کیا نواز شریف کی بساط لپیٹی جا رہی ہے؟


غالباً چار ماہ قبل اسٹیبلشمنٹ کے نہایت قریبی ایک دوست نے نہایت اعتماد سے بیان کیا کہ اعلی سطح پر پاناما کیس میں میاں نواز شریف کی بساط لپیٹنے کا حتمی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو میاں نواز شریف کسی حال میں بھی قبول نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ فیصلے میں ان کو ناہل کرنے کی بجائے ان کو انتہائی مجبور کر کے نئے الیکشن کروا دیے جائیں یا ایسے ہی کسی دوسرے راستے پر چلنے پر انہیں مجبور کر دیا جائے جس کے نتیجے میں وہ اقتدار سے محروم ہونے میں عافیت سمجھیں۔

ہمیں اس دوست کی بات پر یقین نہیں آیا۔ ہمارا موقف تھا کہ اس وقت جس طرح کے ملکی اور بین الاقوامی حالات چل رہے ہیں، ان میں قیادت کی تبدیلی اور ملک کے اندر شورش اور بے چینی کسی بھی حال میں ملکی اور بین الاقوامی قوتوں کو قبول نہیں ہو گی۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ چل رہی ہے جس میں سیاسی قیادت کا رول نہایت اہم ہے۔ یہ بات فوج کے مفاد میں ہرگز بھی نہیں ہے کہ وہ طالبان کے خلاف جنگ کے دوران عوام کی ایک بڑی تعداد کی حمایت سے خود کو محروم کرنے کی حماقت کرے۔ دانشمند لیڈر یہ بات جانتے ہیں کہ جنگیں عوام کی حمایت سے جیتی جاتی ہیں اور عوام مخالف ہوں تو مشرقی پاکستان جیسی شکست بھی مقدر بن جاتی ہے۔ اس وقت بھارت، افغانستان اور ایران سے جو معاملات چل رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے بھی مقبول سیاسی قیادت کی حمایت اہم ہے۔ سی پیک پر عمل درآمد پر اتفاق رائے بھی سیاسی قیادت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ایسے حالات میں ملکی و بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کو ہی وزیراعظم دیکھنا پسند کرے گی جو کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا توانا ترین سیاسی چہرہ ہیں۔ اب ویسے بھی سافٹ مارشل لا کا دور ہے۔ سیاسی چہروں کو سامنے رکھتے ہوئے ہی ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کا رواج جڑ پکڑ چکا ہے تو پھر براہ راست خود سامنے آ کر بدنامی اور عوامی نفرت مول لینے کی کیا ضرورت ہے؟

اس بات پر یقین نہ کرنے کی ایک اہم وجہ جنرل قمر باجوہ صاحب کے بارے میں ہمارا حسن ظن بھی ہے۔ ویسے تو جنرل ضیا کے دور میں شعور کی منزلیں طے کرنے کی وجہ سے ایک دور میں ہمیں جنرل ایوب اپنی بے مثال ترقی اور جنرل ضیا الحق اسلام اور پاکستان کے مجاہد ہونے کی وجہ سے نہایت پسند رہے ہیں۔ بعد میں علم ہوا کہ ہم کتنے غلط تھے۔ لیکن جنرل باجوہ کا دور شروع ہونے کے بعد جس طرح وہ میڈیا میں اپنی پروجیکشن سے احتراز کرتے دکھائی دیے ہیں، اور دھرنے کے دوران ان کی سوچ کے بارے میں جو خبریں آتی رہی ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے ہم ان کو جمہوریت کا ایک بڑا حامی اور فوج کو اپنے آئینی کردار تک محدود رکھنے والا سپہ سالار سمجھتے رہے ہیں اور ابھی تک اپنی اس رائے پر قائم ہیں۔ کیا ایسا جنرل واقعی سیاسی معاملات میں مداخلت کر سکتا ہے؟

لیکن آج باخبر سینئیر صحافی سہیل وڑائچ صاحب کا کالم پڑھنے کے بعد سوچنا پڑ رہا ہے کہ کیا میاں نواز شریف صاحب کی بساط واقعی لپیٹی جا رہی ہے؟

عدلیہ کا کردار ہماری اس تاریخ میں اتنا اچھا نہیں رہا ہے۔ نظریہ ضرورت ہماری ابتدائی تاریخ سے ہی ڈکٹیٹر کی حمایت کرتا رہا ہے۔ چیئرمین ماؤ زے تنگ نے فرمایا تھا کہ ’سیاسی طاقت بندوق کی نال سے جنم لیتی ہے‘۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ’قانون بھی بندوق کی نال سے ہی جنم لیتا ہے‘۔ پاناما مقدمے میں جس طرح ہر روز عدالت کے باہر ایک عدالت سجتی تھی، عمران خان کے خلاف مقدمے میں اس پر پابندی عائد کی گئی۔ کیوں؟ کیا دونوں مقدمات میں ایک ہی اصول نہیں ہونا چاہیے تھا؟ اسی طرح کے بعض دیگر معاملات ہیں جو کہ عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں اور فیصلہ نواز شریف صاحب کے خلاف آنے پر اسے غیر شفاف قرار دینے والے کم نہیں ہوں گے۔ فیصلہ اگر قانونی طور پر درست بھی ہوا تو اسی تاثر کی بنا پر میاں نواز شریف کو سیاسی شہید بننے کا موقع فراہم کرے گا۔ اگلے الیکشن میں ان کی حکومت کی تمام تر نااہلی کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ خود یا مریم نواز شریف صاحبہ سیاسی ہمدردی کے ووٹ پا کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ نقصان صرف عدلیہ کی ساکھ کو پہنچے گا۔

مورخ فرما گئے ہیں کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے۔ مورکھ فرما رہے ہیں کہ منصف کو غیر جانبدار ہونا ہی نہیں چاہیے، بلکہ غیر جانبدار دکھائی دینا بھی چاہیے۔ تاثرات اہم ہوتے ہیں۔

یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اس سے پہلے جناب یوسف رضا گیلانی کو بھی تو عدالتی فیصلے کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا گیا تھا، اس سے کون سا آسمان ٹوٹ پڑا۔ اس ضمن میں دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ پہلی تو یہ کہ گیلانی صاحب پارٹی کے سربراہ نہیں تھے۔ اگر جناب آصف علی زرداری کو اقتدار سے الگ کیا جاتا تو معاملہ مختلف ہوتا کہ بدقسمتی سے ہماری سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں اور شخصیات اہم ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا نون ہی یہ بتا دیتا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب کی اس پارٹی میں کیا حیثیت ہے۔ دوسری بات یہ کہ جناب یوسف رضا گیلانی صاحب کے بعد جو شخص وزیراعظم بنا اسے قوم پیار سے ’راجہ رینٹل‘ کے نام سے پکارتی ہے۔ غیر جمہوری طریقے سے کسی سیاست دان کو اقتدار سے محروم کیا جائے تو اس سے بدتر شخص ہی اقتدار کی زینت بنتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری تاریخ یہی بتاتی ہے۔

اقتدار کے خواہش مند سیاسی لیڈروں کو یہ سوچنا ہو گا کہ سنہ 50 اور 90 کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب کرپشن کے نام پر کسی سیاسی لیڈر کو نااہل کیا جاتا ہے تو اگلی باری لینے والے کے نصیب میں بھی یہی سب کچھ لکھا ہوتا ہے۔

ہماری خواہش ہے کہ ہم ایک کرپشن فری پاکستان دیکھیں۔ ہمیں اپنے جائز کام کروانے کے لئے رشوت نہ دینی پڑے۔ ٹریفک کے سپاہی کو ہم اس وجہ سے رشوت نہ دیں کہ سرکاری جرمانہ ادا کرنے کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ ہے کہ ہمارا پورا دن اس میں ضائع ہو جائے گا۔ بجلی اور گیس کا میٹر لگوانے کے لئے ہمیں سرکاری فیس سے زیادہ رقم رشوت کی مد میں ادا نہ کرنی پڑے۔ پٹواریوں اور پولیس والوں سے اپنا جائز کام کروانے کو ہمیں بھاری نذرانے نہ دینے پڑیں۔ ہمیں نواز شریف اور آصف زرداری کی حکومتوں سے شدید شکایت ہے کہ انہوں نے اس ضمن میں ہمیں ریلیف نہیں دیا۔ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی بجائے انہوں نے ممبران پارلیمنٹ کو اپنے حلقے میں اپنی مرضی کے پولیس افسران تعینات کرنے کا اختیار دیا ہے اور ہمیں انصاف سے محروم کیا ہے۔

مگر پھر بھی ہم ان سیاسی چہروں کی حمایت کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ کہیں نہ کہیں تو ہم عوام کی بات سننے اور ہمارے دباؤ پر فیصلے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمیں وہ شاہی قلعوں میں پابند سلاسل کرنے یا جلاوطنی پر مجبور کر دینے کی طرف مائل تو نہیں ہوتے ہیں۔ ہمیں سیاسی حکمرانوں کی مخالفت میں بولنے کی آزادی تو میسر ہے۔ ہم ان پر اپنا غصہ تو نکال سکتے ہیں۔

مگر ایک لحظہ توقف کیجیے۔ سنا ہے کہ وزیرداخلہ جناب چودھری نثار علی خان صاحب کی قیادت میں ایف آئی اے کچھ کچھ کر رہی ہے۔ اب ہم خود کو کنفیوز پا رہے ہیں۔ کیا میاں نواز شریف صاحب کو ہم وہ واقعہ سنانے کی جسارت کر سکتے ہیں جو ہماری اجتماعی دانش میں ایک کلاسیک کا درجہ اختیار کر رہا ہے۔

روایت ہے کہ ایک بھینس کو چور کھول کر لے چلے۔ کسی سیاسی سیانے نے آواز لگائی ’بھینس بھینس ہوشیار، تجھے چور لے چلے‘۔ بھینس نے گردن موڑی اور بے نیازی سے فرمایا ’وہ بھی تو چارہ ہی دیں گے‘۔

ان سیاسی چہروں کو بھی عوام کے بارے میں کچھ سوچنا ہو گا۔ ورنہ حکومت جانے پرانتخابی فہرست میں درج یہ ڈھور ڈنگر بھی اسی دانش مند بھینس کی طرح بے نیاز ہو کر یہی کہیں گے کہ ہمیں کیا، ’وہ‘ بھِی تو ہمیں وہی چارہ دیں گے جو تم دے رہے ہو۔

چیئرمین ماؤ نے درست فرمایا تھا کہ سیاسی طاقت بندوق کی نال سے جنم لیتی ہے۔ مگر اس سے کہیں بڑی طاقت عوام کی محبت سے جنم لیتی ہے۔ کوئی خود کو اس کا اہل تو ثابت کرے۔


اسی بارے میں
The Party is Over?

http://www.humsub.com.pk/67718/sohail-warraich-13/

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar