مزاح یا پھپھو کے رشتے سے نفرت


آپ تو پھپھو کی طرح ناراض ہوتے ہیں۔ پھپھو پہ گئی ہے اپنی ویسی حرکتیں کرتی ہے۔ پھپھو آئیں گی تو پورا خاندان ساتھ لائیں گی۔ کر دی نا پھپھو جیسی بات۔ ایسے اور اس سے ملتے جلتے ہزاروں جملے روز مرہ کی زندگی میں طنز و مزاح کے پیرائے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ کچھ عرصے سے مزاحیہ ویڈیوز اور سوشل میڈیا کے انٹرٹینر کا موضوع بھی یہی ہے، پھپھو کا نام سنتے ہی خوامخوہ ہنسی آتی ہے۔ ذہن میں یہ آ جاتا ہے کہ کچھ منفی اور مذاق اڑانے والی بات ہی کی جائے گی۔ اس سماج میں جہاں کہا جاتا ہو کہ خاندان بنیادی اکائی ہے۔ رشتوں کا احترام روایت کا حصہ ہے۔ شادی دو افراد کا نہیں دو خاندانوں کا بندھن ہے وہاں ایک قریبی رشتے کے حوالے میں یہ تعصب کچھ عجیب لگتا ہے۔ ایسا کیوں کہ باپ کی بہن کے کردار کو اس قدر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے بھلائی کی توقع ممکن نہیں۔ اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ بھابی اور نند کی روایتی مخاصمت کو ظاہر کرتا ہے۔ دشمنی رقیبوں میں ہو تو جچتی بھی ہے اس رشتے میں رقابت احترام کے حوالے میں ہی نہیں جچتی کہ بہن اور بیوی دو مختلف نوعیت اور حثیت کے رشتے ہیں جن کا آپس میں کوئی تقابل نہیں ہے۔

بہن بھائی کی آپسی لڑائیاں، نوک جھونک، ہنسی مذاق بچپن میں ہوں یا نوجوانی میں بہت بھلے لگتے ہیں۔ ہم میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہو جس نے اپنے بہن بھائیوں کو تنگ کرنے کی غرض سے ان کی غلط شکایت نہ کی ہو، یا ان کا کوئی کھلونا یا ضرورت کی چیز نہ چھپائی ہو۔ ان کی اداسی اور خاموشی دور کرنے کے لیے خوامخواہ تنگ کرنے کے بعد ہنسایا نہ ہو۔ یہ پیار کا وہ اظہار ہے جو اس رشتے کا خاصا ہے۔ لیکن یہی محبت عملی اور ازدواجی زندگی میں اس قدر کیوں بدل جاتی ہے کہ وہی بہن جس کی خاموشی بری طرح سے کھلتی ہو اسی کے بھائی کے بچوں سے رشتے کو طنز اور تضحیک کا نشانہ بنایا جائے، بلا وجہ کی نفرت پروان چڑھائی جائے۔ اس کی ہنسی اڑانا تفریح کا سستا ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہو۔ اور وہ شخص جو بہن سے محبت کے رشتے میں جڑا ہو اسے خاموشی سے برداشت کر رہا ہو۔ اس لیے کہ یہاں محبتوں کا معاملہ اتنا پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ اسے سلجھانا ممکن نہیں رہتا۔ ایک طرف شریک حیات اور بچوں کی محبت تو دوسری طرف ماں جائی سے محبت، معاملہ گھمبیر ہو جاتا ہے۔

وہ معاشرہ جو احترام کا اتنا پرچار کرتا ہو کہ اپنے سے کسی بڑے سے اونچی آواز میں بات کرنا تو درکنار سوال کرنے کو بھی گستاخی سمجھتا ہو۔ اپنی بنیاد میں چھپی اس خرابی کو نہیں دیکھ پاتا کہ جہاں تعلیم کا بنیادی ادارہ، ماں ہی اپنی بچی کے ذہن میں بچپن میں لاشعوری طور پہ اپنے سسرال سے نفرت پروان چڑھاتی ہے اور نوجوانی کے اوائل میں اسے باقاعدہ سکھاتی ہے کہ بھابیوں اور سسرالیوں سے منفی رویہ روا رکھنا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس ماں کو اپنے خاوند سے یہ شکوہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بہن کو اہمیت دے رہا ہے اس کا خیال رکھتا ہے وہی ماں اپنے بیٹے سے چاہتی ہے کہ وہ مستقبل میں اپنی بہن سے محبت اور ہمدردی کا جذبہ روا رکھے۔ یہ منافقت پہ مبنی وہ رویہ ہے جو معاشرے کا خاصہ بن چکا ہے۔ جہاں حقوق کی جنگ لڑی جاتی ہے لیکن فرائض کسی کو یاد نہیں ہوتے۔ بد صورتی تب جنم لیتی ہے جب توازن بگڑتا ہے۔ وہ توازن حقوق و فرائض کا ہو یا ہر چیز اور فرد کو صحیح مقام پہ رکھنے کا۔ جہاں یہ بگڑے گا وہیں حسن ختم ہو گا اور مسائل جنم لیں گے۔

دیکھا جائے تو یہ بہت عام سی بات ہے لیکن غور کیا جائے تو نفرت اور منافقت کی پنیری ہے۔ جو فرد ایک ایسے سسٹم میں پرورش پائے جس نے خود کو احترام کے لبادے میں ڈھانپ رکھا ہو، ظاہری پیار اور اقدار کا پاسدار ہو لیکن در پردہ انہیں رشتوں سے نفرت سکھاتا ہو جو بظاہر محترم ہیں وہ اپنے کردار اور اخلاق میں کیونکر سچا ہو سکتا ہے۔ جسے بنیادی تعلیم ہی عیاری کی دی گئی ہو وہ کیسے سیکھ سکتا ہے کہ سچ کہنا ہے اور خود کو اس بھیس میں پیش نہیں کرنا ہے جو وہ حقیقت میں نہیں ہے۔ یا تو اس روایتی نظام کو ختم ہو جانا چاہیے جو خاندان پہ مبنی ہے جہاں خاندان کا مطلب تین نسلوں کا باہمی تعلق ہے اور فرد کو آزادی ہو کہ اپنی مرضی سے زندگی کا راستہ اور شریک سفر چنے اپنے انداز سے زندگی گزارے کم از کم رشتوں میں منافقت سے بچا رہے گا۔ دوسری صورت میں اگر واقعی ہی اسی نظام کے ساتھ چلنا ہے تو منافقت ختم ہونی چاہیے۔ یہ پہلے سے ذہنی خاکہ تیار کرنا کہ سسرال محاذ ہے اور وہاں ہر شخص تیر تلوار لیے تیار بیٹھا ہے نفرت کے بیج دل میں بو کے نئے رشتوں کا آغاز کرنا اور پھر انہیں منافقت سے نبھانا ایسے ہی افراد کی پرورش کر سکتا ہے جو ہر معاملے میں ریاکار، جھوٹے اور منافق ہوں گے۔ جو اپنی اصلیت کو چھپانے کی کوشش میں اتنے مگن رہیں گے کہ شخصی بہتری کا خیال چھو کے بھی نہ گزرے۔ خرابی بنیاد میں ہے اس پہ سماج کی سیدھی عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ منافقت سے بچنا ہے تو اس طرز فکر کو بدلنا ضروری ہے جو جڑ میں موجود ہے جو منافقت سکھاتا نہیں بلکہ اس کی باقاعدہ پرورش کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).