کھیل تو کھیل ہے!
گزشتہ ہفتہ چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کی کامیابی قابلِ صد مبارکباد اور ستائش ہے۔ روایتی طور پر تو کہہ سکتے ہیں کہ اس مقابلہ میں پاکستان کی ٹیم ایک کمزور ٹیم کے طورپر شامل ہوئی تھی، اور ان مقابلوں میں اس کا نمبر آخری اور آٹھواں تھا۔ پاکستان ان مقابلوں کے پہلے ہی میچ میں بھارت سے 124 رن سے شکست کھا گیا تھا۔ روایتی فکر یہ بھی تھی کہ پاکستان ان مقابلوں میں کامیاب نہ ہو سکے گا، اور یہ کہ بھارت جو اپنے ٹائٹل کا دفاع کر رہا تھا، ایک بار پھر چمپئین بن جائے گا۔ لیکن ساری دنیا کی نظروں کے سامنے پاکستان نے بھارت کو ایک سو اسیّ رن سے تاریخی شکست دے دی۔
گزشتہ اتوار کو ہونے والے میچ تک پاکستانی ٹیم اپنے مختلف حریفوں کوہراتے ہوئے بھارت کے مقابلہ میں پہنچی تھی۔ کئی لوگ پاکستان کے بارے میں ’چہ پدّی چہ پدّی کا شوربہ ‘ جیسے تبصرے کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ٹھیک ہے پاکستان شاید قسمت سے فائنل میں پہنچ گیا ہے لیکن فتح تو بھارت ہی کی ہونے والی تھی۔ پھر دنیا کے ایک ارب لوگوں نے دیکھا کہ پاکستان کی ٹیم نے متحد ہو کر نہایت ہی اعلیٰ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، تین سو اڑتیس رن بنائے جو کہ چیمپئئنز ٹرافی کی تاریخ کا دوسرا بڑا اِسکور تھا، اور فخر زمان، 114 رن بنا کر، ان مقابلوں میں زیادہ رن بنانے والے پچیس کھلاڑیوں میں شامل ہو گئے۔
ان ہی مقابلوں کی ایک اور اہم بات یہ بھی تھی کہ پاکستا ن کے بولر محمد عامر کھیل میں جوئے کی اسپاٹ فکسنگ کے نتیجہ میں پانچ سال کی پابندی کی سزا بھگت کر شدید دشواریوں کے بعد ان مقابلوں میں شریک ہو پائے تھے۔ انہوں نے اس مقابلہ کے شروع ہی میں بھارت کے تین اہم کھلاڑی کو جلد آؤٹ کرکے پاکستان کی فتح کی راہ ہموار کر دی۔
ان مقابلوں میں بھارت اور پاکستان کی ٹیموں نے جو ہندو پاک تعلقات تنائو کی وجہہ سے ایک دوسرے کی روایتی حریف سمجھی جاتی ہیں، کھیل کی بہترین روح Sportsman Spirit کا مظاہرہ کیا، اور ایک لمحہ کے لئے بھی کسی رنجش یا تنائو کا مظاہر ہ نہیں کیا۔ بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ نہایت خلوص اور مروت سے پیش آتے رہے۔ بھارت کی ٹیم نے پاکستان کی شاندار جیت پر دل سے مبارکباد بھی دی، اور اپنی غلطیوں کو تسلیم بھی کیا۔ بھارت کے کھلاڑی دھونی کی گود میں پاکستان کے کپتان سرفراز کے بیٹے عبداللہ کی تصویر نے ہر جگہ لوگوں کے دل مو ہ لیئے۔
ایک طرف تو ان بہترین مقابلوں کے خوشگور ردِ عمل نے عوام کے دل پر خوش کن نقوش چھوڑے، لیکن دوسری جانب پاکستانی ٹی وی اینکروں اور بالخصوص عامر لیاقت کے گھٹیا پن پر مبنی تبصروں نے با مروت لوگوں کے منہ کے ذائقے بھی خراب کئے۔ اس کے علاوہ ان تبصروں میں پاکستانی فوجی مبصر بھی شامل ہو گئے جنہوں نے کچھ ایسا تاثر چھوڑا کہ گویا ’اوول ‘ کا میدان کھیل کا میدان نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان کی سرحدوں پر کوئی میدانِ جنگ تھا جہاں شدید کشت و خون کے بعد پاکستانیوں نے بھارت کو عبرت ناک شکست دی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ بھارت میں بھی ایسا ہی ہوا ہو، اور اگر ہوا تو وہ بھی غلط ہے۔ مگر ہمیں تو صرف اپنے ہم وطنوں اور اپنے وطن کی بہتری کی فکر ہے۔ کھیل کے میدان کو جنگی اکھاڑہ بنانے سے کسی کی بہتری نہیں ہوتی۔ بلکہ اس لفظی فائرنگ میں ہوتا ہے بہت جاں کا زیاں۔ اور وہ بھی اپنی ہی جان کا۔
کرکٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’فرحت انگیز بے یقینیوں ‘ Glorious Uncertainties کا کھیل ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ تقریباً سو برس کے عرصہ سے جاری کرکٹ کے حوالوں کے رجسٹر یا کتاب Wisden میں ایک دلچسپ مضمون ہے جس کے اقتباس آپ کی دلچسپی کے لئے پیش ہیں۔ ’’کرکٹ کی بے شمار دل خوش کن صفات میں اسکی غیر یقینی کی صفت بھی بہت اہم ہے۔ کرکٹ میں کسی بھی موڑ کا تعین نہیں کیا جا سکتا سوائے اس کی غیر یقینیوں کے۔ اس کا امکان نہیں ہوتا کہ؛ بلے باز ہر گیند پر چھکا لگائے؛یا یہ کہ سب سے آخر میں کھیلنے والے بلے بازوں کا جوڑا، تین سو رن بنا ڈالے؛ یا ایک وکٹ کیپر پیڈ اتار کر گیند سنبھالے اور تین کھلاڑیوں کو یکے بعد دیگرے آئوٹ کر دے؛ ان میں سے ہر واقعہ بعید الامکان ہوتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کرکٹ کے کھیل میں ایسا ہوتا ہے، چاہے یہ ایک ثانیہ میں ہو جائے یا چند دنوں میں۔ یہی کرکٹ کو دلچسپ بھی بناتا ہے، محیر العقل بھی ہوتا ہے، اور روح کو شادمان بھی کرتا ہے۔‘‘
’’ کرکٹ کے کسی بھی میچ کا نقشہ متواتر بہترین بولنگ سے یا ایک بہترین اننگ سے بدل جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا صرف ایک گیند یا ایک کیچ سے ہوجاتا ہے، کبھی کسی بہترین بلے باز کے اچانک رن آئوٹ ہو جانے سے، کبھی دفاعی کھیل کھیلتے کسی کھلاڑی کے متواتر چھکوں اور چوکوں سے، اور کبھی بڑی تعداد میں رن بننے کا امکان صرف کسی ایک ہی فُل ٹاس گیند کی نذر ہو جاتا ہے۔ کتنی ہی بار موسم کھیل کا رخ بدلتا ہے؛ اچانک بارش سے، دھُند سے، یا بارش کے بعد آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چکا چوند دھوپ سے۔ کبھی ایسا کپتان کے ذہن میں کوئی بہترین ترکیب آجانے سے ہو جاتا ہے، کبھی صرف ایک نئی گیند سے یا بلّا بدل لینے سے۔ کبھی کھیل کا نقشہ چائے کے وفقہ بعد یا میدان میں کسی بادشاہ کی آمد کے نتیجہ میں بھی بدل جاتا ہے۔‘‘یہ وہ بعید الامکان معاملات ہیں جو کرکٹ کے کسی بھی کھیل کو فتح یا شکست میں بدل دیتے ہیں۔ یہی وہ معاملات ہیں جو کرکٹ کو فرحت انگیز امکانات عطا کرتے ہیں۔ اور دیکھنے والوں کی روح کو تازگی فراہم کرتے ہیں۔
اگر آپ نے گزشتہ ہفتہ کا پاکستان اور بھارت کا کھیل دیکھا ہوگا تو ایسے کئی معاملات آپ کو بھی دکھائی دیئے ہوں گے، اور آپ بے اختیار یا خدا Oh My God کہہ چکے ہوں گے۔ آپ کو اسی کھیل میں کئی اور بھی بعید الامکان حیران کن چیزیں دکھائی دی ہوں گی۔ یہی وہ ہے جو کھیل کو دلچسپ ترین اور خوش گوار بناتا ہے، یہی وہ ہے جو بہترین ٹیموں کے مقابلوں کو ہمیشہ کے لئے یادگار بنا دیتا ہے۔ یہی وہ ہے جو آپ کو ایسی ٹیموں کے درمیان مقابلوں کو بار بار دیکھنے پر اکساتا ہے۔
اور یہی وہ عنصر ہے جو کرکٹ میں پاکستان اور بھارت کے عوام کی بے پناہ دلچسپی کی بنیاد پر ایک دوسرے کے لئے خیر سگالی کے امکانات پیدا کرتا ہے، اور امن پسندوں کو امید عطا کرتا ہے کہ ایک نہ ایک دن ان دونوں ملکوں کے عوام بھی ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح مسکر اکر ہاتھ ملایئں گے۔ اسی طرح جیسے دونوں ملکوں کی ٹیمیں ’اوولؔ ‘ کے میدان میں ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہی تھیں۔ کرکٹ کا کھیل تو کھیل ہے، کاش یہ ہمارے عوام کے درمیان امن اور بھائی چارے کے روشن تر امکانات پیدا کرد ے۔
- کینیڈا کی مردم شماری: ایک بھاشا اور لپیوں کا قضیہ - 16/06/2021
- کینیڈا میں ننھے بچوں کی دو سو پندرہ بے نشان قبریں - 03/06/2021
- حضرت دائودؑ اور ایڈورڈ سعید ؔ کے ہاتھوں کے پتھر - 28/05/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).