ٹوپی بڑے کام کی چیز ہے


ٹوپی بڑے کام کی چیز ہے۔ یہ تعارف حاصل کیے بغیر آپ کے بارے میں بہت کچھ بتادیتی ہے۔ ٹوپی دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسے پہننے والا کس طبیعت کا ہوگا۔ مسلم گھرانوں میں ہر بچہ کم عمری ہی سے ٹوپی پہننے لگتا ہے۔ عبادت کے لئے ٹوپی ضروری ہے۔ کہتے ہیں ٹوپی پہننے سے شیطان اور بیوی ٹھونگے نہیں مارپاتے۔

ٹوپی کے اور بھی کئی مصرف ہیں۔ میرے ایک دوست اس لئے ٹوپی بہنتے ہیں کہ کوئی ان کے چار عدد بال نہ گن لے۔ بال اڑنے لگیں تو ٹوپی سر پہ رکھ لی جاتی ہے۔ موسم زیادہ گرم ہو یا زیادہ ٹھنڈا ٹوپی آپ کی مدد کرتی ہے۔ مسجد جاتے آتے ٹوپی کی ہمراہی ضروری ہوتی ہے۔ کچھ نوجوان کنگھی کرنے کے بعد ٹوپی سے بال جمانے کا کام لیتے ہیں۔ مسجد میں نمازیوں کے لئے بید سے بنی مخصوص ٹوپیوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ بعض لوگ ٹوپیوں میں چھوٹی موٹی چیزیں بھی چھپا لیتے ہیں۔

ٹوپی آپ کے کلچر اور قبیلے سے تعلق کا بھی پتہ دیتی ہے۔ کچھ ٹوپیاں شخصیات کی وجہ سے بھی مقبول ہوجاتی ہیں۔ جیسے جناح کیپ، شہید ملٌت کی ٹوپی، مائوزے تنگ کیپ جو بعد میں بھٹو کیپ بھی بنی۔ قذافی کی ٹوپی اور ملائیشیا کی ٹوپیاں بھی دور سے پہچانی جاتی ہیں۔ پھر سندھی ٹوپی، بلوچی ٹوپی، پٹھانی ٹوپی، کیلاش کی ٹوپی، آغا خانی ٹوپی اور بوہری ٹوپیاں بھی الگ الگ پہچان رکھتی ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے چونکہ کوئی ٹوپی نہیں پہنی اس لئے پنجابی ٹوپی آج تک متعارف نہیں ہوسکی۔ پنجابی ٹوپی پر تکیہ نہیں کرتے اور ننگے سر پھرنا مردانگی سمجھتے ہیں۔ ہمارے چند خلفاء اور بزرگانِ دین ٹوپیاں سی سی کر اپنا گزارا کیا کرتے تھے۔ اس ضمن میں ایک مغل بادشاہ کا بھی نام لیا جاتا ہے مگر تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ ان کے انفارمیشن سیل کی ڈس انفارمیشین تھی اور ٹیکس ادا نہ کرنے کا بہانہ۔

قائد اعظم اچھے بھلے سیکولر انسان تھے اور ٹائی سوٹ کے ساتھ برصغیر کے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان گرم جوشی پیدا کررہے تھے کہ ان کے کسی طالبانی دوست نے انھیں ٹوپی پہننے کا مشورہ دے دیا۔ قائد ملٌت لیاقت علی خان کی ٹوپی ان کے بالوں کی کمزوری کا نتیجہ تھی۔ نواب بہادر یار جنگ کی پُھدنے والی ٹوپی اور حسرت موہانی کی ٹوپی دیکھ کے امیر اور غریب کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ اس زمانے کے اکثر رہنما تقریر اور ٹوپی کے شوقین تھے جیسے سردار عبدالرب نشتر، علامہ اقبال، مولانا حالی اور خواجہ ناظم الدین وغیرہ وغیرہ۔ ان کی دیکھا دیکھی پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی ٹوپی پہن لی تھی جو ان کی شخصیت کی طرح ٹیڑھی تھی۔ گاندھی جی ٹوپی کا تکلّف کیا کرتے وہ تو لباس بھی پورا نہیں پہنتے تھے۔

کہتے ہیں جو خود ٹوپی نہ پہنے وہ دوسروں کو ٹوپی پہناتا ہے۔ ہمارے آج کے لیڈروں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے۔ الطاف حسین کا جب سندھی خون جوش مارتا ہے وہ قوم کو سندھی ٹوپی پہنانے لگتے ہیں۔ عمران خان کے بیانات سے لگتا ہے کہ طالبان انھیں بہت جلد ٹوپی پہنادیں گے۔ زرداری اور رحمان ملک مل کر عوام، فوج، عدلیہ اور امریکہ کو ٹوپی پہنا رہے ہیں۔

کچھ ٹوپیاں فیشنی ہوتی ہیں۔ ایسی ٹوپیاں دیکھنی ہوں تو کینیڈا تشریف لے آئیں۔ یہاں ٹوپیوں کا بازار گرم ہے۔ بعض عورتیں ایسی بھی پائی جاتی ہیں جو صرف ٹوپی اور ہیل والی جوتی پہن کر نکل پڑتی ہیں۔ اس سے کچھ بگڑے نہ بگڑے نوجوان بگڑ جاتے ہیں۔ یہاں ہر سر لگتا ہے کہ کسی نہ کسی ٹوپی کے لئے بنا ہے۔ بعض گرل فرینڈ ایسی ہیں جو بوائے فرینڈ کو صرف ان کی ٹوپی کی وجہ سے پسند کرتی ہیں اور بعض محض نئی ٹوپی کی خاطر بوائے فرینڈ بدل لیتی ہیں۔ غرض یہ کہ دنیا میں ٹوپی والوں ہی کا راج ہے۔ ہمارے ہاں ویسے بھی ٹوپی ڈراموں کی بہتات ہے۔ ہر ہفتے ایک نیا ٹوپی ڈرامہ لانچ ہوتا ہے اور پوری قوم اس کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ ذرا غور کریں تو آج پوری دنیا کو امریکہ ٹوپی ہی تو پہنا رہا ہے۔ میر بہت پہلے کہہ گئے تھے

کوئی عاشق نظر نہیں آتا
ٹوپی والوں نے قتل عام کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).