معاملات اچھالے کیوں جاتے ہیں؟


شام میں امریکیوں نے شامی ایر فورس کا ایک طیارہ مار گرایا۔ روس کے میڈیا پر یہ خبر ایک عام بلکہ چھچھلتی ہوئی سی خبر تھی، کیونکہ شام کا طیارہ مار گرایا گیا تھا نہ کہ روس کا۔ البتہ روس کی وزارت دفاع کے ایک بیان میں اس واقعے کو شام کی خودمختاری پر جھنجھلاہٹ میں کیا گیا حملہ ضرور قرار دیا گیا ساتھ ہی روس کی وزارت دفاع نے دھمکی دی کہ شام میں تصادم کو تمام کرنے کے سلسلے میں امریکہ سے تعاون روک دے گا۔ روس کی وزارت دفاع کا یہ بیان بھی ایک عمومی خبر کے طور پر پیش کیا گیا۔

ظاہر ہے کہ روس حکومت شام کی درخواست پر شام کے خطوں میں جنگ کرنے والی دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف فضائی کارروائیاں کر رہا ہے۔ اکثر اپنے طور پر اور بعض اوقات شام کی فضائیہ کے ساتھ مل کر چنانچہ امریکہ کی کسی ایسی ہی سرگرمی میں اگر روس کا طیارہ نشانہ بن جائے تو امریکہ اور شام میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث امریکہ کے اتحادی عرب ملکوں کا کوئی طیارہ روس اور شام کی معاندانہ کارروائی کا نشانہ بن سکتا ہے۔ یہ معاملہ دو جمع دو والا ہے۔ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں، سیدھی سیدھی بات ہے کہ روس واضح طور پر اور امریکہ بظاہر شام میں دہشت گردوں کے وجود کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں اس ضمن میں تعاون کرنا ہوگا جس کے سلسلے میں روس اور امریکہ کے درمیان سمجھوتے بھی ہیں۔

امریکہ کا موقف ہے کہ شامی فضائیہ کا طیارہ شام مخالف مسلح دستوں پر بمباری کر رہا تھا جبکہ حکومت شام کا موقف ہے کہ یہ جنگی طیارہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔ ظاہر ہے دو مد مقابل ہوں تو موقف مختلف ہوا ہی کرتے ہیں۔

بات کا بتنگڑ بنانا کوئی مغربی میڈیا سے سیکھے۔ اخبارات میں ایسی ایسی سرخیاں لگائی گئیں اور الیکٹرونک میڈیا پر ایسے ایسے اندازے لگائے گئے جیسے روس اور امریکہ براہ راست متصادم ہونے کو ہیں۔ یہی حال ہمارے اردو اخبارات کا تھا۔ خیر ان کے بارے میں تو بات ہی کیا کرنی جن کا غیر ملک تو غیر ملک اپنے ملک میں بھی چند کے علاوہ کوئی ڈھنگ کا رپورٹر نہیں ہوتا۔ پھر غیر ملکوں سے متعلق خبریں تو مغربی ذرائع سے ہی لی ہوتی ہیں۔

میں چونکہ بی بی سی اردو لندن کا روس سے متعلق ایک مبصر ہوں چنانچہ مجھ سے رابطہ کیا گیا۔ سوالات کرنے کا انداز وہی سنسنی پیدا کرنے والا تھا کہ کیا خطرہ نہیں بڑھ گیا کہ روس اور امریکہ براہ راست آمنے سامنے آ جائیں گے۔ میں اس سوال کا جواب کیا دیتا میں نے یہ ذمہ داری صدر روس محترم ولادیمیر پوتن کے ذمے لگا دی۔ معروف امریکی صحافی اور ڈاکومنٹری فلمیں بنانے والی شخصیت اولیور سٹون کی بنائی ہوئی ڈاکومنٹری فلم ”پوتن“ جسے بنانے میں دو سال کا عرصہ لگا اور جس کے لیے پوتن سے کئی ملاقاتیں کی گئیں، انٹرویو لیے گئے تھے، چار روز پہلے امریکہ کے ٹی وی چینل پر دکھائی گئی تھی اور 19 جون سے چار روز تک مسلسل چار قسظوں میں روس کے بڑے چینل پر دکھائی جا رہی ہے۔ اس کے ایک حصے میں اولیور سٹون پوتن سے پوچھتے ہیں، “کیا روس اور امریکہ کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے؟ “ اس کا جواب پوتن نے بڑی دھیرج کے ساتھ ایک چھوٹا سا فقرہ بول کر دیا تھا، “اس میں کوئی زندہ نہیں بچے گا“ جس کا واضح مطلب تھا کہ دنیا کی دو بڑی جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ نہیں ہو سکتی۔ بی بی سی کا دوسرا سوال تھا ”روس چین پر بہت تکیہ کرتا ہے، کیا چین اور روس مل کر اس سلسلے میں کچھ کر سکتے ہیں؟ “ یہ سوال بے وزن تھا، بہر حال جواب تو دینا تھا چنانچہ عرض کی کہ روس اگر تکیہ کرتا بھی ہے ہے تو چین کی معاشی طاقت پر کہ شاید برے وقت میں چین اس کے کام آئے نہ کہ عسکری طور پر جبکہ چین کو اگر بھروسہ ہے تو روس کی عسکری ٹیکنالوجی پر۔ اس پر یہ سوال داغا گیا ”اگر چین کی معاشی اور روس کی عسکری قوت اکٹھے ہو جائیں تو؟ اس کا جواب کچھ عام سا تھا کہ اللہ نہ کرے ایسا ہو مگر ایسا ہوگا نہیں۔

سیدھی سی بات ہے کہ شام امریکہ کو دھمکیاں دینے کے قابل نہیں، اس کے ایماء پر اس کا طاقتور امدادی ملک ہی امریکہ کو متنبہ کر سکتا ہے۔ مغرب کی بہت کوشش رہی کہ روس کو ضیق کرکے شام سے نکل جانے پر مجبور کیا جائے۔ پہلے نیٹو میں شامل ملک ترکی نے روس کا ایک جنگی طیارہ مار گرایا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ بازی کیسے پلٹ گئی۔ اردگان پوتن دوستی ہو گئی۔ اب براہ راست شام کا طیارہ مار گرایا گیا کیونکہ واضح تھا کہ اس پر روس احتجاج کرے گا۔ روس کے احتجاج کو جارحانہ رنگ دے کر دنیا میں روس کا وقار پامال کیا جائے کہ روس مائل بہ جنگ رہتا ہے۔

روس کا المیہ یہ ہے کہ اس کے ذرائع ابلاغ روسی زبان میں ہیں اگرچہ روس کی بڑی خبر رساں ایجسنی تاس اور روس کے ملٹی میڈیا کونگلومیریٹ ”سپتک“ کی ویب سائٹ انگریزی اور یورپ کی دیگر زبانوں میں بھی ہیں مگر دوسرے ملکوں کے مغربی ذرائع ابلاغ کے عادی صحافی بمشکل ہی ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ روس کی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی ویب سائٹس پر بھی انگریزی کی سہولت حاصل ہے مگر کوئی اس جانب توجہ کرے تو کوئی مختلف بات کہہ سکے ناں۔

معاملات کو اچھالے جانے کے مخصوص مقاصد ہوتے ہیں اور معاملات اچھالے جانے کو میڈیا کی زبان میں ”ہائپ کری ایٹ کرنا“ کہا جاتا ہے کہ کسی بات کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرو کہ وہ ناظر و قاری کو سچ لگنے لگے۔ اگرچہ یہ الزام جرمن فسطائیت پسند جوزف گوئیبلز کو دیا جاتا ہے کہ ” اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگنے لگے“ لیکن درحقیقت اب یہی ہتھکنڈے مغرب اور مغرب سے متاثر دوسرے ملکوں کے ذرائع ابلاغ عامہ میں عام طور پر مستعمل ہو چکے ہیں۔

آج 20 جون کی خبر تو یہ بھی ہے کہ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلّرسن نے روس کے ساتھ معمول کے بہتر تعلقات قائم کیے جانے کی غرض سے ایک سہ نکاتی پروگرام تیار کیا ہے۔ یہ خبر مغربی اور روسی دونوں ذرائع ابلاغ عامہ پر ہے لیکن اس کو بڑا بنا کر پیش نہیں کیا جا رہا اگرچہ اس ضمن میں صدر روس کے پریس سیکرٹری دمتری پسکوو نے یہ ضرور کہا ہے کہ روس ٹلّرسن کے مبینہ پروگرام سے متعلق امریکہ سے مطالبات کرنے کی تیاری نہیں کر رہا۔

جب ضرورت پڑے گی تو یہ کہہ کر کہ ہم تو روس کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں مگر روس ہی مائل نہیں ہے، استعمال کیا جا سکے گا۔ نفسیاتی رسہ کشی کا یہ کھیل شام کے معاملے سے نہیں بلکہ کریمیا کو روس کے ساتھ ملحق کیے جانے کے بعد شروع ہوا تھا۔ یہ تو روس کی اچھی چال تھی کہ اس نے اس معاملے کو پس پشت ڈلوانے کے لیے شام سے ہم آہنگی کر لی کیونکہ ویسے بھی اس کی ضرورت تھی اس لیے کہ شام کی بندرگاہ طرطوس روس کا بحری ٹھکانہ ہے اور یہیں سے روس کے وہ بحری جنگی جہاز جو بحیرہ روم میں متعین ہوتے ہیں مدد لیتے ہیں۔

امریکہ جز بز ہو رہا ہے کہ نہ بحیرہ اسود میں کریمیا کو چھنوا کر روس کا راستہ روکا جا سکا جہاں سے اس کے جنگی جہاز بڑے سمندروں میں جاتے ہیں اور نہ ہی شام سے روس کو کھدیڑا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ جھنجھلاہٹ میں الٹی سیدھی کارروائیاں کرکے جیسے کہ شام کا جنگی طیارہ مار گرا کر زمین اور فضا میں نہیں بلکہ اخباروں کے صفحات اور سکرینوں پر لڑائی لڑی جا رہی ہے جو بالکل گندی ہمسائی کی فحش گوئی کے مترادف ہے۔

اب تو آپ کو سمجھ آ ہی گئی ہوگی کہ معاملات کیوں اچھالے جاتے ہیں اور یہ بھی کہ کون معاملات اچھال کر کیا مفاد لینا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).