مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے


\"farnood\"یہ دل آج کی صبح ممتاز قادری کے لئے اتنا ہی اداس ہے جتنا کہ اس شام اداس تھا جب سلمان تاثیر کا سینہ چھلنی کیا گیا تھا۔ سلمان تاثیر کو ماردیا گیا تھا اور ممتاز قادری کو مروا دیا گیا ہے۔ جنہوں نے مارا جنہوں نے مروایا ان کے چہرے واضح ہیں۔ وہ آج کی صبح اپنے سگے بچوں کو ڈرائیور کے ساتھ کالج اور یونیورسٹی روانہ کر کے راولپنڈی پہنچ چکے ہیں، تاکہ اپنے روحانی بچوں کو برانگیختہ کرنے کا فریضہ انجام دے سکیں۔ فرصت میں ہوں تو دیکھ لیجیئے گا۔

1929 ء میں لاہور کے ایک پبلشر راج پال نے توہین آمیز مواد پہ مبنی ایک اشتعال انگیز کتاب شائع کی۔ اگرچہ انگریز سرکار نے راج پال کو چھ ماہ کی سزا سنائی، مگر اشتعال کی بلائیں چھ ماہ کے وظیفے سے کہاں ٹلتی ہیں۔ ایشیا کے بڑے خطیب اور جری راہنما سید عطاو ¿اللہ شاہ بخاری نے ایک تقریر میں گرج برس کر کہا

”میں دیکھ رہا ہوں کہ امی عائشہؓ میرے سامنے کھڑی ہیں، رو رہی ہیں اور مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ محمدﷺ کے نام لیوا موجود ہیں اور راج پال ملعون ابھی تک زندہ ہے؟ تم لوگ روز حشر اپنے نبی کو کیا جواب دوگے؟“

سید عطا اللہ شاہ بخاری کی معجز بیانی برف کی سلوں میں آگ لگا دیا کرتی تھی، ایک زندہ وجود ان کی للکار کی تاب کہاں لاسکتا تھا۔ پھر ایسے وجود کہاں اپنے آپ میں رہ سکتے ہیں جن کے شعور اور لاشعور پہ جذبات کے سوا کسی دوسری جنس کا بسیرا ہی نہ ہو۔ ابھی شاہ صاحب کی وجد آفرینیاں جاری تھیں کہ غازی علم الدین کی داڑھ گرم ہوگئی، گھر کی راہ لی، خنجر کو دھار لگائی، راج پال کی دکان پہ پہنچا اور جذبہِ عشق ومستی کو خون پلا کر ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ غازی علم الدین کو سزا ہوئی، تو شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا ”ہم باتاں کرتے رہ گئے اور ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا“۔

آج ابھی جب ایک ناخواندہ غریب باپ کے ناخواندہ غریب بیٹے کے جنازے کے لئے پنڈی میں صفیں ترتیب دی جارہی ہیں تو علامہ اقبال کا کہا بار بار یاد آرہا ہے۔ ایک سوال مسلسل تعاقب میں ہے کہ ہمیشہ ترکھان کے بچے ہی کیوں بازی لے جاتے ہیں، اور یہ کہ پیشوائے امت ہمیشہ باتیں ہی کرتے کیوں رہ جاتے ہیں۔ یہ تاریخ ہے کہ سیانے ہمیشہ اکسانے کے فرائض انجام دیتے ہیں اور کسی معصوم ماں کا سادہ لوح فرزند بے وجہ کی دہکتی آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دار جب افغان کوہساروں میں آخری معرکہ لڑ رہے تھے توحق وباطل کی ایک لکیر کھینچ دی گئی۔ معرکہ سر کرنے کو وہی پیشوا بروئے کار آئے جو پندار کے صنم کدے میں قیامت برپا کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ چوک چوراہوں اور منبر ومحراب پر ”ایمان افروز” خطبے دینے والوں کی اکثریت انہی حلق پھاڑ خطیبوں کی تھی جو مفت کی تعلیم بھی ادھوری چھوڑ بھاگے تھے۔ کامل دس برس تک یہ چھانٹ چھانٹ کر صحیفوں سے جہاد کے فضائل نکال کر لاتے رہے۔ ہنگامی حالات میں جس زبان سے جو تشریح پھوٹی وہی مستند ٹھہر گئی۔ ان کے کہے پہ ماوں نے گلے سے زیور کھینچ کر نچھاور کیا۔ نوجوان ہجوم در ہجوم الجہاد الجہاد کے نعرے لگاتے ہوئے ہلمند وشبرغان پہنچے۔ اکثریت ان نوجوانوں کی تھی جنہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں صاف صاف بتادیا گیا تھا کہ حق وباطل کے اس معرکے میں خون دینے کے لئے والدین سے اجازت لینا اپنی عاقبت برباد کرنے والی بات ہے۔ حورانِ بہشت کی لوٹ سیل لگی ہے، جو پہلے آئے گا وہ پہلے پائے گا۔ جو نوجوان مارے گئے، جہاں تھے وہیں زمین میں گاڑ دیئے گئے۔ جو زخمی ہوئے، وہ واپس انہی ماؤں کے متھے مار دیئے گئے، جن سے اجازت لینے کی اجازت نہیں تھی۔ پیشوا خود کہاں کھڑے تھے؟ زنان خانوں میں اپنے بچوں کو بٹھا کر کچھ نایاب حدیثیں سنا رہے تھے۔ یہ امت کے کچھ خاص بچے تھے جن کے لئے والدین کی حکم عدولی گویا خدا کے کسی فرمان سے روگردانی تھی۔ سینکڑوں علما جو امت کے نوجوانوں کو جہاد کے لئے اکسارہے تھے، خود انہیں افغانستان جانا کب نصیب ہوا، خبر ہے؟ ہم بتلائیں کیا۔؟ یہ سینکڑوں علمائے کرام تب افغانستان گئے جب ان کی اپنی اولاد بن بتائے افغانستان پہنچ گئی۔ بیٹوں کی تصویریں جیب میں لیئے پھرتے تھے، فارسی کا ایک جملہ رٹے ہوئے تھے، ہر کماندان کو تصویر دکھاکر پوچھا کرتے تھے ”آغا ایں پسرِ ما کجا است؟“ حضور میرا یہ بچہ کہاں ملے گا؟ بچہ ہاتھ لگتے ہی گدی سے دبوچتے، اور غصے میں پوچھتے ”تمہیں احساس بھی ہے کہ تم اپنی بیمار ماں اور بوڑھے باپ کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟“۔ دوسری طرف اپنا بچہ کراچی کے مدرسے میں بھیجنے والی مظفر گڑھ کی مائی رحمت دس ماہ بعد اپنی آنکھیں بیٹے کے لئے پگڈنڈیوں پہ بچھائی کھڑی تھی کہ نامہ بر چلا آیا۔ رنجیدگی سے خط پڑھ کر سنایا گیا کہ مائی آپ کا بچہ افغانستان میں شہید ہوگیا ہے۔ اپنی اولاد کو چار آسیاب کے مورچوں سے گھسیٹ لانے والے شیخ مائی کے پاس پہنچے اور دلاسہ دیا کہ اماں۔! پریشان نہ تھی ، تیرا پتر قیامت دے ڈینھ ستر بندیاں کو بخشویسی“۔ ماں! پریشان مت ہو تمہارا بچہ آخرت میں ستر افراد کی بخشش کروائے گا۔ یعنی کہ

ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا

سبھی نے وعدہِ فردا پہ ٹال رکھا ہے

چلیئے اگر مجھے کل پہ ٹال رہے ہیں تو خود کیوں نہیں ٹل جاتے؟ اور پھر یہ آپ کے بچے؟ میرا حساب روزِ حشر اور جناب کا معاملہ کھڑے کھلوتے؟ میرے حصے میں آزمائشیں اور آپ کے لئے آسائشیں؟ دیکھیے اب علامہ اقبال یاد آگئے

ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی

گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

اہلِ تشیع کی مجلسوں میں جانا میرا پرانا مشغلہ ہے، کہ اسے میں بر صغیر کی روایت جانتا ہوں۔ عطاواللہ عیسی خیلوی کا ”قمیض تیڈی کالی” ہو یا پھر نوحہ خواں ندیم سرور کا ”لبیک یا حسین“ ہو، دونوں شوق کی تسکین کا برابر سامان کرتے ہیں۔ بم دھماکوں میں جی کو لگانے کی ہر ممکن تدبیر توکی، مگر طبعیت کو شبِ برات کے پٹاخے ہی راس آئے۔ وہ وقت میری یادوں سے کسی جونک کی طرح چمٹاہوا ہے جب سنی بھی سبیلیں لگایا کرتے تھے۔ اب تو شیعہ بھی لگا لیں تو غنیمت ہی جانیئے۔ کراچی میں ایک بار سلمان ربانی کے ساتھ مرکزی جلوس میں گئے، دھر لیئے گئے۔ چھوڑے گئے تو مشکل سے پہچانے گئے۔ بتانا یہ ہے کہ جانا پھر بھی نہیں چھوڑا۔ اب اسلام آباد شفٹ ہوگیا ہوں تو سبوخ سید کی معیت میں اور امجد عباس کی قیادت میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ عزاداری کے اس طویل مشاہدے میں ایک بات قطعا سمجھ نہ آئی کہ یہ ماتم اگر عاشورہ کا ایسا ہی جزِ لاینفک ہے، تو قبا پوش علمائے کرام اور دستار بند مشائخ عظام یہ تکلف کیوں نہیں فرماتے؟ قصائی کا بچہ تو جگر چاک کر بیٹھتا ہے اور صاحبزادوں کے گریبان تک پہ سلوٹیں نہیں آتیں۔ ایسا کیوں ہے کہ دین کے بہت ہی بنیادی سے فرائض کے معاملے میں گفتار کا ذمہ پیشواو ¿ں نے اپنے سر لے لیا ہے اور عملی کردار ترکھان کے بچوں کو سونپ دیا ہے؟ کیا راولپنڈی کے ایک منبر سے چیختے چلاتے کسی مفتی حنیف قریشی کا فرض منصبی یہی رہ گیا کہ وہ دو وقت کی روٹی کے لئے جوتیاں چٹخاتے کسی ناخواندہ ممتاز قادری کو قتل پہ اکساکر سولی تک پہنچاتا پھرے؟ یعنی خود تو آپ پتنگ پہ لنگڑ ڈالنے کے روادار بھی نہیں اور معصوم نوجوانوں کو ستاروں پہ کمند ڈالنے کا ہنر سکھانے پہ کمر بستہ رہیں؟ مگر نوجوان ہیں کہ پل دو پل کو رک کر غور نہیں کرتے کہ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔

کیا میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ وہ سارے جعلی منجن جو مذہب کی پیکنگ میں دستیاب ہیں، وہ اگر مشائخ خود استعمال کرلیں تو ہم اسے جائز مان لیں گے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ جو ناجائز ہے وہ بہرطور ناجائز ہی ہے۔ اس کھلے تضاد کو سامنے رکھنے کا مقصد صرف نوجوانوں پہ یہ واضح کرنا ہے کہ بات در اصل وہ نہیں ہے جو آپ کو پڑھائی گئی ہے۔ بات دراصل وہ ہے جو آپ سے چھپائی گئی ہے۔ سچی بات تو وہ ہے جو مشائخ اپنی سگی اولادوں کو پڑھاتے ہیں۔ یہ جو آپ کو بتلائی گئی ہے یہ تعبیر کی عالمانہ بنت کاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ افغان جہاد کے وقتوں میں تو چلیں بارود کی گھن گرج تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، مگر اب تو دیکھ لیجیئے کہ ا ±س وقت کس عیاری سے حدیث کا اگلا اور پچھلا حصہ کاٹ کرصرف بیچ کا حصہ سنایا جاتا تھا۔ یہی دیکھ لیجیئے کہ پینتس برس قبل افغانستان میں جس آیت کی تعبیر کچھ تھی، وہ دس برس قبل وزیرستان پہنچ کر کچھ سے کچھ کیوں ہوگئی۔ ٹھیک یہی معاملہ ان گستاخانِ رسول کا ہے۔ کچھ دیر کے لئے رک جایئے، پورے اطمینان سے غور کیجیئے کہ سید عطاو ¿ اللہ شاہ بخاری کی تقریر پر راج پال کی گردن اتارنے والا غازی علم الدین بریلوی مکتب فکر کے مسلمانوں کے لئے غیر اہم کیوں ہے؟ اسی طرح مفتی حنیف قریشی کی تقریر سن کر سلمان تاثیر کے سینے میں برسٹ اتارنے والا ممتازقادری دیوبندی مکتب فکر کے لئے ثانوی درجہ کیوں رکھتا ہے؟ تاریخ میں ایک اور نام غازی عبدالقیوم کا بھی ملتا ہے۔ اس نام کی برسی صرف بریلوی مکتب فکر کیوں مناتا ہے؟ ان سوالوں کا اہلِ مذہب کے پاس صرف ایک ہی جواب رہا ہے کہ خدا چاہے تو گناہ گاروں سے بھی دین کا کام لے لیتا ہے۔ لاحول ولاقوہ۔ سوچتا ہوں کہ اگر خدا نہ ہوتا تو صحیفے بیچ کھانے والے وظیفہ خوار کہاں کی روٹی توڑتے۔ سوچیئے اور بار بار سوچیئے کہ گستاخوں کی گردنیں اتارنے کے لئے اور خود کش حملوں کے لئے ترکھان موچی چوکیدار، ڈرائیور اور خوانچہ فروش اور خانسامے کا ناخواندہ بیٹا ہی کیوں بروئے کار آتا ہے؟ ظاہر ہے پڑھا لکھا دماغ دنیاداری کا ادراک رکھتا ہے۔ غیر شعوری طور پہ ہی سہی، وہ سیانوں کا طریقہ واردات سمجھتا ہے۔ تعبیر کی الجھنوں میں الجھ تو جاتا ہے، مگر وقت لگتا ہے۔

ممتاز قادری کی پھانسی یوں تو ایک نئے وقت کی صورت گری ہے، مگر بات وہی ہے کہ مجنوں جو مرگیا ہے تو جنگل اداس ہے۔ قیامت کا دکھ پھر یہ ہے کہ آج وہ مشائخ بیک آواز نوجوانوں سے مخاطب ہوں گے جن کی گردونوں پہ سلمان تاثیر اور ممتاز قادری دونوں کا ہی خون ہے۔ یہ کل بھی مطمئن تھے یہ آج بھی مطمئن ہیں۔ کیونکہ ممتاز قادری زندہ تھا تو ان کے لئے لاکھ کا تھا، اب مر گیا ہے تو سوا لاکھ کا ہوگیا۔ کفن فروش اس کے مزار کی چادریں بیچ کر کھاتے رہیں گے، مگر کیا یہ نوجوان بھی کچھ سوچیں گے؟ شاید کہ سوچ لیں، مشکل مگر یہ ہے کہ مشائخ نے یہ بات صحیفوں سے ثابت کردی ہے کہ مذہب کے دائروں میں سوچنا قطعی حرام ہے۔ ٹھیک ہے میرا نہیں بنتا تو نہ بن، اپنا تو بن۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
29 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments