ہم سب کی سوئی تو محض جے آئی ٹی پر اٹکی ہوئی ہے


پانامہ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر طویل سماعت کے بعد 20اپریل 2017کو جو فیصلہ آیا اس میں سپریم کورٹ کے 5عزت مآب ججوں میں سے دو سینئر اور دبنگ ججوں نے اس ملک کی سیاست پر 80 کی دہائی سے چھائے شریف خاندان کو ”گاڈفادر“ کا خاندان ٹھہرایا تھا۔ اس دن کے بعد سے ”گاڈفادر“ کا لفظ اس خاندان سے چپک کررہ گیا ہے۔ اس کی آنے والی کئی نسلیں بھی لیڈی میکبتھ کی طرح دیوانگی میں Spot-Spotچیختی اس داغ کو دھونے کی کوششوں میں مبتلا رہیں گی۔
اس لفظ کے تناظرمیں 6ریاستی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنی ہے اس کا بظاہر مقصد اس کے علاوہ کوئی اور نظر ہی نہیں آرہا کہ ”جرائم پیشہ“ لوگوں پر مشتمل اس خاندان کے طریقہ واردات کا سراغ لگایا جائے۔ ہم جان سکیں کہ کاروباری اعتبار سے بہت کامیاب گردانا یہ خاندان مختلف مدوں میں اپنے ذمے آئے ٹیکسوں سے جان کیسے چھڑاتا رہا ہے۔ ٹیکسوں کی عدم ادائیگی کی بنیاد پر جمع ہوئی اور ریاستی محتسبوں سے چھپائی رقوم غیر ممالک کس طرح منتقل ہوئیں جہاں ”آف شور کمپنیوں“ میں انہیں ”لانڈر“ کرنے کے بعد لندن جیسے شہروں میں قیمتی جائیدادیں خریدنے اور بیچنے کے لئے استعمال کیا گیا۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا کام بہت صبرآزما ہے۔ وائٹ کالر جرائم کا سراغ لگانا ویسے بھی جوئے شیر لانے کی مانند ہوتا ہے۔ مجھ ایسے دو ٹکے کے صحافی اس فریضے میں درپیش آنے والے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اپنے ملک کی سیاسی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے البتہ صرف اس نقطے پر یقینا زور دیتے رہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔احتساب،انتقام کا مترادف محسوس نہ ہو۔ اس معصومانہ خواہش نے مگر JITکو بہت ناراض کیا۔ اس نے سپریم کورٹ تک اپنی شکایت ثبوتوں سمیت پہنچائی اور منگل کے دن ایک عزب مآب جج یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ حکومت صحافیوں سے اپنی حمایت میں مضامین لکھوارہی ہے۔
یہ بات تو عیاں ہے کہ ”گاڈفادر“ کے خاندان کے لئے شفاف انصاف کی طلب کے بہانے اس کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے یہ مضامین مفت میں نہیں لکھے جارہے ہوں گے۔ شریف خاندان بھاری لفافوں کے ذریعے ایسے مضامین کا معقول عوضانہ ادا کررہا ہوگا۔ لفافے کی تہمت سے بچنے کا واحد طریقہ لہذا اب یہ ہی رہ گیا ہے کہ JITکے کام پر کچھ بھی لکھنے سے اجتناب برتا جائے۔ منیر نیازی کے شعر میں بیان کیا ”لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرادینا چاہیے“ والا ماحول بن چکا ہے اور ”اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ“۔
ویسے بھی کئی ہفتوں سے میرے ذہن میں یہ فکر سمائی ہوئی تھی کہ وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد سے امریکی صدر ٹرمپ افغانستان کے حوالے سے ”کچھ نیا“ کرنا چاہ رہا ہے۔ افغانستان کے بارے میں امریکہ کی ممکنہ طورپر ”نئی پالیسی“ کی ضرورت کا احساس اس ملک میں موجود امریکی افواج کے سربراہ نے امریکی سینٹ کی ایک کمیٹی کے روبرو اس اعتراف کے ذریعے کیا تھا کہ پاکستان کے پڑوس میں کئی برسوں سے جاری جنگ میں Stalemateوالا جمود آگیا۔ امریکی فوج یا طالبان میں سے کوئی ایک فریق بھی مستقبل میں اپنے اہداف قطعیت کے ساتھ ایک فاتح کے طورپر حاصل کرتا نظر نہیں آرہا۔
اس Stalemate کو توڑنے کے لئے صدر ٹرمپ نے دو جرنیلوں سے رجوع کیا۔ جنرل Mattis کو جنرل مارشل کے بعد پہلی بار فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد سات سال مکمل ہونے سے پہلے کابینہ کا رکن بنایا گیا۔ اس کو وزیر دفاع مقرر کرنے کے بعد ٹرمپ نے ایک اور جنرل Mc Master کو اپنا مشیر برائے قومی سلامتی مقرر کرلیا۔ ان دونوں جرنیلوں نے افغان جنگ میں حصہ بھی لیا ہے۔ وہ اس ملک کے معاملات کو خوب سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹرمپ نے افغانستان کے بارے میں ”کچھ نیا“ سوچنے اور کرنے کا مکمل اختیار بھی دے دیا ہے۔
کئی ہفتوں کی سوچ بچار کے بعد امریکی جرنیلوں نے نظر بظاہر افغانستان کے لئے ”نئی“ دِکھنے والی ایک پالیسی بنالی ہے۔اس پالیسی کی تفصیلات تو ہمیں میسر نہیں۔ Calculated Leaksکے ذریعے اگرچہ اس کے ممکنہ خدوخال میڈیا کی بدولت بتدریج سامنے لائے جارہے ہیں۔
منگل کے روز برطانیہ کے بہت قابلِ اعتبار سمجھی جانے والی خبررساں ایجنسی رائٹرز نے ایک طویل Exclusive دنیا بھر کے میڈیا کو فراہم کیا ہے۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں امن کو یقینی بنانے کے لئے اب کی بار پاکستان سے محض Do More کے تقاضے نہیں کیے جائیں گے۔ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے صرف پاکستان کے قبائلی اور افغان سرحد کے قریب علاقوں میں چھپے افراد ہی کو ختم نہ کیا جائے۔ نام نہاد ”حقانی نیٹ ورک“ سے وابستہ افراد پاکستان میں ”جہاں کہیں بھی چھپے بیٹھے ہیں“ ان کا سراغ لگایا جائے۔ ”حقانی نیٹ ورک“ سے وابستہ افراد کی یہ تلاش یقینی طورپر ہمارے کئی بڑے شہروں کی فضاﺅں میں ڈرون طیاروں کی پرواز کے ذریعے ہی ممکن ہوگی۔ اوبامہ نے وائٹ ہاﺅس چھوڑنے سے قبل ہمارے بلوچستان میں نوشکی شہر کے قریب طالبان کے امیر کو ڈرون طیارے سے گرائے میزائل کے ذریعے ہلاک کیا تھا۔ چند ہی روز قبل ”حقانی نیٹ ورک“ کے ایک مبینہ کمانڈر کو کوہاٹ کے قریب ہنگو تحصیل کے ایک علاقے میں ڈرون کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ڈورن حملوں میں بے تحاشہ اضافے کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان پرمعاشی دباﺅ بڑھانے کی منصوبہ بندی بھی ہورہی ہے۔ گزشتہ برس ہمیں F-16 طیارے فراہم کرنے سے انکار کردیا گیا تھا۔ امریکہ کی نام نہاد وار آن ٹیرر میں مدد کے لئے ہمیں Coalition Support Fund کے نام پر جو رقوم ملتی ہیں ان میں سے 300ملین ڈالر کی خطیر رقم بھی روک لی گئی تھی۔ اب ایسی ”امداد“ میں مزید کمی کے عندیے دئیے جارہے ہیں۔
افغانستان کی وجہ سے پاکستان پر بڑھتے ہوئے فوجی اور اقتصادی دباﺅ سے نبردآزما ہونے کے لئے ہمیں بھی ممکنہ طورپر ایک ”نئی پالیسی“ کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی کی تلاش کے لئے لیکن ہم ایسے عامیوں کو کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ہم سب کی سوئی تو محض JIT پر اٹکی ہوئی ہے۔ کاش کہ سپریم کورٹ واضح الفاظ میں یہ حکم جاری کردے کہ JIT کا کام مکمل ہونے تک اس کے بارے میں ایک لفظ بھی خواہ وہ مثبت ہو یا تنقیدی ہمارے اخبارات میں لکھا اور ٹیلی وژن سکرینوں پر ادا نہیں کیا جائے گا۔ صرف ایسے حکم کے بعد ہی ہم آنکھیں کھول کر اس پالیسی کے مضمرات پر غور کرنے کے قابل ہوسکیں گے جو افغانستان کے تناظر میں ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے بارے میں طے کی ہے۔

(بشکریہ جنگ نیوز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).