بڑے میاں کے بھٹو جونیئر


سات منٹ کی ویڈیو نے سترہ کروڑ عوام کو حواس باختہ کر رکھا ہے۔ تین سے چار دن پہلے آئی اس ویڈیو میں ذوالفقار علی بھٹو جونیر وہ حرکتیں کر رہا ہے جو شاید ہمارے معاشرے کا کوئی بھی ذی شعور مرد کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر سوچ بھی لے تو کسی بند کمرے میں کھڑکیوں کے پردے چھڑا کر بتیاں بجھا کر آئینے پر بڑا سا کپڑا ڈال کر زنانہ لباس پہننے کی اکیلے میں ہمت کرے گا۔ اس کے بعد کسی اور کے ذلیل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کے اندر موجود باطن ہی کافی ہے زندگی حرام کرنے کے لیے۔

جہاں تک میرا اندازہ ہے وہاں تک جونیر کا دو ر دور تک شہیدوں کی فہرست میں نام لکھوانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جو ان کو شہیدوں کی فہرست میں دیکھنے کے کیے پرامید تھے ان کی سسکتی امیدوں نے بھی اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد دم توڑ دیا۔ لڑکا اپنی زندگی میں مگن ہے اور اس کا کسی قوم، قبیلے یا مذہب سے عملاً کوئی تعلق نہیں دکھائی دیتا۔ فیمنسٹ کا نیا رول ماڈل اور نام نہاد لمبی داڑھی اور بڑھی مونچھوں والوں پر یکساں لعنت بن کر ابھرا ہے یہ لڑکا۔

انجام تو خدا ہی جانے کیا ہونا ہے سلائی کڑھائی کا۔ لڑکا صحیح ہے یا غلط ۔ اس راہ پر یہ لڑکا کیسے پہنچا۔ اسے کیوں مظلومیت کا اشتہار نہیں بننا۔ دی پرنس کے بجائے اس نے آرنلنڈ کی ورزش کی کتاب کیوں چنی۔ یہ تو خدا ہی بہتر جان سکتا ہے۔ معاملہ جونیر اور خدا کے درمیان ہی رہنے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے کیوں کہ مجھے استاد نے سکھایا بھی یہی ہے اور میں دل سے مانتا بھی ہوں کہ کردار بندے اور خدا کے بیچ کا معاملہ ہے نہ کہ بندے کا بندے سے۔

 میں اپنی رائے دینے کے بجائے دفتر میں موجود بڑے میاں کی رائے بتانا زیادہ ضروری سمجھتا ہوں ۔ دفتر میں موجود بڑے میاں کافی کرخت قسم کے انسان ہیں۔ ان کا موسیقی، فلم یا آرٹ سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ صوم و صلواۃ کے پابند ہیں۔ ہمارے جیسے کسی الکسی سے روزہ چھوٹ جائے تو اللہ کے ساتھ ساتھ ان کو بھی حساب دینا پڑتا ہے۔ اول تو ہم ایسی غلطی کرتے ہی نہیں کہ بڑے میاں کے علم میں ہمارا کوئی شرعی طور پر نامناسب عمل آئے اور اگر ان کو کہیں سے پتہ چل جائے کہ کسی ہٹے کٹے نے صرف اس وجہ سے روزہ نہیں رکھا کہ سحری پر آنکھ نہیں کھلی تھی تو موصوف کے پسندیدہ اور ہمارے ناپسندیدہ دن کا آغاز ہوجاتا ہے۔ بڑے میاں کےپاس مانو کوئی یو۔ ایس۔بی موجود ہے جو کہ وہ گناہگار کے یو۔ ایس۔ بی پورٹ میں فوراً سے بیشتر ڈال دیتے ہیں جس کے ذریعے وہ ہماری نظر میں محدود اور ان کی نظر میں ان کی لا محدود دینی تعلیمات۔ جرم و سزا۔ روز محشر کا حساب کتاب کی طرح کے تمام دینی علوم سے گناہ گار کو آشنا کراتے ہیں۔

بڑے میاں کہتے ہیں وہ شروع سے ایسے نہیں تھے۔ زندگی میں کچھ واقعات جو کہ وہ خود یا خدا ہی جانتا ہے ایسے آئے کہ یکسر زندگی بدل گئی۔ میں بڑے میاں کو 7 سال سے جانتا ہوں اور میں نے انہیں 7 سال سے ایسا ہی پایا ہے جیسے وہ ابھی ہیں۔ پرانی زندگی کی چند عادتیں آج بھی ان کے ساتھ ہیں اور انہی عادتوں میں ایک عادت جو کہ ان کی فطرت کا حصہ ہے وہ ہے میر مرتضی بھٹو سے جنون کی حد تک عشق۔ آج بھی بڑے میاں میر مرتضی بھٹو کے ان جیالوں میں سے ہیں جو ٹی۔ وی کے آگے بیٹھ کر پرانی تقریریں سنتے ہوئے ہر نعرے کا جواب با آواز بلند دیتے ہیں۔ میر مرتضی کا سینہ ٹھونک کر چوراہوں پر تقریر کرنا۔ آستین اوپر چڑھانا۔ آگے کا بٹن کھلا رکھنا یہ ساری باتیں بتاتے ہوئے بڑے میاں کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ بڑے میاں کی نظر میں میر مرتضی آج بھی زندہ ہے اور بڑے میاں انہی کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔

چند دن قبل فرصت کے لمحات میں فیس بک چلاتے ہوئے میں نے یہ سات منٹ کا ویڈیو دیکھا۔ پہلی بار دیکھنے کے بعد مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میرے اس ویڈیو اور لڑکے کے بارے میں کیا تاثرات ہیں۔ رات تک سوشل میڈیا پر تبصرے اور تجزیوں کی یلغار ہوچکی تھی۔ میں بھی اپنی ایک ٹوٹی پھوٹی رائے بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔ صبح دفتر پہنچا تو بڑے میاں کام میں منہمک تھے۔ میں نے بڑے میاں کو کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ایک ویڈیو آپ دکھانی ہے۔ نجانے کیوں میں جونیر کہنا بھول گیا۔ بڑے میاں نے عینک بدلی اور موبائل میں ویڈیو دیکھنا شروع کی۔ جونہی ڈسکو دیوانے شروع ہوا اور جونیر نے اینٹری لی، بڑے میاں نے ویڈیو روک دی۔ مجھ سے ماتھے پر شکن کے ساتھ پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا میر مرتضی کا بیٹا ہے۔ چند لمحے مجھے دیکھنے کے بعد بڑے میاں نے خود ہی پلے کا بٹن دبایا۔ ابھی نازیہ حسن نے ڈسکو دیوانے دوبارہ کہا ہی تھا کہ بڑے میاں کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔ میں ویڈیو نہیں دیکھ پا رہا تھا صرف بڑے میاں کو دیکھ رہا تھا۔ نازیہ حسن آہا آہا کہہ رہی تھی۔ بڑے میاں کی آنکھوں سے ایک آنسو نکلا جو کہ ان گالوں پر رینگتا ہوا ان کے زانو پر جا گرا۔ نجانے کیوں میرے لیے یہ سب سلو موشن میں ہو رہا تھا۔ کوئی تیس سیکنڈ کے اندر اندر بڑے میاں نے کانپتی ہوئی انگلی سے دوبارہ ویڈیو روک دی۔ مجھے مسکرا کر دیکھا۔ میرا موبائل مجھے دیا اور چپ چاپ اُٹھ کر واش روم کی طرف چلے گئے۔ دس منٹ کے بعد بڑے میاں واپس آئے نہ میں نے ان سے کوئی سوال کیا نہ انہوں نے مجھ سے دوبارہ کوئی بات کی۔ سارا دن چہرے پر معمول کے مطابق مسکراہٹ اور طبعیت کے مطابق کرختگی آتی جاتی رہی۔ دن گزر گیا۔ عید کی چٹھیاں شروع ہوگئی ہیں۔ دفتر ختم ہوا وہ اپنے گھر اور میں اپنے گھر۔ مجھے تو یاد رہے یا نہ رہے مگر بڑے میاں کو ڈسکو دیوانے ساری زندگی یاد رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).