شیخ حسینہ اور عمران خان سے گزارش


یہ ایک چھوٹی سی خبر تھی لیکن مجھے اس چھوٹی خبر کے پیچھے بڑی بڑی باتیں جھانکتی دکھائی دے رہی تھیں۔ خبر یہ تھی کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو آموں کا تحفہ بھیجا ہے۔

 23جولائی کو یہ تحفہ اسلام آباد میں وزیر اعظم کے پروٹوکول آفس نے وصول کر لیا تو اس ناچیز کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ خیال آیا کہ اب اپنے خان صاحب سے کہا جائے گا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں شیخ حسینہ واجد کی طرف سے بھجوائے گئے اس تحفہ کو واپس کر دیا جائے۔

پھر میں نے ایک ٹوئیٹ کر دیا اور امید ظاہر کی کہ خان صاحب کو یہ تحفہ واپس بھجوانے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ اس ٹوئیٹ پر مجھے ایک بنگلہ دیشی صحافی دوست کا فون آگیا۔ عید کے دن تھے، انہوں نے عید مبارک کہا، حال احوال پوچھا اور پھر کہا حامد بھائی شاید آپ کو یاد نہیں رہا کہ پچھلے سال 23 جولائی کو عمران خان نے ہماری وزیر اعظم صاحبہ کو فون کال کی تھی اور پاکستان کے دورے کی دعوت دی تھی۔

ایک سال بعد بنگلہ دیش کی وزیراعظم صاحبہ نے 23 جولائی کے دن آموں کا تحفہ بھیج کر خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ میں نے اپنے بنگلہ دیشی دوست سے پوچھا کہ ہمارے وزیراعظم کی فون کال کا جواب ایک سال کے بعد کیوں دیا گیا؟

دوست نے بتایا کہ آپ جانتے ہیں کہ شیخ حسینہ واجد کے دور میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں کافی کشیدگی آئی لیکن جب عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو ہمارا خیال تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی کیوں کہ عمران خان نے کچھ سال قبل آپ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستانی فوج کو 1971ء میں بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن نہیں کرنا چاہیے تھا اور اب پاکستان کو بنگلہ دیش سے معافی مانگ لینی چاہیے۔ افسوس عمران خان نے ہم سے معافی نہیں مانگی۔

یہ سن کر میں نے اپنے بنگلہ دیشی دوست سے کہا کہ خان صاحب نے وزیر اعظم بننے سے پہلے ایسی بہت سی باتیں کی تھیں جن کو وزیراعظم بننے کے بعد وہ بھول چکے ہیں۔ میرا دوست چند لمحے خاموش رہا، پھر مجھے یاد دلا کر کہنے لگا کہ آپ جانتے ہیں نا کہ پاکستان کا قومی پھل آم ہے۔ میں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ جی آپ نے درست فرمایا اور بنگلہ دیش کا قومی پھل جیک فروٹ (کٹھل) ہے۔ دوست نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور کہا جی ہمارا قومی پھل تو جیک فروٹ ہے لیکن ہمارا قومی درخت آم کا درخت ہے۔

ہماری وزیراعظم نے اپنے درختوں سے اچھے اچھے آم اتار کر عمران خان اور نریندر مودی کو بہت سوچ سمجھ کر بھیجے ہیں۔ یہ سن کر میں نے بھی ایک قہقہ لگا دیا اور بات ختم ہوگئی۔

آج صبح بنگلہ دیشی صحافی دوست کا دوبارہ فون آیا۔ پوچھنے لگا کے عمران خان کب بنگلہ دیش کے دورے پر آ رہے ہیں؟ میں نے لاعلمی ظاہر کی۔

اس نے پوچھا کہ دو سال قبل لاہور میں پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس کے قریب وارث میر انڈر پاس کا نام بدل کر کشمیر انڈر پاس رکھا گیا تھا اور پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نے پریس کانفرنس میں آپ کے والد وارث میر کو غدار قرار دے کر کہا تھا کہ جس شخص نے شیخ حسینہ واجد سے بنگلہ دیش جا کر ایوارڈ وصول کیا اس کے نام پر موجود انڈر پاس کا نام تبدیل کر دینا قومی غیرت کا تقاضا تھا۔ کیا آپ نے عمران خان سے اس وزیر کی شکایت کی؟

میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ میں نے عمران خان سے اس موضوع پر کبھی کوئی بات نہیں کی کیونکہ شیخ حسینہ واجد سے ایوارڈ میرے والد نے نہیں بلکہ میں نے وصول کیا تھا۔ یہی ایوارڈ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی بیٹیوں نے بھی وصول کیا لیکن ان کے نام پر کسی انڈرپاس یا سڑک کا نام نہیں بدلا گیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ اس بارے میں تفصیل کیوں پوچھ رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ یہاں ڈھاکا میں بحث ہو رہی ہے کہ عمران خان کی حکومت حامد میر کو آج تک اس لیے برداشت نہیں کر پائی کہ اس نے اپنے والد کو شیخ حسینہ واجد کی طرف سے دیا جانے والا ایوارڈ وصول کیا تھا۔ تو کیا عمران خان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟

یہ سن کر میں نے بنگلہ دیشی صحافی سے کہا کہ جناب ان باتوں کو چھوڑیے کیونکہ آج کل عمران خان، شیخ حسینہ واجد اور نریندر مودی میں ایک بات پر مکمل اتفاق ہے اور وہ یہ ہے کہ جمہوریت اور آزادی اظہار کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ اسی لیے صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے ان تینوں کو آزادی صحافت کا دشمن قرار دے دیا ہے۔ میری یہ گستاخی میرے بنگلہ دیشی دوست کو کچھ نا گوار گزری اور انہوں نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔

مجھے 2013ء کا وہ دن یاد آ گیا جس دن ڈھاکا میں اسماء جہانگیر، حاصل بزنجو، سلیم ہاشمی، طاہرہ حبیب جالب اور میں نے اپنے اپنے والد کا ایوارڈ شیخ حسینہ واجد سے وصول کیا تھا۔کیونکہ ہمارے والد نے 1971ء کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ ان کا موقف وہی تھا جسے بڑے بھرپور انداز میں عمران خان بھی کئی سال تک بیان کرتے رہے۔ ایوارڈ وصول کرنے کا مقصد پاکستان اور بنگلہ دیش کو ایک دوسرے کے قریب لانا تھا۔

جب 2017ء میں بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار کیا تو میں نے اپنے والد کا ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا لیکن پھر مجھے بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ آپ ایسا نہ کریں، حالات بہتر ہوجائیں گے۔ میں نے ایوارڈ واپس نہیں کیا لیکن افسوس کہ اس ایوارڈ کو میرے لیے اور میرے والد کے لیے ایک طعنہ بنا دیا گیا۔

دو ماہ قبل جب صحافیوں پر حملوں کے خلاف میری ایک تقریر کو جواز بنا کر مجھ پر پاکستانی میڈیا کے دروازے بند کیے گئے تو ایک دفعہ پھر سوشل میڈیا پر حب الوطنی کے تنخواہ دار علم برداروں نے میرے والد کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کیا اور شیخ حسینہ واجد سے لیے جانے والے اس ایوارڈ کو گالی بنایا۔

شکر الحمداللہ اسی شیخ حسینہ واجد کو عمران خان فون کر کے پاکستان کے دورے کی دعوت دے رہے ہیں اور ان کے بھجوائے گئے آموں کا لطف بھی اٹھا رہے ہیں۔ میں شیخ حسینہ واجد کی طرف سے عمران خان کو بھجوائے آموں کے تحفے کو طعنہ نہیں بناؤں گا بلکہ اس تحفے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔

مجھے امید ہے کہ شیخ حسینہ واجد پاکستان ضرور آئیں گی اور عمران خان بھی بنگلہ دیش جائیں گے۔ بنگلہ دیش جا کر وہ جو بھی کریں گے وہ میرے موقف کی تائید ہو گی لیکن عمران خان اور شیخ حسینہ واجد سے ایک مؤدبانہ گزارش ہے، ایک دوسرے کو آموں کے تحفے ضرور دیجیے لیکن حُب الوطنی کے نام پر آزادی صحافت پر حملے بند کر دیں۔

جب آپ دونوں کا نام آزادی صحافت کے دشمنوں کی فہرست میں آتا ہے تو ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments