غیرت کے نام پہ قتل ہونے والی ” کالی ” شہزادی !


ھم نے ہوش سنبھالا ہی تھا کہ گھرمیں، ماں، دادی ماں، پھوپھی ماں سب سے خوبصورت پریوں کی کہانی سنتے تھے۔ پھر زندگی کا ایک ہی مقصد ہوتا تھا کہ کسی طرح کسی خوبصورت پری کی ایک جھلک دکھ جائے۔ اٹھتے، بیٹھتے، گھومتے پھرتے، کھاتے، پیتے بس یہی خواھش ہوتی تھی کہ کسی طرح کسی پری کا دیدار ہو جائے۔

اور خدا نے ھماری سن لی۔ پاکستان ٹیلی ویزن نے اس وقت کے اعتبار سے بہت بڑی لائیو ٹرانسمیشن چلا کر ہم کو وہ پری دکھائی تھی۔ برطانیہ کی خوبصورت شہزادی لیڈؑی ڈیانا کی شادی کی تقریب تھی اور ھم نے ٹی وی پہ دیکھا کہ وہ حسین و جمیل شہزادی واقعی ایک خوبصورت پری لگ رھی تھی۔

پھر کیا تھا، ڈیانا چاکلیٹ، ڈیانا سپاری، ڈیانا ٹافی، ڈیانا کی تصویروں والے کپڑے، پرس، کی چین، تاش کے پتے، چائے کے مگ، رکشہ کے پیچھے، ٹرک کے چاروں سائیڈ ہر طرف شہزادی ڈیانا ہی ڈیانا چھائی ہوئی تھی۔

 پھر اگلے سال شہزادی ڈیانا کے تھے۔ ان کی شخصیت واقعی میں ایک ایسی خوبصورت پری کی طرح سامنے آئی جو انسان دوست اپسرا تھی۔

دلوں پر راج کرنے والی شہزادی ڈیانا کے پیرس میں کار ایکسیڈنٹ میں مرنے کی خبر سے پوری دنیا پہ سوگ طاری ہو گیا تھا۔ میرے دوست جمیل گاد نے تو لاڑکانہ میں تین دن تک چٹائی بچھائی تھی اور سینکڑوں نوجوانوں سے تعزیت وصول کی تھی۔

وقت کے ساتھ خبریں آتی رہی کہ شہزادی ڈیانا کی موت ایکسیڈنٹ نہیں تھا۔ بلکہ ان کو عرب بیوپاری ڈوڈی الفواد کے ساتھ محبت کرنے کی سزا ملی۔ ڈوڈی بھی اسی ایکسیڈنٹ میں مارا گیا تھا۔

اب ایک تازہ رپورٹ آئی ہے کہ شہزادی ڈیانا کو غیرت کے نام پہ قتل کیا گیا۔ وہ شاہی خاندان کی رسوائی کا سبب بن رہیں تھیں۔ اس لئے ان کو ” کالی ” قرار دیکر قتل کیا گیا تھا۔

غیرت کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے، عشق، محبت، پسند کی شادی، مرضی کی شادی، گھر سے بھاگ کر شادی، دوستی، کسی غیر مرد سے بات کرنے، خاندان کی مرضی سے شادی نہ کرنے والی باغی عورتوں اور لڑکیوں کے لئے نام ” کالی ” رکھا ہوا ہے۔ غیرت مندوں کی اپنی قائم کردہ عدالتوں، جرگوں وغیرہ میں اگر کسی کالی پر اس کی ” کالک ” ثابت نہیں ہوتی جس کے امکان بہت کم ہوتے ہیں ان کو ـ سندھی میں ” ڳاڙهي” یعنی لال کہا جاتا ھے۔

پاکستان میں روزانہ کئی لڑکیوں اور عورتوں کو غیرت کے نام سے کالی کرکے مارا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل ریسورس سینٹر کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریبا پانچ ہزار لڑکیوں اور عورتوں کو غیرت کے نام پر کالی کر کے مارا جاتا ہے۔ قتل ہونے والیوں میں سے ایک ہزار پاکسستان، تقریبا ایک ہزار ہی ھندوستان اور 12 کا تعلق برطانیہ سےہوتا ہے۔

 ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے برطانوی ایجنسی ایم فائیو کے سابق آفیسر جان ہاپکنز کے حوالے سے خبر شایع کی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ شہزادی ڈیانا کی گاڑی کو حادثہ پیش آنا منصوبے کا ایک حصہ تھا۔

 80 سالہ جان ہاپکنز اس وقت بیمار ہیں اور انہوں نے بستر مرگ پر اعتراف کیا ہے کہ اس نے لیڈی ڈیانا کو قتل کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ لیڈی ڈیانا کو قتل کرنا ضروری تھا کیونکہ ان کی وجہ سے شاھی خاندان کی عزت پر داغ لگ چکا تھا اور لیڈی ڈیانا کے پاس شاھی خاندان کے راز بھی تھے جن کو وہ منظر عام پر لانے کا پروگرام بنا رہی تھیں۔

جان ہاپکنز کے مطابق ان کو حکم ملا کہ ہر حال میں ليڈی ڈيانا کو قتل کرنا ہے مگر ان کی موت حادثہ لگنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ میرا باس 15 سال پہلے مر چکا ہے اور اس منصوبے کے ماسٹر مائنڈ شہزادہ فلپ کو سزا نہیں دی جا سکتی۔

اس خبر پر برطانوی شاہی خاندان نے تو اپنا موقف ظاہر نہیں کیا مگر کئی نشریاتی اداروں نے اس انٹر ویو کو جھوٹا اور من گھڑت قرار دیا ہے۔

کہنے والے بھلے لیڈی ڈیانا کو “کالی” کہیں مگر وہ اپسرا پری ھمارے لئے ” ڳاڙهي” ( لال ) تھی اور ھیشہ لال ہی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).