلب میں اعلان کرتا ’الا رالا‘ یعنی آ گئی۔ ’ہیلو اے راتہ او ویل‘ مجھے ہیلو کہہ دیا۔ کتنی بار مشر کو اس لڑکی سے ڈیٹ مارنے کو اسلام آباد مری بھیجا۔

ہم لوگ ظاہر ہے مشر کے ساتھ ہی جاتے تھے اس کی حفاظت کے لیے۔ کارخانو مارکیٹ سے تین اوون گاڑی میں رکھتے، یہ اسلام آباد بلیو ایریا میں اتارتے تو اتنے پیسے کرائے کے مل جاتے کہ ہمارا ٹور عالی شان ہو جاتا۔

مشر کی بے تابیاں بڑھ جاتی کہ یہ لڑکی صرف نیٹ پر ہی کیوں جواب دیتی ہے۔ فون کیوں نہیں کرتی بلکہ ایک بار تو وہ موبائل فون بھی ساتھ ہی لے آیا۔ نیٹ پر رومن اردو لکھنا مشر کے لیے ایک مصیبت تھی۔

ہم جو کچھ مشر کے ساتھ کرتے تھے۔ وہ سب کچھ ہمارے ساتھ باری باری ہوا۔ لڑکوں نے لڑکیاں بن بن کے الو بنایا۔

ایسے میں پھر ایک دن ایشوریہ آئی۔ ایشیوریہ آئی۔ بس اینوئیں لکھ دیا ہے اس سے کچھ بھی نہ سمجھیں۔ سچ مچ اک لڑکی سے بات ہوئی۔ اسے جلدی پتہ لگ گیا کہ کوئی بہت پکا ہوا پشاوری خیبری اخروٹ ہتھ لگا ہے۔ جتنا کوئی انسان کسی کو پھر کارٹون بنا سکتا ہے۔ اتنا وسی بابے کو پھر بنایا اس ظالم نے۔ وسی بابا غریب بینڈ باجہ بارات کی ساری خیالی تیاریاں کر چکا تھا۔

بہت بڑا اور دلی صدمہ ہوا ایک بریک اپ کا۔ بہت دن شاید ہفتے لگے سنبھلنے میں۔ بندی نے خود بھی بڑی ہمت بندھائی کہ خیر ہے اتنا سیریس نہیں ہوتے ایک مذاق تھا سوری۔ لیکن سوری سے کچھ ہوتا ہے بھلا۔ ایک ردعمل کا شکار ہو گیا ایک غصے کا بھی کہ ان حسینوں کی ایسی تیسی۔

ایسی تیسی مشن بہت دل چسپ رہا۔ اس مشن نے بہت سکھایا پہلی بار لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ یہ جانا کہ کیوں کہتے ہیں زندگی میں رنگ ان سے ہے۔ ہم تو رنگ دیکھ کر ہی خوش ہوتے ہیں رنگ تو بناتی ہی یہ حسن والے ہیں، خیر۔

آپ کو بہت کہانیاں نہیں سنانی ہے۔ صرف ٹوٹو کا قصہ بتانا ہے جو بڑا ہی مختصر ہے۔ اس سے دوستی نیٹ پر ہوئی تھی۔ وسی بابا ٹوٹو کی کہانی میں جا گھسا تھا۔ ٹوٹو ایک زوردار افیئر چلا رہا تھا، جب وسی بابا کی اینٹری ہوئی۔ لڑکی اس اینٹری کے بعد سیدھی سیدھی ڈبل مائینڈڈ ہو گئی۔ ٹوٹو نے وسی بابے سے کہا کہ بھاگ جا نہیں تو تمھاری خیر نہیں۔ کبھی منتیں کیں کبھی دھمکیاں دیں۔

مشر حسب معمول صورتحال سے واقف تھا۔ اس نے حکم دیا کہ تمھارا قبائلی کارڈ کینسل ہو گا۔ دھمکیوں کے بعد اب تم پر فرض ہے کہ تم جا کر ٹوٹو سے ملو۔ وسی بابے کی بہادری اتنی مثالی تھی کہ جب دوستوں کو کوئی لڑائی کرنی ہوتی تو وہ پہلے وسی کو گھر بھجواتے تھے کہ تو جا اینوئیں پٹے گا، پہلے ان سے پھر ہم سے۔

قصہ مختصر ٹوٹو سے ملاقات کے لیے لاہور پہنچ گیا۔ ٹوٹو ملاقات کے ساتھ ہی ڈھیر ہو گیا، ہم دونوں بیسٹ فرینڈ بن گئے۔ اب تو خیر ہم تینوں ہی بیسٹ فرینڈ ہیں، تیسری وہ حسینہ ہے جس کے لیے ہم لڑ مر رہے تھے۔ بیسٹ فرینڈ بننے کے بعد بھی ہم دونوں نے حسینہ سے مذاکراتی مہم جاری رکھی۔ دونوں بھائیوں نے جی جان سے اپنے اپنے لیے کوشش کی۔ بات کسی کی بھی نہیں بنی اس ظالم نے تیسرے سے شادی کر لی۔

ہم دونوں ہی مشنری لوگ ہیں، بعد میں بھی کی ہم نے اپنی مرضی ہی۔ ٹوٹو سے ایک دن کسی حسینہ نے راہ جاتے کوئی پتہ پوچھا تھا۔ آج وہی حسینہ اس کے تین بچوں کی اماں ہے۔

ٹوٹو اب کسی ایسے پیر کا مرید ہو چکا ہے جو ہر قسم کی شدت پسندی کو جائز سمجھتا ہے۔ ہم دونوں جو بہت بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہی پارٹی پر لائن مارتے رہے اکٹھے قسمت آزماتے رہے۔ آپس میں مذہبی بحث نہیں کرتے کیونکہ اس پر ٹوٹو نے پابندی لگا رکھی ہے۔ یہ پابندی سمجھ بھی آتی ہے کہ مذہب انسان کا جذباتی مسئلہ ہے، حساس معاملہ ہے۔ لیکن اب حسینہ نے آپس میں سیاسی بحث پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

ہم لوگ پندرہ سال میں یہاں پہنچ گئے ہیں کہ اب مذہب کے بعد سیاست پر بات کرنے سے بھی تعلق ٹوٹ جاتے ہیں کہ پیار اور یار دونوں ہی مسلمان بھی ہو گئے ہیں اور سیاسی بھی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi