شب قدر اور دادی کی کہانیاں


ہم لوگ روز دادی سے کہانیاں سنتے تھے۔ سارا سال، لگاتار، نان سٹاپ۔ بے شمار اور کبھی نہ ختم ہونے والی کہانیاں ہوتی تھیں۔ جب کبھی سٹاک ختم ہو جاتا تو دادی خود سے گھڑ کر سنا دیتیں۔ کہانیوں کی سپلائی میں دو دفعہ بریک پڑتی تھی۔ ایک شب جمعہ، دوسری شب قدر یا رمضان کے آخری عشرے کی ساری طاق راتیں۔ شب جمعہ تو ایسے بس پلک جھپکتے میں آ جاتی تھی۔ دادی کی جانماز اکثر بوسیدہ سی ہی ہوتی تھی۔ جہاں گھٹنے پڑتے ہیں وہ جگہ تقریباً چھدی ہوئی اور پیشانی رکھنے کی سجدے والی جگہ بھی کافی باریک ہو چکی ہوتی تھی۔ وہی جانماز بچھائے دادی پتہ نہیں کتنی نمازیں پڑھا کرتی تھیں۔ اتنا یاد ہے کہ تھک جاتیں تو بیٹھ کر پڑھنا شروع ہو جاتیں۔ پھر جب پڑھ لیتیں تو قرآن شریف کھول لیتیں۔ انتظار کرتے کرتے اکثر نیند آ جاتی تھی لیکن جب نہیں آتی تھی تو بالاخر وہ مرحلہ آ جاتا جب دادی دعا مانگتی تھیں۔ اب تسبیح ہاتھ میں ہے، پتہ نہیں کیا کچھ مانگ رہی ہیں لیکن ساتھ میں رو بھی رہی ہیں۔ دادی البینو تھیں۔ وہ روتی تھیں تو ان کی آنکھیں ایک دم سرخ ہو جاتی تھیں اور ناک بھی لال ہوتی تھی۔ دادی کا رونا بہت الجھن میں ڈال دیتا تھا لیکن بھئی وہ تو دعا کر رہی ہیں، اب بندہ کیسے جا کے انہیں روکے۔ تو بس منہ بسورتے ہوئے ہم لوگ بھی جیسے تیسے سو جاتے تھے۔ اگلے دن کبھی یہ نہیں پوچھا کہ دادی آپ نے کیا دعا مانگی تھی؟ اندازہ تھا کہ مالک اور بندے کا معاملہ ہے، دخل اندازی بری بات ہو گی۔

دادی کے پاس موٹے حروف والے تاج کمپنی کے سیپارے ہوتے تھے۔ وہ جب بہت زیادہ پڑھنے سے خستہ ہو جاتے تو ان پر کور چڑھا کر فیروزی رنگ کے ایک دھاگے سے انہیں سی لیا کرتی تھیں۔ جب ہم لوگوں کو پڑھاتیں تو سبق دینے کے بعد کچی پینسل سے ہلکا سا نشان لگا دیتی تھیں۔ ان سیپاروں میں شاید دو نسلوں کی پڑھائی کے نشان موجود ہوں گے۔ پڑھتے پڑھتے جب ہم لوگ کوئی لفظ غلط بول جاتے تو ”ہوں“ کی آواز آتی، قرآن پڑھاتے ہوئے زیادہ بولتی نہیں تھیں۔ رمضان شریف میں امی کا اور ان کا ڈائیلاگ زیادہ تر یہی ہوتا تھا، میں نے آج اتنا قرآن پڑھ لیا، آپ نے کہاں تک پڑھا۔ دونوں کو ختم کرنے کی جلدی ہوتی تھی۔

دادی کی اور کوئی ایکٹیویٹی نہیں تھی۔ جب کھانا پکانا کرتی تھیں تب پھر بھی کچھ کام ہوتے تھے جیسے سل بٹے پر چٹنی بنا لی، ناشتہ بنایا، دودھ والا آیا تو اس سے لے کر دیگچی ابالنے رکھ دی، چائے بنا لی، ادھر امرودوں والے درخت کے نیچے بیٹھ کر حمام سے برتن دھو لیے یا نعمت خانے کی صفائی کر لی۔ کچن کمانڈر امی ہوئیں تو دادی بس نماز روزہ تسبیح کی ہو گئیں۔ کبھی کبھار آنکھوں سے بہت قریب رکھ کر اخبار دیکھ لیتیں یا کوئی کتاب پڑھ لیتیں۔ ایک ریڈیو تھا نیشنل کا، اس پر وہ چمڑے کا براؤن کور چڑھا ہوتا تھا، اسے کان سے لگا کر خبریں ضرور سنتی تھیں۔ ابا مہینے کے سودے میں وہ بڑا والا بیٹری سیل ضرور لاتے تھے جو دادی کا واحد الیکٹرونک گیجٹ چلاتا تھا۔ واقعی دادی کے پاس اور تھا بھی ایسا کیا۔ ہاں ایک وہ گھڑی تھی، ٹیبل کلاک، وہ گول والا جس کے سبز حروف چمکتے تھے اور جو روز رات کو چابی دینے سے اگلے چوبیس گھنٹے تک ٹک ٹک ٹک ٹک چلتا رہتا تھا، تو بس وہ سامنے کپ برڈ پر رکھا ہوتا تھا اور ریڈیو ان کے گاؤ تکیے کے ساتھ ہوتا تھا۔ باقی وقت ہماری کہانیوں کا ہوتا تھا یا اللہ اللہ کرنے کا۔

شب قدر کو خوب اگر بتیاں جلائی جاتیں، تخت کے کونوں میں، کپ برڈ کی درزوں میں، دیوار والی الماری کے ساتھ، ہر جگہ اگر بتیاں سلگا کر دادی نمازیں پڑھنا شروع ہو جاتیں۔ ایک بوڑھی سی گوری چٹی سفید خاتون، سنہرے بال، سفید یا آسمانی چکن کا کرتہ، سرمئی یا بھورا سا غرارہ، سفید ہی ململ کا دوپٹہ، بکل مارے ہاتھ باندھے کھڑی ہیں اور بس پڑھتی جا رہی ہیں۔ جب اپنی نمازیں ختم ہو گئیں تو قضائے عمری شروع کر دی، پھر شاید اپنے اماں ابا کی نیت سے بھی کئی نمازیں پڑھتی تھیں۔ شب قدر کے علاوہ بھی یہ سب چلتا تھا۔ دو تین موٹی موٹی کتابیں تھیں جن میں سب مقدس راتوں کے اعمال درج تھے۔ ایک وہ کالی جلد والی تو کئی بار دیکھنے میں آتی تھی۔ دادی جب پڑھنے کے لیے عینک لگاتیں تو شیشے کے پیچھے سے یہ موٹی موٹی آنکھیں جھانک رہی ہوتی تھیں۔ ابھی پچھلے دنوں کسی بزرگ کی عینک دیکھی تو دادی یاد آ گئیں، ادھر شب قدر کا عشرہ آ گیا۔

جب ہم لوگ صحن میں سوتے تھے تو ہمیشہ دادی کی چپل سے آنکھ کھلتی تھی۔ نہیں خدا نخواستہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ بس فجر کے وقت اٹھتیں تو ان کی ہوائی چپل کی آواز سے آنکھ کھل جاتی۔ پھر جیسے تیسے کر کے دوبارہ نیند آ گئی تو آ گئی ورنہ بستر چھوڑ کے کمروں کا رخ کیا جاتا تھا۔ وہاں کولر کی ٹھنڈی ہوا منتظر ہوتی تھی لیکن جو مزا صحن میں کھلے آسمان تلے سونے کا ہے وہ کمروں میں کب آتا ہے؟

وہ ہر چیز کا پورا دھیان رکھتی تھیں، فضول خرچی کا کوئی تصور ان کے وہاں دور دور تک نہیں تھا۔ کالے مٹی کے دانوں والی تسبیح گھس کر ٹوٹ جاتی تو ہاتھوں سے ٹٹول کر ڈھونڈتیں اور سارے دانے اکٹھے کر کے ایک نئی تسبیح بنا لیتیں۔ دھاگہ وہی فیروزی رنگ والا ہوتا تھا۔ غرارے کل ملا کے تین چار سے زیادہ کبھی نہیں ہوئے یہی حال باقی کپڑوں کا تھا۔ ململ کے دوپٹے پھٹ جاتے تو کبھی کسی پھل کا شربت بنانے میں کام آتے اور کبھی ان کی چندھیاں ہم لوگوں کے چھوٹے موٹے زخموں پر باندھ دی جاتیں۔ وہی دوپٹہ گیلا ہو کے گرمیوں میں خس کے مزے دیتا تھا، اسی دوپٹے سے وضو کے بعد اگر تولیہ نہ ملتا تو ہاتھ منہ پونچھ لیتیں۔ دادی کا دوپٹہ گھر کی سب سے پاک چیز ہوتا تھا۔ ہم لوگ خود بھی دھیان کرتے کہ یار نماز پڑھنی ہو گی دادی نے تو بس اس سے منہ نہیں پونچھنا۔ یہ دوپٹے بھی دو چار ہی ہوتے تھے۔ پرانا پھٹتا تو ہی نیا منگواتیں، بس ہر وقت قیامت کو ہونے والے حساب کی فکر ہوتی تھی۔

پودے، کیڑے مکوڑے، ہر جاندار چیز کا انہیں بہت خیال ہوتا تھا۔ پہلی اور آخری بار کسی کو پودوں کے چکر میں باقاعدہ روتے دیکھا ہے تو وہ دادی تھیں۔ گھر میں لگی دو بیلیں کچھ تعمیر وغیرہ کے چکر میں کٹوانی پڑیں تو دادی کے آنسو نکل آئے۔ بس ان پودوں کے علاوہ کسی چیز سے دادی کو ٹینشن نہیں تھی۔ ابھی وہ امرود کا درخت اور گل عباس والی کیاری باقی تھی تو کام ٹھیک ہو گیا۔ دادی کے بعد جب وہاں سے شفٹ ہوئے تو وہ سب کچھ وہیں موجود تھا۔

دادی کے تخت پر چیونٹیاں بھی بہت پائی جاتی تھیں۔ وہ سب اصل میں اس ناریل یا چھوٹے موٹے بسکٹس کے چکر میں آتی تھیں جو دادی نے اپنی الماری میں رکھے ہوتے تھے۔ دادی کبھی ان کو مسلتی نہیں تھیں، بس ایسے ہی پھونک مار کے ہٹا دیا۔ وہ کالے والے مکوڑے تک اگر آ جاتے تو انہیں بھی ہاتھ سے کہیں اور پھینک دیتیں۔ بچوں کو بھی کہتی تھیں کہ بھئی یہ اتے سے تو ہیں، انہیں کیوں مارتے ہو، نہیں مارو گے تو تمہیں کاٹیں گے بھی نہیں۔ وہ ٹھیک کہتی تھیں، واقعی چیونٹیوں کو نہ ماریں تو وہ دوست بن جاتی ہیں۔ کسی اجنبی علاقے کی چیونٹی کاٹ لے تو کاٹ لے، گھر والی کو پتہ ہوتا ہے کسے کاٹنا ہے کسے نہیں کاٹنا۔

دادی لمبی بیمار بھی نہیں پڑیں بس چلتے پھرتے گزر گئیں۔ ان کا مراد آبادی پاندان، سروطہ، چند کتابیں، تھوڑی سی شاعری، وہ قرآن شریف، اعمال کی کتابیں، سب ہی کچھ سنبھلا ہوا ہے، کچھ تصویریں کاغذ پر ہیں، کچھ دماغ میں ہیں، جب تک دم میں دم ہے، موجود ہیں، باقی پھر سب مٹی کی امانت ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain