غربت ۔ ایک سیاسی مسئلہ


کراچی کی گرم مرطوب دوپہر میں سینیٹر نے اپنی گاڑی دکان کے سامنے روکی اور گاڑی کا انجن اور ائیر کنڈیشنر چلتا ہوا چھوڑ دیا تاکہ دس منٹ بعد جب وہ واپس گاڑی میں آکر بیٹھے تو گا ڑی اس کو ٹھنڈی ملے ۔
وہ سامنے ہی ایک پیڑ کے سائے میں کھڑا تھا ۔ پسینوں میں بھیگے ہوئے کپڑے، سائیکل کے کیرئیر پر ایک پھاوڑا اور کدال ۔اپنے گھر سے دورایک پختون مزدور ، شکل سے روزہ دار ۔ سینیٹر نے اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھا یا اور اس کا کھردرا ، پسینے اور مٹی میں بھرا ہوا قومی دولت پیدا کرنے والا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔
”کیسا ہے صاب، خیریت سے ہے ؟“ وہ ہاتھ ملاتے ہوئے ایک لمحے کو مسکرایا ۔
”تم بتاؤ لالا ۔ روزے چل رہے ہیں اس گرمی میں؟ “
” روزہ کیسے چھوڑے گا صاب ۔ گرمی کتنی بھی ہو ۔ “
سینیٹر نے ہاتھ تو ملا لیا لیکن وہ اس مزدور سے نظر نہیں ملا پایا اور جلدی سے دکان میں چلا گیا ۔ جب وہ دکان سے واپس باہر نکلا تو پختون مزدور وہاں سے جاچکا تھا ۔ شاید اس کو دہاڑی مل گئی تھی یا پھر دہاڑی کی تلاش میں وہ کہیں اور نکل گیا تھا ۔
آزادی کے ستر سال بعد بھی ہم کیوں اپنے محنت کشوں سے نظر نہیں ملا سکتے ۔ ظاہر ہے اس لئے کہ تلاش معاش میں اپنے گھر سے دوری، غربت ، جہالت اور بیماری وسائل کی کمی کے مسائل نہیں ہیں بلکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، عدم مساوات اور پیداواری طاقتوں کے لئے مواقع کی عدم فراہمی کے مسائل ہیں ۔ ہمارے صاحبان اقتدار ہر وقت وسائل کی کمی کے مرثیے پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے مسائل صرف اور صرف غلط سیاست اور غلط پالیسی کے نتائج ہیں ۔ سیاست ہم کرتے ہیں ۔ پالیسیاں ہم بناتے ہیں ۔ اورجب تک ہم سیاست اور پالیسی سازی میں پائی جانے والی ان فاش غلطیوں کو پورے سیاسی عزم کے ساتھ دور نہیں کریں گے ملک کے محنت کش اور پسماندہ طبقات کے دیرینہ مسائل کو حل نہیں کرسکیں گے ۔ آج اگر باقی دنیا ہمارے ملک کو اہمیت نہیں دے رہی تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے عوام کو اہمیت نہیں دے رہے ۔ اگر دنیا ہمارے ملک کے بارے میں یہ تاثر رکھتی ہے کہ ان کے بہت سے مسائل ہماری وجہ سے پیدا ہورہے ہیں تو اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے عوام کو درپیش مسائل کے حل کواپنی پہلی ترجیح نہیں سمجھتے ۔
اشرافیہ گڈ گورننس کے راگ الاپتی رہتی ہے ۔ میرے نزدیک گڈ گورننس یہ ہے کہ ریاست کے زیادہ سے زیادہ وسائل ملک سے بیروزگاری ، جہالت اور بیماری ختم کرنے کے لئے مختص کئے جائیں اور ان کو شفاف طریقے سے جدید سائنسی طرز پر خرچ کیا جائے۔ کوئی بھی حکومت کدال پھاوڑے نہیں چلاتی ، نہ ہی کھیتوں اور فیکٹریوں میں محنت مزدوری کرتی ہے ۔ حکومت ایسی پالیسیاں بناتی ہے جن سے کدال پھاوڑے چلانے والے ، فیکٹریوں اور کھیتوں اور کانوں میں محنت مزدوری کرنے والے اپنی پیداواری صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے استعمال کر سکیں ۔ جو بھی ملکی دولت وہ پیدا کر رہے ہیں اس میں ان کا جائز حصہ ہو ۔ یہ صرف ایک اخلاقی معاملہ نہیں ہے بلکہ معاشیات کی ایک حقیقت ہے کیونکہ جب تک عوام کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہوگا ملکی صنعت و زراعت ، کان کنی او ر مجموعی طور پر ملکی پیداوار میں کو ئی قابل قدر اضافہ نہیں جا سکتا ۔ ملکی پیداوار میں اضافے کا براہ راست تعلق مساوات اور معاشی انصاف سے ہے ۔
قومی بجٹ وہ سیاسی دستاویز ہے جس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ ریاست اپنے وسائل کس طبقے سے جمع کر رہی ہے اور کس طبقے کی جیبوں میں ڈال رہی ہے ۔ ہم قومی بجٹ پر سے سرسری طور پر گزر جاتے ہیں ۔ چودہ دن کا اجلا س ہو تا ہے جس میں پارلیمنٹ کے ہر رکن کو ملکی معیشت اور ٹیکس پالیسی پر گفتگو کرنے کے لئے بارہ تیرہ منٹ سے زیادہ نہیں ملتے ۔ دستاویزات کا ایک پہاڑ ہوتا ہے جو ہر رکن کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے ۔ مالیاتی قائمہ کمیٹیوں کو جن کا فرض یہ ہے کہ وہ دستاویزات میں موجود ہر تجویز کا باریک بینی سے جائزہ لیںاپنا کام مکمل کرنے کے لئے دس روز تک نہیں ملتے ۔ تمام پارلیمانی جمہوریتوں میں بجٹ اجلاس دو مہینے کی مدت تک چلتے ہیں۔ کمیٹیاں ایک ایک سطر پر غور و فکر کرتی ہیں۔ ہم جلدی جلدی میں نوکر شاہی کا بنایا ہوا بجٹ دھکیلنا شروع کردیتے ہیں ۔ ایک رحجان میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اس جلدی جلدی کے ماحول میں بہت سے اراکین کی طرف سے صرف وہ تجاویز لائی اور منظور کرائی جاتی ہیں جو ان کے مخصوص علاقے یا کاروباری گروپ کے مفاد میں ہوں ۔ ظاہر ہے کہ اس ماحول اور اس طریقہ کار سے اجتماعی عوامی مفادات جو پہلے ہی نوکر شاہی کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتے مزید پس منظر میں چلے جاتے ہیں ۔
ریاست نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ شاید تمام ممالک میں اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کر تی ہے ۔ ریاستی اہلکار عوام کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان کے سماجی اور معاشی تعلقات اشرافیہ سے ہوتے ہیں ۔ وہ خود ملکی اشرافیہ کا حصہ ہیں اوراس لئے اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے ۔ عوامی نمائندے عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں اور عوام ہی کو جواب دہ ہوتے ہیں اس لئے عوام کے مفادات کا تحفظ ان کی بنیادی اور اولیں ترجیح ہونی چاہئے ۔ ہمیں اب یہ بھی بخوبی سمجھ لینا چاہئے کہ چالاکی کے زمانے گزر چکے۔ اب لفاظی اور تقریر و تحریر کی دلکشی کے زور پر باشعور عوام کو دھوکے نہیں دئے جا سکتے ۔ وہ ریاست اور حکومت کی جانب سے ایسے عملی اقدامات دیکھنے کے خواہاں ہیں جن سے ان کے حالات زندگی جلد از جلد بہتر ہوں ۔
بد قسمتی سے ریاست جس معاشی فلسفے کی پیروی کرتی رہی ہے اس کی اساس یہ ہے کہ قومی وسائل کا رخ اشرافیہ کی جانب موڑ کر سرمائے کی بطخ کو موٹا کیا جائے ۔ محنت کشوں سے یہ کہا جائے کہ ایک دن یہ بطخ سونے کے انڈے دے گی جو محنت کشوں میں تقسیم ہو جائیں گے ۔ ہو یہ رہا ہے کہ اشرافیہ کی بطخ موٹی تو ہمارے وسائل پر ہو رہی ہے لیکن انڈے جا کر پانامہ اور لندن میں دے رہی ہے ۔ محترم وزیر خزانہ سینیٹ میں جب بجٹ پر اپنی تقریر کر رہے تھے تو انہوں نے امید ظاہر کی کہ آگے چل کر ہماری شرح نمو چھ فیصد ہو جائے گی ۔ پھر حزب اختلاف کی جانب دیکھ کردبی زبان سے کہا کہ چھ فیصد شرح نمو پر trickle down کے ذریعے معاشی ترقی کے حاصلات غریب طبقات تک بھی پہنچنا شروع ہو جائیں گے ۔ محترم وزیر خزانہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ Trickle down کا نظریہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشت کے ممالک میں بھی بری طرح ناکام ہو چکا ہے اور اس نے صرف غریبوں کو اور زیادہ غریب اور اشرافیہ کو اور زیادہ امیر بنا یا ہے ۔ محترم وزیر خزانہ یہ بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ Trickle down کے آغاز اور غریبوں کو تھوڑا سا بھی فائدہ پہنچانے کے لئے کم از کم شرح نمو تیرہ چودہ فیصد ہونی چاہئے جو کہ اس آمدنیوں کے فرق میں اضافہ کرنے کے نظام کے تحت آئندہ سو سال میں بھی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ہم تو پہلے ہی سے کہتے رہے تھے کہ ملک معاشی بحران کی جانب جا رہا ہے اور لفاظی اور سنہرے خواب دکھانا حقیقی معاشی مسائل کا حل نہیں ہیں۔ لیکن اب حکومت کے معیشت کے میدان کے مرشد آئی ایم ایف اور عالمی بینک بھی ملکی معیشت کے لئے سنگین خطرات کی خبریں سنا رہے ہیں ۔مالیاتی سامراج کے ان نمائندہ اداروں کی معاشی بحران کی نشاندہی کی وجوہات جو بھی ہوں ، ہم اس بنا پر معیشت کی تباہی کی بات کر رہے تھے کہ محنت کشوں کے استحصال کی اساس پر بنائے گئے عدم مساوات اور غربت بڑھانے کے معاشی نظام میں ایک بنیادی کھوٹ ہے ۔ یہ اوپر اوپر سے دلکش لگتا ہے لیکن اندرونی طور پر کھوکھلا ہوتا ہے ۔
اسی طرح ایک دوسرا نظریہ ‘early harvest’ کا سامنے لایا گیا ہے جس میں پسماندہ علاقوں میں تیزی سے انفراسٹرکچر تعمیر کرنے اور سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ترقی یافتہ علاقوں میں سرمایہ کاری کی جارہی ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ ترقی یافتہ علاقوں میں سرمایہ کاری سے جو آمدنی ہوگی اس کو آگے چل کر پسماندہ علاقوں میں خرچ کیا جائے گا ۔ بالکل جس طرح Trickle down کا معاشی نظریہ اشرافیہ اور محنت کش کے درمیان فرق میں اضافہ کر رہا ہے اسی طرح ‘early harvest’ کا نظریہ ترقی یافتہ علاقوں اور پسماندہ علاقوں کے درمیان فرق کو بڑی شدت کے ساتھ بڑھا رہا ہے ۔ اگر ہم ایک لمحہ کو اخلاقیات ، سماجی انصاف اور آئینی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف معاشیات کے نقطہ نظر سے ہی دیکھیں تو ہمیں یہ پتہ چلے گا کہ طبقات اور علاقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور معیشت کے بحران میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور ملکی پیداوار کو جو کہ در حقیقت صنعت ، زراعت ، بجلی ، کان کنی اور دیگر حقیقی پیداواری شعبوں میں پیداوار پر منحصر ہے طبقات کے درمیان اور علاقوں کے درمیان اس بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے ماحول میں بڑھایا نہیں جاسکتا ۔
آخر کون اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ ملکی دولت کا سفر عوام کی جیبوں سے اشرافیہ کی جیبوں کی جانب اور وہاں سے دوسرے ممالک کی جانب ہے ۔ کون اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ پسماندہ علاقوں کے ہمارے محنت کش اپنے گھر بار کو چھوڑ کے صرف محنت مزدوری کا موقع حاصل کی خاطر ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کی جانب معاشی ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور پھر جب ترقی یافتہ علاقوں میں بھی صنعتی بحران کے باعث ان کو روزی نہیں ملتی تو وہ ہر قانونی غیر قانونی طریقے سے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بیرون ملک روزی کمانے کے لئے نکل جاتے ہیں ۔ اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ایک کروڑ پندرہ لاکھ محنت کش اپنے گھر بار کو چھوڑ کر بیرون ملک کام کرنے پر مجبور ہیں ۔ہم مشرق وسطی کی تیل پیدا کرنے والے ممالک کی عظیم الشان عمارتوں کی تعریف کرتے وقت اس حقیقیت کو کیوں نہیں دیکھ پاتے کہ یہ بلند و بالا عمارتیں اپنی تعمیر کے لئے ہمارے مزدور کے خون پسینے کی محنت کی مرہون منت ہیں ۔ ملکی برآمدات ختم ہوچکی ہیں ۔ ملک درآمدی لابی کے ہاتھوں میں جا چکا ہے ۔ ہمارے محنت کشوں کے گھر اور خاندان ان کی گھروں سے دوری کے باعث تباہ ہو رہے ہیں ہم اس بات پر بغلیں بجاتے ہیں کہ ملک میں زر مبادلہ کی ترسیل ہو رہی ہے ۔ صرف اتنی سی بات کہ اگر پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان محنت کشوں کو معقول اجرت پر اپنے گھر کے نزدیک روزگار میسر ہو تو یہ کیوں تلاش معاش میں ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوں اور پھر وہاں پے درپے ناکامیوں کے بعد کیوں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوں ۔ اگرہمارے ایک کروڑ سے زائد محنت کشوں کو معقول اجرتوں پر ملک کے اندر ان کے گھروں کے قریب مواقع روزگار میسر ہوں تو ملکی پیداوار اور برآمدات میں کتنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ درآمدات میں کتنی کمی لائی جاسکتی ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر میں کتنا اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔
اسکول کے زمانے میں بلراج ساہنی کی ایک فلم ”ہم لوگ “ میں نے دیکھی تھی ۔ ایک سین میں بلراج ساہنی بری طرح کھانس رہے ہیں ۔ ان کی نظریں راستے میں نصب ایک لیمپ پر ہیں جس کی لو بری طرح کانپ رہی ہے ۔ ایک راہگیر چلتے چلتے رکتا ہے اور ان سے کہتا ہے ۔ ”بھیا اس کے بہیتر (اندر) کھوٹ ہے ۔ “ اگر بھیتر کھوٹ ہو گا تو تیز ہوا چلے یا نہ چلے ، ہر طرف کتنے ہی شیشے لگے ہوئے ہوں چراغ بجھ جائے گا ۔ ہماری معیشت کا کھوٹ بھیتر کا کھوٹ ہے ۔ جب تک اس کے بھیتر کے کھوٹ کو ٹھیک نہیں کیا جائے گا معیشت اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہوسکتی ۔
پاکستانی معیشت کے اوپر مضامین کے اس سلسلے میں میری کوشش ہوگی کہ معیشت کی ان اندرونی کمزوریوں کی نشاندہی کی جائے اور ان کے حل تلاش کئے جائیں ۔ پتہ تو چلے ، بات تو ہو کہ ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں اور کس طرح ان غلطیوں کو درست کیا جاسکتا ہے ۔
( جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).