ہاں میں بزدل ہوں


\"zafarبرطانوی ناول نگار فریڈریک مریات نے اپنی کہانی ’ کرہ قمر کا ایک سفر‘ میں اندھیرے کی مشین دیکھی تھی۔ منشور سے نکلنی والی روشن شعاعیں اندھیرے کی مشین بوتلوں میں ڈال کر قید کرتی تھی۔ ابتدائی انسان کی سب سے بڑی جدو جہد آگ جلانے کی تھی۔ جدید انسان کی محنت کی انتہا اندھیری راتوں کو منور کرنے کی ہے۔ ایک مصور جب کوئی شاہکار تخلیق کرتا ہے تو روشنی کے شیڈ ہی اس کے فن پارے کو لازوال بناتے ہیں۔ ایک شاعر کو اندھیرا ہٹانے کے لئے خورشید آستینوں والوں کو آواز دینی پڑتی ہے۔ دانتے ’ڈیوائن کامیڈی ‘میں اندھیروں سے نبرد آزما ہے۔ روشنی کی تلاش میں شیکسپئیر کو ’ اندھیرے کا شہزادہ‘ تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے کبھی اندھیرے کو پسند نہیں کیا۔ اندھیرا کس کو پسند ہے؟ دانش کا مگر میدان دوسرا ہے۔ دانشور دلیل سے اپنی بات کرتا ہے۔ کہتے ہیں دانشور کا کام سچ بولنا ہے۔ اسے اس غرض نہیں ہے کہ حالات کیا ہیں۔ وہ سچ کا علمبردار ہے اور سچ بولتا رہے گا۔ اس پیمانے پر دیکھا جائے تو فریڈریک مریات کو کہا جائے گا کہ صاحب اندھیرے کی مشین تو ٹھیک ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اندھیرا کچھ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ نظر آنے والی روشنی جب صفر ہو تو اس کو اندھیرا کہتے ہیں۔ ساغر صدیقی کو بتایا جائے گا کہ جناب والا پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ خورشید آستینوں والے کہیں نہیں پائے جاتے اور دوسری بات یہ ہے کہ انسانی آنکھ جب سفید سے سیاہ کے اسکیل پر کوئی رنگ نہ دیکھ سکے تو اسے اندھیرا کہتے ہیں۔ دانتے کو آج کا سائنس بلد دانشور بتائے گا کہ فوٹونز کے نظر نہ آنے کو اندھیرا کہتے ہیں۔ فوٹون رروشنی کی بنیادی اکائی ہے۔ اس کی کمیت صفر ہوتی ہے۔ اس کا لائف ٹائم سٹیبل ہوتا ہے۔ اس کا الیکٹرک چارج زیرو ہوتا ہے۔ شیکسپیئر کو کہا جائے گا کہ آپ کے’ اندھیرے کا شہزادہ‘ جنٹلمین ہے یا شیطان ہمیں اس سے بحث نہیں لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اندھیرا چار سو سے سات سو نینو میٹر کی ویو لینتھ والی روشنی کی غیر موجودگی کو کہتے ہیں۔ یہ سچ کا مطلق اظہار ہے۔ سچ کے ایسے علمبرداروں کے نزدیک سماج کی نوعیت، اس کے حالات، اس کے باسیوں کا ذہنی پس منظر ثانوی اصول ہیں۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ سچ بولا جائے اور ڈنکے کی چوٹ پر بولا جائے۔ جو اس سچ کا ساتھ نہ دے ان کو بزدلی کا طعنہ دیا جائے۔

اس طرح کی ایک بحث ہماری تاریخ میں موجود ہے جب مولانا امین احسن اصلاحی نے ’تدبر القرآن‘ میں رجم کی سزا پر بحث کی ہے۔ اس بحث کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے مخالفین مطلق سچ کے علمبردار ہیں جبکہ مولانا کہتے ہیں کہ ہر جرم میں مجرم کے حالات اور جرم کی نوعیت کو دیکھا جاتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ ایک شخص نے قتل کیا ہے۔ عدالت نے اسے سزا دے دی اور بات ختم ہو گئی۔ لیکن مدعا اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔ ممتاز قادری نے قتل کسی ذاتی دشمنی کی بنیاد پر نہیں کیا بلکہ مذہبی جذبات کے تحت کیا۔ ان جذبات کی آبیاری کرنے والے اس سماج میں لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ کسی بھی شخص کو سزا دینا معاشرے کے کسی فرد کا نہیں بلکہ عدالت کا ہے۔ ممتاز قادری پر مقدمہ بنا اور عدالت نے اسے سزا دے دی۔ ممتاز قادری کی موت کے بعد ممتاز قادری کا نام لے کر لبرل ازم کے نام پر سچائی کے بھنگڑے ڈالنا جانے کونسی دانشوری ہے؟ کسی سے اختلاف کی نوعیت ذاتی ہو یا فکری، اس کی موت کی صورت میں بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ مرنے والا اپنے دفاع کے لئے موجود نہیں ہوتا۔ اپنی تمام تر فکری اختلاف کے باوجود بھی کسی کی موت پر خوشی منانا اچھا عمل نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ممتاز قادری کا عمل کسی ذاتی دشمنی پر مبنی نہیں تھا بلکہ ایک سوچ کی بنیاد پر تھا۔ اس سوچ کے حامی اسی سماج کے رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں ان سے مکالمہ کر کے ان کو قائل کرنا ہے کہ سزا دینے کا اختیار صرف عدالت کا ہے سماج کے اشخاص کا نہیں۔ مکالمے کی روایت کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ کسی گروہ کے محبوب شخص کی موت پر کم از کم خوشی نہ منائی جائے۔ لیکن معلوم ہوا کہ ہم تو بزدل ہیں۔ ہمارے کاندھوں پر سچ کا بوجھ ہے جو ہم نے کسی بھی صورت ادا کرنا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ہم سماج میں مکالمے کے فروغ کے لئے کا م نہیں کر رہے بلکہ ہم میدان جنگ میں کھڑے سپاہی ہیں جن کا کام دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنا ہے۔ حیرت زدہ ہوں کہ ہمارے کچھ بہی خوا کہتے، لکھتے تو ہیں کہ ہم ’سزائے موت‘ کے خلاف ہیں لیکن ممتاز قادری کی موت پر خوش ہیں۔ جن کا مسئلہ سچ ہے وہ کم از کم یہ توجان لیں کہ سچ نہ جامد عمل ہے اور نہ بے موقع و بے محل بولنے کی چیز ہے۔ ہم میں سے ہر بچے نے اپنے ماں باپ سے ضرور پوچھا ہو گا کہ میں نے کیسے جنم لیا؟ سچ کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ہمیں اس تخلیق کا عمل بتا دیتے مگر حفظ مراتب یہ تھا کہ وہ یہی کہتے کہ تمہیں میرے پاس پریاں چھوڑ گئی تھیں۔ انسان سماج کی بنیادی اکائی ہے۔ سماج کے مراتب کا لحاظ کرنا بنیادی انسانیت کا اصول ہے۔ باچا خان کے انتقال کو اٹھائیس برس گزر گئے لیکن باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد جب باچا خان کا نام لے کر ان کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کو کوشش کی گئی تو ہمیں بہت تکلیف پہنچی تھی۔ انتظار حسین کی موت کے تین بعد جب ایک دانشور نے ان پر تنقید کی تھی تو ادب سے محبت کرنے والوں کی آنکھیں نم دیکھی تھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ممتاز قادری اس دیس کے لاکھوں لوگوں کا ہیرو ہے۔ ابھی اسے دفن بھی نہیں کیا گیا کہ ہماری سچ میں لتھڑی دانشوری سنبھل نہیں رہی۔ ممکن ہے ہماری بات غلط ہو اور ہمارے دوست سچ کہتے ہوں مگرہماری تربیت اس دیس کے ایک پسماندہ ،قبائلی روایتوں سے بھرے سماج میں ہوئی ہے۔ اس سماج کی روایتوں نے ہمیں صرف بہادری سکھائی ہے۔ دشمن کے ساتھ لڑنا کیسے ہے؟ اپنی انا اور شملے کی اونچائی کی خاطر خود کو اور دشمن کو تباہ کیسے کرنا ہے، یہ ہم بچپن میں سیکھ گئے تھے۔ ہم نے انسانی زندگی کو تباہ کرنے والے بہادری کے سارے اصول بھلا دیئے۔ یاد رکھا تو صرف اتنا کہ کسی کی موت پر شادیانے نہیں بجائے جاتے۔ ایک روشن مستقبل کا خواب بنا۔ اس سماج کو بہتر بنانے کا خواب ۔ اس سماج کو بہتر بنانے کے لئے سمجھا کہ جنگ اصول اور مکالمے کی ہے۔ کسی کے جذبات کو مجروح کر کے کوئی جنگ جیتنا ہمارے پیش نظر نہیں۔ ریاست موجود ہے۔ ریاست کے باب میں سچ بولنے کا موقع آئے گا۔ میں بھی کھل کر بولوں گا۔ آپ بھی کھل کر بولیے گا۔ لیکن انسانی موت پر میرا ضمیر ماتم کے علاوہ کسی سچ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ ایک دن کے لئے سچ کو سانس لینے دیں۔ میں ایسے سماج کا باسی ہوں جہاں چار سو اندھیرے پھیلے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اندھیرا چار سو سے سات سو نینو میٹر کی ویو لینتھ والی روشنی کی غیر موجودگی کو کہتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ فوٹون رروشنی کی بنیادی اکائی ہے۔ اس کی کمیت صفر ہوتی ہے۔ اس کا لائف ٹائم سٹیبل ہوتا ہے۔ اس کا الیکٹرک چارج زیرو ہوتا ہے۔ فوٹونز کے نظر نہ آنے کو اندھیرا کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں اندھیرے سے ڈرتا ہوں۔ ہاں میں بزدل ہوں، کیونکہ مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
25 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments