جو فیصلہ ہونا ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں


ربّ کریم سے میری فریاد ہے کہ عیدالفظر کے فوری بعد Whatsappکی سہولت سے بنی 6 ریاستی اداروں پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی، سپریم کورٹ کے دئیے 60دنوں کے دوران ہی اپنا کام مکمل کر لے۔ ”جرائم پیشہ“ شریف خاندان اپنے ”گاڈفادر“ سمیت عبرت کا نشان بنے۔ انصاف کا بول بالا ہو اور شریف خاندان کے زوال سے سبق سیکھ کر ہماری اشرافیہ رزقِ حلال کمانے کا چلن اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے۔
شریف خاندان سے نجات پانے کے بعد ہمارے ملک میں جمہوریت اور ادارے جب مضبوط ہوجائیں گے تو بحیثیتِ قوم ہمیں اہم ترین فیصلے کرنے کی ہمت بھی عطاءہوجائے گی۔ اس ضمن میں فوری توجہ افغانستان پر مبذول کرنا ہوگی جہاں نومنتخب امریکی صدر 4000 مزید فوجی بھیج کر اس جنگ کو جیتنے کی تیاری کر رہا ہے جو اس کا ملک نائن الیون کے بعد سے اب تک اربوں ڈالر اور ہزاروں جانوں کے زیاں کے باوجود ختم نہیں کر پایا ہے۔
”دریافت“ ٹرمپ نے بالآخر یہ کیا ہے کہ افغانستان میں اس کی مشکلات کا اصل ذمہ دار کوئی ”حقانی“ نامی نیٹ ورک ہے۔ اس کے لوگ مبینہ طورپر پاکستان میں چھپے ہوئے بتائے گئے ہیں۔ ہمارے انٹیلی جنس ادارے ان لوگوں کا سراغ نہیں لگا پاتے کیونکہ وہ ”ضربِ عضب“ اور اب ”ردالفساد“ کے عنوان کے تحت چلائے آپریشنز کے ذریعے پاکستان میں مذہب کے نام پر پھیلائی دہشت گردی سے نبردآزما ہونے میں مصروف ہیں۔ امریکہ کو ڈرون طیاروں اور Human Intelوغیرہ کے ذریعے حقانی نیٹ ورک کے لوگوں کا اپنے تئیں پتہ چلانا ہوگا۔
چونکہ امریکہ کو افغانستان کا قضیہ حل کرنے کے لئے اپنی مدد آپ ہی کرنا ہوگی اس لئے پاکستان کو Coalition Supportکے نام پر جو رقوم فراہم کی جاتی تھیں اب دستیاب نہیں ہوںگی۔ ہماری ریاست کو لیکن اس کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس ملک میں ”ٹیکس چوروں“ کی مجسم علامت سمجھا شریف خاندان اپنے انجام کو پہنچ گیا تو اس کے بعد ہمارے صنعت کار اور کاروباری افراد بلاچوں وچرا اپنے ذمے ٹیکس ریاستی خزانے میں جمع کروانا شروع ہوجائیں گے۔ ویسے بھی چین جو کہ اپنا یار ہے اور جس پر جان بھی نثار ہے 50ارب ڈالر کی خطیر رقم سے کاشغر کو گوادر کے ساتھ ایک جدید ترین شاہراہ کی تعمیر کے ذریعے ملانے کے لئے دن رات ایک کر رہا ہے۔ اس شاہراہ کے دونوں اطراف فی الوقت بجلی پیدا کرنے والے کارخانے بھی بہت تیزی کے ساتھ کھڑے کئے جارہے ہیں۔ بجلی وافر مقدار میں تسلسل کے ساتھ مہیا ہونا شروع ہوگئی تو ہمارے ہاں ملکی اور غیر ملکی منڈیوں میں پہنچنے کے لئے مصنوعات بھی تیار ہونا شروع ہوجائیں گی۔ ان کی تیاری کے لئے مزدوروں کی ضرورت بیروزگاری کے خاتمے میں آسانیاں پیدا کرے گی۔
نواز شریف کے تیسری بار اس ملک کا وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہماری برآمدات میں خطرناک حد تک کمی کا رجحان بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔برآمدات میں مسلسل کمی ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھنے نہیں دے رہی۔ برآمدات میں مسلسل کمی کے علاوہ گزشتہ دو سالوں سے ان رقوم میں بھی مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے جو غیر ممالک میں مقیم پاکستانی مزدور اپنے عزیزوں کی کفالت کے لئے ہر سال بھیجا کرتے ہیں۔ برآمدات کے ذریعے کمائی کے بعد غیر ممالک سے آئی یہ رقوم پاکستان میں معاشی رونق لگانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
پریشانی کی بات مگر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے غیر ممالک میں محنت مزدوری کے ذریعے پیسہ کماکر اپنے عزیزوں کو بھیجنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے۔ یہ دونوں ممالک ان دنوں تیل کی قیمت میں مسلسل کمی کے باعث معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ معاشی مشکلات نے خاص طور پر سعودی عرب کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ اسی لئے وہاں کے شاہ سلیمان نے اپنے لاڈلے بیٹے محمد بن سلمان کو اب اپنا ولی عہد مقرر کردیا ہے۔
31سالہ ولی عہد 2030 تک اپنے ملک کو محض تیل کی دولت پر انحصار سے نجات دلانا چاہ رہے ہیں۔اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے کئی ماہرین سے طویل مشاورت کے بعد ایک طویل المدتی منصوبہ بھی بنارکھا ہے۔ اس منصوبے کی بدولت سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فرو غ دینے کے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ عالمی سرمایہ کاروں کو محمد بن سلمان کے بنائے منصوبے پر بہت اعتماد ہے۔ اسی لئے بدھ کی صبح جب ان کے ولی عہد کا اعلان ہوا تو دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹس میں تیزی کا رجحان نظر آیا۔
ہر حوالے سے بہت ہی بااختیار اور ا پنے اہداف کو عجلت میں حاصل کرنے کی لگن میں مبتلا محمد بن سلمان کو مگر یقین ہے کہ ایران، شام ، یمن اور بحرین جیسے ممالک میں مسلکی بنیادوں پر تخریب کاری کی سرپرستی کرتے ہوئے سعودی عرب کو اپنی معاشی ترقی کے ہدف پر توجہ مرکوز کرنے نہیں دے رہا۔ ان کی نظر میں Enoughاب Enoughہوچکا ہے۔ایران کو اپنا رویہ ہر صورت تبدیل کرنا ہوگا۔
ایران کو اس خطے میں تنہا کرنے کی خاطر ہی محمد بن سلیمان کے ایماءپر قطر کے مقاطعے کا اعلان ہوا ہے۔اب پاکستان جیسے ممالک سے تقاضہ ہورہا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہے یا قطر کے ساتھ۔ نظر بظاہر، ایک قطری شہزادے کے خط کی بنیاد پر اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے کی فکر میں مبتلا نواز شریف کے لئے اس ضمن میں فیصلہ کرنا یقینا بہت مشکل ہے۔ یہ فیصلہ بھی پاکستان میں ”کسی اور“ ہی کو کرنا ہوگا۔ شاید اسی ادارے کو جس نے افغانستان کو روس سے آزاد کروایا تھا۔ اس ملک کو کمیونزم کے فروغ کا مرکز نہیںبننے دیا تھا۔
اس ادارے کی سعودی عرب اور قطر کے درمیان جھگڑے کے بارے میں کیا سوچ ہے اس کی ہمیں خبر نہیں۔ اگرچہ اس ادارے کے حال ہی میں ریٹائر ہوئے سربراہ جنہیں ہم مزید کچھ عرصے تک اپنے عہدے پر فائز دیکھنا چاہ رہے تھے ان دنوں سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ جب 50 مسلمان ممالک کو اسلام اور دہشت گردی کے بارے میں اپنے فرمودات سنانے سعودی عرب تشریف لے گئے تھے تو اپنے اس ملک میں قیام کے دوران انہوں نے مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی قوت -پاکستان- کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم سے ملاقات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔
ٹرمپ کے داماد،جو مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی فیصلہ سازی کے حوالے سے حرفِ آخر سمجھے جاتے ہیں،البتہ ایک میز پر محمد بن سلمان اور ہمارے راحیل شریف کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ راحیل شریف صاحب کی اس میز پر دو انتہائی طاقت ور لوگوں کے ساتھ موجودگی سے ہم عام پاکستانیوں کو خیر کی امید رکھنا چاہیے۔ شاید اس کی وجہ سے ہماری ریاست کے دائمی اداروں کو بھی مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں واضح پالیسی بنانے میں آسانی ہوگی۔سعودی عرب میں مقیم لاکھوں پاکستانی مزدوروں کا روزگار بچانے اور ان کی جانب سے اپنے عزیزوں کی کفالت کے لئے بھیجی جانے والی رقوم کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لئے جو فیصلہ کرنا ضروری ہے اسے سمجھنے کے لئے ہمیں آکسفورڈ یا ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کی ضرورت نہیں۔ جو فیصلہ ہونا ہے وہ ہم سب جانتے ہیں صرف اس کا اعلان ہونا باقی ہے۔ JIT اگر اپنا فریضہ 60دنوں ہی میں سرانجام دے لے تو اس فیصلے کا اعلان بھی آسانی سے ہوجائے گا۔ اس وقت تک میں اور آپ عیدالفطر کو مناسب انداز میں اپنے خاندان کے ساتھ منانے کی تیاری شروع کرتے ہیں۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).