عید پر اسحاق ڈار اور عمران خان کی بہترین حکمت عملی


حکومت اور سٹیٹ بینک کی بہترین پالیسی کی وجہ سے ملک بھر میں افراط زر میں نمایاں کمی واقع ہو چکی ہے۔ ہم تو خیر اکنامکس پڑھے ہوئے ہیں، عام افراد کو افراط زر کی تکنیکی اصطلاح سمجھنے میں دقت پیش آ سکتی ہے۔ تو بھائی، اگر حکومت جائز طریقے سے ٹیکس سے پیسہ کمانے کی بجائے نوٹ چھاپ چھاپ کر نظام چلائے تو اس سے مارکیٹ میں پیسہ زیادہ ہو جاتا ہے مگر اشیا کی تعداد وہی رہتی ہے جس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔

دوسری طرف عید اور رمضان میں بھی مہنگائی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ بعض معاشی ماہرین کی رائے میں اس کی وجہ طلب و رسد کا توازن ہوتے ہیں کہ اشیا کم ہو جاتی ہیں اور ان کے طلب گار زیادہ، سو ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ مگر اتفاق کی بات ہے کہ مغربی ممالک میں کرسمس کے موقعے پر طلب میں یہ اضافہ قیمتوں میں اضافہ نہیں کر پاتا ہے بلکہ الٹا قیمتوں میں نمایاں کمی ہو جاتی ہے۔

خوش قسمتی سے مملکت خداداد یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشی سربراہ اس وقت اسحاق ڈار نامی ایک قابل شخص ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کا ایسا علاج کیا جائے کہ ان کو قرار واقعی سزا مل جائے اور وہ ایسے برے کام نہ کریں۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ مارکیٹوں اور تاجروں سے نمٹنا تو حکومت کے بس کی بات نہیں کہ وہ ایک شریف حکومت ہے اور زور نہیں دکھا سکتی۔

دوسری طرف یہ بات بھی دیکھنے میں آ رہی تھی کہ ملک میں امیر غریب میں تفاوت بڑھتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر عید کے موقع پر خوشحال لوگ اچھے اچھے کپڑے خریدتے ہیں، عید پر ان کے بچے مہنگے کھلونے خریدتے ہیں اور ان کی جیبیں عیدی سے بھری ہوتی ہیں، وہ چھٹی آتے ہی گاڑی کے اندر پورا خاندان اور ٹینکی میں پیٹرول بھرتے ہیں اور پوں پوں ہارن بجائے ہوئے اپنے آبائی شہروں کے غریبوں کو جلانے کے لئے وہاں چلے جاتے ہیں۔

اسحاق ڈار صآحب نے گرانفروشوں اور ان نودولتیوں کا حکمت سے علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ کل سے لاہور کے بینک چیک دکھانے والے کھاتہ داروں کو ٹھینگا دکھا کر واپس کر رہے ہیں کہ کہ کیش نہیں ہے۔ اے ٹی ایم مشینوں کے متعلق بھی یہی اطلاعات ہیں کہ وہ پیسہ دینے سے شرما رہی ہیں۔ باقی ملک کا بھی یہی حال ہونے کی توقع ہے۔

یعنی اس برس یہ نو دولتیے پیسہ نہ ہونے کے سبب ویسے ہی عید منائیں گے جیسے غریب غربا مناتے ہیں۔ نہ شاپنگ کریں گے، نہ اپنے آبائی شہر جائیں گے، نہ بچوں کو عیدی دے کر فضول خرچی کی تعلیم دیں گے۔ امیر غریب اس برس ایک ہی صف میں کھڑے کر دیے گئے ہیں اور وہ مل کر حکومت کو وہی کہہ رہے ہیں جو ہم آپ بھی اکثر کہتے رہتے ہیں۔ معاشی تفاوت کے خاتمے پر حکومت کو جتنی بھی داد دی جائے وہ کم ہے۔ واہ کیا سنہرا اصول ہے کہ افراط زر کا توڑ کرنے کی خاطر زر کو ہی مارکیٹ سے ہٹا دیا جائے۔ یعنی نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

دوسری طرف عمران خان صاحب کی ’پی کے‘ حکومت بھی سماجی تفاوت کو ختم کرنے کے معاملے پر کام کر رہی ہے۔ ’پی کے‘ حکومت کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے صوبے میں عید دو یا تین دن منائی جاتی ہے۔ لوگوں کو ایک عید پر راضی کرنے کے پچھلے برس تو مسجد قاسم خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو عمرے پر بھیج دیا گیا تھا۔ اس میں غالباً یہ حکمت تھی کہ وہ بچشم خود دیکھ لیں کہ سعودی عرب میں حکومتی اعلان سے ہٹ کر اعلان کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کی گواہی دینے کو ان دنوں جناب زید حامد بھی موجود تھے جن کی ان دنوں صرف ٹوپی ہی لال نہیں تھی۔ مگر اس سعودی دورے کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا اور اس رمضان میں بھی دو دو چاند نکل آئے۔

اب ہمارے پشاوری نمائندے نے یہ اطلاع دی ہے کہ مفتی پوپلزئی پراسرار طور پر گمشدہ ہو چکے ہیں۔ وہ جمعرات کو اسلام آباد جانے کا کہہ کر نکلے تھے اور اب ان کی کوئی خیر خبر نہیں مل رہی ہے۔ تحریک انصاف سے بلاوجہ کا بیر رکھنے والے یہ کہیں گے کہ صوبائی حکومت ایک مرتبہ ہی قانون سازی کر کے یہ مسئلہ حل کر سکتی تھی کہ صوبے میں نجی رویت ہلال کمیٹیاں قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اس پر سزا ملے گی اور ایسا کرنے والی مساجد کی قفل بندی کر دی جائے گی۔ مگر یہ بیری یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ تو کوئی استادی نہ ہوئی۔ بندے پراسرار طور پر گم نہ ہوں تو حکومت سے ڈرے گا کون؟

24 جون 2017

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar