ایک بادشاہ کا غضب اور ایک عورت کی طاقت (3)


وہ بہار کی ایک شام تھی، پارک مختلف آوازوں سے گونج رہا تھا، انسانوں اور جانوروں دونوں کی- بچے ہنس رہے تھے، کتے بھونک رہے تھے- جوان ماؤں نے اپنے بچوں کو پکارا اور انہیں تمیز سے رہنے کو کہا- بچے کہاں سنتے ہیں وہ اپنی پکڑم پکڑائ میں مگن رہے-

‘پکڑ لیا! ‘، بچے نے دوسرے بچے کو چھوتے ہوے کہا، ‘اب تم چور بنو گی’-

‘نہیں بالکل نہیں، میں تمھارے پکڑنے سے پہلے گھر پہنچ گئی تھی’، دوسرے بچے نے کہا-

‘سمندر گہرا ہے، میری بہنا، سمندر گہرا ہے’، دنیازاد بولی-

‘کتنا گہرا، میری بہنا ، کتنا گہرا ؟’، شہرزاد نے پوچھا-

‘میرے پیروں تک، پیاری بہن، میرے پیروں تک’، دنیازاد نے جواب دیا-

‘کتنا گہرا بہن اور کتنا گہرا ؟ ‘

”میری گھٹنوں تک، میری کمر تک، میرے سینے تک، میری آنکھوں تک !’-

وہ دونوں اپنے گھر تک پہنچنے سے پہلے ہی پکڑی گئیں اور محل پہنچا دی گئی تھیں- اب دونوں اس فکر میں تھیں کہ اپنی جان کیسے بچائیں-

لیکن کیا واقعی میں کبھی کوئی گھر تھا؟ شاید نہیں، وہ تبھی تک محفوظ تھیں جب تک عزت و ناموس کے جنون میں مبتلا عمر رسیدہ مردوں کے بناۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق چلتی رہتیں-

‘ آخر ان کی عزت کا معاملہ ہمیشہ عورت کے جسم سے ہی کیوں جڑا ہوتا ہے’، دنیازاد نے پوچھا-

‘کیونکہ اس طرح وہ آزادی سے اپنی مردانگی کی نمائش کر سکتے ہیں’، شہرزاد نے کہا-

دنیا کے ایک دوسرے کونے پر، جہاں بہار بہت مختصر ہوتی ہے اور گردآلود سردیوں کے فوراً بعد وہاں گھٹن زدہ گرمیاں شروع ہوجاتی ہیں، ایک ‘کاری’ اپنے بھائی سے کہہ رہی ہے، ‘ میں نے اپنی عزت کا سودا نہیں کیا، میری آبرو لوٹی گئی ہے’-

‘اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا زنا، زنا ہے زبردستی ہو یا مرضی سے- تم نے خاندان کی عزت خاک میں ملائی ہے’، بھائی نے اپنی بندوق سے بہن کا نشانہ لیتے ہوۓ کہا-

‘پکڑ لیا’، لڑکے نے لڑکی کو چھوتے ہوۓ کہا-

‘ نہیں، نہیں ! میں تو اپنے گھر پر ہوں’، لڑکی نے جواب دیا-

‘لیکن گھر ہے کہاں؟’، لڑکے نے سوال کیا-

لڑکی نے سسکتے ہوۓ اپنے اردگرد دیکھا-

‘بادشاہ ایک برا انسان تھا، لیکن اس سے بھی برے وہ لوگ تھے جنہوں نے بادشاہ کی طرفداری میں کہانی لکھی’، شہرزاد بولی- ‘ وہ کہتے تھے کہ بادشاہ نے روزانہ ایک عورت کا قتل کر کے بالکل ٹھیک کیا کیونکہ اسکی پہلی بیوی نے اس سے بیوفائی کی تھی’-

‘ہاں، لیکن ساتھ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ تم اس سے محبت کرتی تھیں’، دنیازاد نے کہا-

‘وہ جو چاہیں کہہ سکتے ہیں مگر وہ محبت کو کبھی سمجھ نہیں پائیں گے’، شہرزاد نے جواب دیا-

‘لیکن وہ اپنی ماؤں کی محبت کو تو سمجھتے ہیں’، دنیازاد بولی-

‘وہ نہیں سمجھتے وہ اسکا مطالبہ کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح جیسے اپنی بہنوں اور بیویوں سے محبت کا مطالبہ کرتے ہیں’، شہرزاد نے کہا، ‘ پاکیزہ اور بے غرض محبت سے مرد گھبراتے ہیں ‘-

‘کیوں؟ ‘، دنیازاد نے پوچھا-

‘مرد جس چیز پر اپنا ہاتھ رکھ لیں اسے اپنی ملکیت بنانا چاہتے ہیں- لیکن محبت کو محسوس کیا جاتا ہے بانٹا جاتا ہے- یہ کسی کی ملکیت نہیں بن سکتی -‘

‘اور جس پر یہ قبضہ نہیں کر سکتے اسے تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں’، دنیازاد نے اس میں اضافہ کرتے ہوے پوچھا،’ تم نے اسے رام کرلیا، کیسے؟’

‘ہم عورتوں کو اکثر جنگلی جانوروں کو سدھانا پڑتا ہے’، یہ شہرزاد کا جواب تھا-

بادشاہ جو شادی کی رات سے زیادہ اگلی صبح قتل کے پروگرام میں دلچسپی رکھتا تھا، شہرزاد سے بولا، ‘جو تم نے کہا ہے وہ ثابت کرو ..ورنہ’-

‘عالی جاہ، مجھے تو ویسے بھی مر جانا ہے، میرے ساتھ اس سے برا اور کیا ہو سکتا ہے’، شہرزاد نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا-

بادشاہ کو بھی احساس ہوگیا کہ اس کے پاس لڑکی کو ڈرانے کے لئے کوئی اور حربہ نہیں، چناچہ وہ کمرے سے باہر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد شب خوابی کے لباس میں واپس آیا- لیکن وہ اپنی تلوار ساتھ لانا نہیں بھولا تھا-

‘ثابت کرو کہ عورت، مرد سے زیادہ سمجھدار ہوتی ہے ورنہ’، اس نے تلوار کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا-

‘عالی جاہ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ موت سے زیادہ بری چیز اور کچھ نہیں- میرے پاس اپنا نکتہ ثابت کرنے کے لئے ایک ہزار ایک کہانیاں ہیں، وہ میں آپ کو سنا سکتی ہوں لیکن خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ مجھے کہانیاں سنانا پسند ہیں’، شہرزاد بولی-

‘ جو بھی ہے، شروع کرو’، بادشاہ نے اشارہ کیا-

‘لیکن ایک مسئلہ ہے عالی جاہ’، شہرزاد نے کہا-

‘اور وہ مسئلہ کیا ہے؟’، بادشاہ نے پوچھا-

‘میں کہانی اس وقت تک نہیں سنا سکتی جبتک میری چھوٹی بہن ساتھ نہ ہو’، شہرزاد نے بتایا-

چناچہ فوراً دنیازاد کو بلوایا گیا-

دنیازاد آئی اور اس نے ادب کے ساتھ فرشی سلام کیا جیسے تمام مرد اور عورتوں کو کرنا ہوتا ہے، اور پھر بادشاہ کے قدموں میں بیٹھ گئی- بعض مردوں کو اچھا لگتا ہے جب عورتیں انکے قدموں کے پاس بیٹھتی ہیں-

دنیازاد کے پاس بیٹھنے کے ساتھ ہی شہرزاد نے اپنی کہانی شروع کردی-

‘بغداد کے قریب ایک شہر کا سردار تاجر اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر لوگوں سے وصولی کرنے نکلا- دوپہر کے وقت وہ ایک نہر کے کنارے رک گیا، گھوڑے کو درخت سے باندھ کر کھانا کھانے لگا-

‘کھانا ختم کر کے اس نے کچھ کھجوریں نکالیں اور انہیں بھی کھانے لگا- کھانے کے بعد اس نے بیج زور سے پھینکے کہ اچانک ایک بڑا سا خوفناک عفریت ہاتھ میں تلوار لئے نمودار ہوا-

‘تم نے میرے بیٹے کی آنکھ پھوڑ دی، مرنے کے لئے تیار ہوجاؤ’، عفریت نے للکارا-

چونکہ شہرزاد داستان گوئی میں ماہر تھی چناچہ تاجر اور عفریت کی کہانی آگے تین شیخوں تک چلی گئی—جن میں سے ایک کے پاس غزال تھا، دوسرے کے پاس دو شکاری کتے اور تیسرے کے پاس ایک خچر تھا—- اور ان سے آگے مچھیرے اور جننی کی کہانی تک-

پارک میں شہرزاد اگلی سردیوں کے لئے گرم شال بنتے بنتے رک گئی، اور دنیازاد سے بولی،’اندھیرا بڑھ رہا ہے، چلو گھر چلیں، الف لیلیٰ ہو یا اسکندریہ عورت آج بھی کہیں محفوظ نہیں ہے’-

وہ چھوٹی سی بچی جو سمجھ رہی تھی اس کے پاس گھر ہے، روتی ہوئی کار تک گئی جہاں اس کی ماں اس کا انتظار کر رہی تھی-

کاری نے آخری بار اپنے بھائی کی طرف دیکھتے ہوے خود سے سوال کیا، ‘ آخر میری عزت کی حفاظت کے لئے میرا مارنا کیوں ضروری ہے؟’

بادشاہ نے شہرزاد کو ایک دن مزید زندہ رہنے دیا-

شہرزاد جانتی تھی کہ اسے ایک وقت میں ایک ہی قدم اٹھانا ہے اس لئے اسے فکر نہیں تھی- پارک میں اندھیرا آہستہ آھستہ روشنی کو نگل گیا لیکن شہرزاد نے کار میں بھی اپنی بنائی جاری رکھی-

اور اس کی ادھوری شال نے دنیا کو نرمی کے ساتھ اپنی گرم آغوش میں لے لیا-

(ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).