ایک بادشاہ کا غضب اور ایک عورت کی طاقت (2)


شادی کے لئے شاندار تیاریاں کی گئیں- شہرزاد کا لباس سنہرے دھاگوں سے تیار کیا گیا- اس کے لئے سمندروں سے موتی کھوج کر لاۓ گۓ- اس کے گلوبند میں انڈے کے برابر ہیرا سجایا گیا- پوری سلطنت اور دنیا بھر سے چن کر عطر اسکی خدمت میں پیش کیے گۓ-

اسے مزید خوبصورت بنانے کے لئے کئی دنوں تک طرح طرح کی جڑی بوٹیاں، تیل اور محلول اسکے جسم پر ملے گۓ- مہندی کے خوبصورت و نازک نقش سے اس کے ہاتھ اور پیر سجاۓ گۓ-

شادی کی رات، دلہن کی سیج دور دراز کے باغوں سے لاۓ گۓ پھولوں سے سجائی گئی- کمرے کے چاروں کونوں اور بستر کے نیچے خوشبودار گاؤ لوبان جلاۓ گۓ-

لیکن آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ سب بادشاہ کے حکم پر ہو رہا تھا- وہ شادی کی رات سے زیادہ، اس کے بعد آنے والی صبح کی تیاریوں میں دلچسپی رکھتا تھا- دلہن کا سر قلم کرنے کے لئے سب سے وزنی اور تیز تلوار کا انتخاب کیا گیا اور اسکا خون جمع کرنے کے لئے بڑے بڑے برتن فرش پر رکھے گۓ-

بادشاہ بذات خود ہر دلہن کے لئے جلاد کا انتخاب کرتا، جتنی زیادہ خوبصورت دلہن ہوتی، جلاد اتنا ہی زیادہ خونخوار ہوتا- سر قلم ہونے کے بعد خصوصی ملازم فرش کی صفائی پر مامور تھے- بادشاہ چاہتا تھا کہ اس ظلم کے تمام نشانات منٹوں میں صاف کر دیے جائیں- اگر بدقسمتی سے خون کا ایک قطرہ بھی نظر آجاتا تو صفائی کرنے والوں کی پوری ٹیم کا سر قلم کر دیا جاتا-

بادشاہ یہ چاہتا تھا کہ اس کی عوام صرف یہ یاد رکھے کہ کس طرح پہلی ملکہ نے بادشاہ کو دھوکہ دیا، کس طرح وہ بادشاہ کی غیر موجودگی میں ایک غلام کے ساتھ سوتی اور باغ میں فحش رقص کرتی تھی-

اس نے اپنے پاگل پن کو ایک احسان کا تاثر دینے کی کوشش کی- وہ چاہتا تھا لوگ یہ سمجھیں کہ روزانہ ایک کنواری لڑکی سے شادی کر کے اور دوسری صبح اسے قتل کروا کر وہ ان سب کو ایک بہت بڑی برائی سے بچا رہا ہے-

وہ ناصرف یہ چاہتا تھا کہ اس ظلم کے تمام نشانات مٹ جائیں بلکہ اس نے یہ بھی یقینی بنا دیا کہ باہر کی دنیا کو محل کر اندر ہونے والے کارروائیوں کی بھنک بھی نہ پڑے، کس طرح دلہنوں کو آرام گاہ سے باہر گھسیٹ کر نکالا جاتا ہے، کس طرح وہ اپنی زندگی بخشنے کے لئے گڑگڑاتی ہیں، کس طرح ذبح ہو جانے کے بعد بھی انکے جسم زندگی کی طرف لوٹنے کے لئے دیر تک پھڑ پھڑاتے رہتے ہیں، کس طرح اس پاس کی زمین اور بعض اوقات بادشاہ کا لباس بھی خون سے سرخ ہو جاتے ہیں- نہیں، وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ سب باہر کے لوگوں کو پتہ چلے-

چناچہ اس بھیانک کھیل میں ملوث پورے عملے کے کانوں میں اس نے پگھلا ہوا سیسہ ڈلوا دیا- تاکہ وہ ان مظلوم دلہنوں کی فریاد اور رونا پیٹنا نہ سن سکیں- اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو وہ یہ سب کسی کو نہیں بتا سکتے تھے کیونکہ انکی زبانیں کاٹ دی گئی تھیں-

یہ سب سننے کے بعد آپ یقیناً یہ سوچ ہوں گے کہ دلہن کے لئے یہ ساری تیاریاں شہرزاد کے باپ نے کی ہونگی آخر کو وہ وزیر اعظم تھا- جی نہیں، ان سب سے اس کا کچھ لینا دینا نہ تھا- وہ ان سب میں ملوث نہیں ہونا چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جو راستہ اسکی بیٹی نے چنا ہے وہ صرف اور صرف موت کی طرف لے جاتا ہے-

“وہ شادی کی سیج پر نہیں، قتل گاہ کی طرف جا رہی تھی”

لیکن وہ اس معاملے میں مجبور تھا- وہ بادشاہ کے حکم پر سینکڑوں معصوم لڑکیاں اس قتل گاہ میں لایا تھا، اور اب سواۓ اسکی دو بیٹیوں، شہرزاد اور دنیا زاد، کے سلطنت میں کوئی اور کنواری لڑکی نہیں بچی تھی- سینکڑوں ماری گئی تھیں اور ہزاروں اس ملک سے کوچ کر گئی تھیں، جب ایک ملک پر ایسے ظالم حکمران کی حکومت ہو تو لوگ یہی کرتے ہیں-

جب بادشاہ نے شہرزاد کو لانے کا حکم دیا تب وزیر اعظم نے بھی وہاں سے بھاگنے کا سوچا لیکن اسکی بیٹی نے انکار کر دیا- وہ یہیں رک کر اس شیطانی کھیل سے لڑنے اور اس کا خاتمے کا ارادہ رکھتی تھی-

وہ جانتا تھا کہ وہ جوان اور کمزور ہے اور اسکا کوئی حمایتی بھی نہیں ہے- وہ یہ بھی جانتا تھا کہ بحیثیت ایک عورت کے اس کا، اس طاقتور جابر بادشاہ سے کوئی مقابلہ نہ تھا-

لیکن شہرزاد یہ جانتی تھی کہ بحیثیت ایک عورت کے وہی تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے- وہ اپنی کمزوریوں سے واقف تھی لیکن یہاں لائی اور قتل کی جانے والی دوسری لڑکیوں کے برعکس وہ یہ بھی جانتی تھی کہ انہیں کسطرح طاقت میں بدلہ جاسکتا ہے-

بادشاہ بھی جانتا تھا کہ شہرزاد ضدی اور جراتمند ہے- اس کے جاسوسوں نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم اپنی بیٹیوں کو بچانے کے لئے ملک سے بھاگ رہا تھا مگر شہرزاد نے اسے روک دیا- چناچہ بادشاہ نے بھی شہرزاد کو زیر کرنے کے لئے ایک دو چالیں تیار کر لیں-

حجرہ عروسی میں داخل ہوتے ہی بادشاہ نے جلتے ہوے لوبان کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ، “یہ سب کیا ہے ؟”

“جذبات کی خوشبو، عالی جاہ “، شہرزاد نے جواب دیا-

“مجھے خون کی بو زیادہ پسند ہے “، بادشاہ نے کمرے کا جائزہ لیتے ہوۓ کہا- “یہاں اتنے پھول کیوں سجاۓ گۓ ہیں ؟”

“یہ چاہت کے پھول ہیں، عالی جاہ “، شہرزاد بولی-

یہ سن کر بادشاہ باغیچے کی کھڑکی کی طرف گیا اور اسے کھول کر کھڑا ہو گیا-

وہاں ایک خونخوار شخص، تیز روشنی میں کھڑا تلوار تیز کر رہا تھا-

“یہ دیکھ رہی ہوں تم؟”، بادشاہ نے پوچھا-

“آج کی رات محبّت نے مجھے اندھا کر دیا ہے، عالی جاہ”، شہرزاد نے کہا- “کل صبح میں دوسری باتوں پر توجہ دوں گی-“

“اب کوئی کل نہیں آۓ گا”، بادشاہ نے کہا-

“سورج بادلوں کے پیچھے بھی چمکتا ہے، کل صبح ضرور آۓ گی “، شہرزاد بہت پرامید تھی-

“دیکھتے ہیں”، یہ کہتے ہوۓ بادشاہ نے دروازہ کھولا- ایک غلام نے چھوٹی سی بوری کمرے میں پھینکی، بوری کے اندر کوئی چیز تکلیف اور غصّے سے چلّانے لگی-

جیسے ہی بوری کا مونہہ کھلا، اس میں سے ایک بلی نکل کر کھڑکی کی طرف بھاگی، لیکن اس سے پہلے کے وہ کھڑکی تک پنہچتی، بادشاہ نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس کے دو ٹکڑے کر دیے-

پھر شہرزاد کے چہرے کے سامنے تلوار لہراتے ہوۓ بولا ،”مجھے پریشان کیے جانا پسند نہیں “-

“یہ تو ایک بلا تھا، اگر کوئی بلی ہوتی تو کبھی یوں بھاگنے کی کوشش نہ کرتی”، شہرزاد نے مسکرا کر کہا-

مسکراہٹ دیکھ کر بادشاہ گھبرا گیا- اس نے تلوار میان میں ڈالی اور کمرے کے بیچ میں کھڑا ہوگیا، کافی دیر یوں ہی گزر گئی- پھر ایک کرسی پر بیٹھ کر اس نے شہرزاد سے پانی لانے کو کہا-

“جی، حضور والا” ، یہ کہتے ہوۓ اس نے بادشاہ کی طرف پانی کا گلاس بڑھایا پھر بولی، ” پانی بالکل ایک مرہم کی طرح ہے کیوں کہ اس میں تبدیل ہوجانے کی صلاحیت ہے بالکل ایک عورت کی طرح”-

“تبدیل ہونے کی صلاحیت عورت میں نہیں مرد میں ہوتی ہے، عورت کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی”، بادشاہ بگڑ گیا-

“اگر آپ کے خیال میں پانی بے بس ہے تو پھر عورت بھی بے بس ہوتی ہو گی”، شہرزاد پھر مسکرائی-

“اس کا سر قلم کرنے سے پہلے میں دو کام ضرور کروں گا، ایک تو اس سے قبول کرواؤں گا کہ عورت کمزور ہوتی ہے دوسرے اس کی یہ مسکراہٹ اس کے چہرے سے مٹا دوں گا”، بادشاہ نے دل میں تہیہ کر لیا-

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).