ممتاز قادری کیس اور دوستوں کے اظہاریے


\"husnain

 کب لباسِ دنیوی میں چھپتے ہیں روشن ضمِیر

جامۂ فانُوس میں بھی شعلہ عُریاں ہی رہا

ذوق کا یہ شعر ہے اور ہم ہیں۔ شاعر تلامیذ الرحمن کہلائے جاتے تھے، کیا غلط تھا۔ حالیہ واقعات کی ایک لہر ایسی اٹھی کہ سب کے چہروں سے نقاب اتار گئی۔ جو دوست دن رات محبت کا پرچار کرتے نہیں تھکتے تھے، ان آنکھوں نے ایک انسان کی موت پر انہیں شاداں و فرحاں دیکھ لیا۔ اپنے ہی جیسے لاکھوں انسانوں کے جذبات کا احترام نہ کر کے خدا جانے وہ کیا ثابت کرنے کے چکر میں ہیں۔ ہمارا میڈیا اس معاملے میں شدید کنٹرولڈ رہا۔ معاملہ ہی کچھ ایسی نوعیت کا تھا کہ جتنی کوریج دی جاتی اتنی ہی بے چینی اور نقض امن کا خطرہ ہوتا، قلعی مگر سوشل میڈیا پر کھل گئی۔ شقاوت قلبی کے ایسے اظہاریے نظر آئے کہ دور جاہلیت کی یاد تازہ ہو گئی۔ جو لوگ اس موقف کے حامی تھے کہ موت کی سزا کو ختم کر دینا چاہئیے، وہ حمایت موقوف کیے بیٹھے ہیں۔ جو لوگ اس اصول کے پرچارک تھے کہ ہمیں باہمی احترام کو فروغ دینا ہے اور اپنے لوگوں سے پیار اور محبت کی بات کرنی ہے، وہ مردہ دفنائے جانے کا انتظار بھی نہ کر سکے۔ جن کو امن کی بے لوث آشا تھی وہ بدامنی اور نفرت کے غوث بن گئے۔ فقیر سمیت جو ہر بات پر بیانیے کا رونا روتے تھے، انہیں آج کوئی بیانیہ نہیں سوجھتا، دانتوں میں انگلی دبائے بیٹھے ہیں اور دیکھتے جاتے ہیں کہ ردعمل کی خواہش کیا اتنی شدید ہو سکتی ہے؟

ایک محترم دوست کہنے لگے، یار ہم خود قبائلی ہیں، دشمن دار لوگ ہیں، لیکن جب ہمارے دشمن کا بھی جنازہ اٹھتا تھا تو ہمارے گھر میں سوگ ہوتا تھا، ایک وقت کھانا نہیں بنایا جاتا تھا۔ وہ لوگ جو رونا روتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کے اقدار قبائلی ہیں، بات بات پر جھگڑتے مناظر عام ہیں، مبارک ہو، ان کا رونا بھی آج دفن ہوا۔ قبائل کے باسی بلاشبہ ہم سے بہت زیادہ مہذب ہیں۔ سیاست، نفرت کی سیاست، لاشوں پر بیان بازی، جنازوں کے اٹھنے سے پہلے ہی جھگڑے، یا خدا، اٹھارہ سو ستاون ہو، انیس سو سینتالیس ہو یا دو ہزار سترہ آ جائے، نہیں بدلنا ہم نے! نسلیں گزر گئیں، عمریں بیت جائیں گی، مہذب مکالمے کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ جو ہماری تحریر ایک برس سے پڑھتے آ رہے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ ہمارا موقف کیا ہو گا۔ اور اگر ہمارا موقف خود ہمارے اور ہمارے پڑھنے والوں کے ذہن میں واضح ہے تو اس قدر ہاہاکار مچانا چہ معنی دارد؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم اصولی موقف، امن، سیکولرازم، محبت، رواداری وغیرہ کا راگ الاپتے الاپتے آ گئے اپنی اوقات پر۔ مہذب طریقے سے بات کیجیے، وقت کا انتظار کیجیے، ایک عدالتی فیصلہ تھا، اس پر عمل درآمد ہوا، لبرلز کے معاملے میں تو یہ ہے کہ اگر آپ فیصلے کے حق میں ہیں اور ساتھ ساتھ آپ پھانسی کی سزا کو درست بھی نہیں سمجھتے اور تمام عمر اس کے خاتمے کے لیے دہائی دیتے آئے ہیں، تو بھئی خاموش ہو جائیے یا کم از کم اپنے موقف کی پاس داری کیجیے، بقول ظفر اقبال

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر

آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئیے

یہ تو نری دوعملی ہے کہ آپ اسے اپنی اخلاقی فتح قرار دیں اور اگلے سال کسی پھانسی پر پھر سے موم بتیاں جلا لیں۔ بہ صد معذرت، فقیر اس معاملے پر اپنی کوتاہ فہمی کے ہاتھوں مجبور ہے شاید۔ ہمارے جن بھائیوں کا غم ابھی تازہ ہے، کیا یہی موقع تھا کہ آپ ان سے اس طرح کے مکالمے کرتے۔ بھئی سیدھی سی بات ہے، ہوا کسی کی نہیں ہوتی، چراغ آج کسی کے بجھتے ہیں کل کسی اور کی باری آ جاتی ہے، مکالمہ اس سطح پر رکھیے کہ کل کو مڑ کر دیکھیں تو آپ کو شرمندگی اور اگلی نسلوں کو حیرت نہ ہو۔

جب نوکری شروع کی تو بہت سے مسائل سامنے کھڑے تھے۔ لوگوں کا رویہ ناقابل فہم حد تک تکلیف دہ ہوتا تھا، ایک وقت آیا کہ نوکری چھوڑ دینے کا خیال گھر کر گیا۔ والد سے مشورہ کیا، کہنے لگے، یار یہ دیکھو یہ میری یونیفارم کا کوٹ ہے نا؟ مجھے جب کوئی آدمی الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے، تو چاہے وہ کوئی افسر ہو یا کوئی اور ہو، میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ میرے کوٹ سے باتیں کر رہا ہے، میں اسی کوٹ کی حیثیت سے اس کو جواب دے دیتا ہوں، گھر آتا ہوں، کوٹ کو جھاڑ کر ہینگر پر ٹانگ دیتا ہوں، میں آزاد ہوتا ہوں۔ تو جان لیجیے کہ فقیر نے بھی زندگی کا ہر معاملہ آج تک اسی کوٹ کے اندر سے نمٹایا ہے، والد گرامی کی عطا یہ کوٹ نہ ہوتا تو انا کا اژدھا نوکری سمیت نہ جانے کس کس مقام پر خوار کروا چکا ہوتا۔ صاحبو، عرض یہ ہے کہ جہاں آپ کی انا کا غبارہ کسی بھی معاملے میں پھیلتا ہے، وہاں اس کا پھٹ جانا بھی یقینی ہوتا ہے، ایسے غباروں سے یا کہہ لیجے پانی کے بلبلے جتنی اوقات رکھنے والی اپنی فکری کامیابی پر ایسا ردعمل کسی دانا کو زیب نہیں دیتا۔ ہمارا معاشرہ، ہمارے لوگ، ہم سے محبت کرنے والے، ہم سے بات کرنے والے، ہمیں پڑھنے والے اور ہم سے روز ملنے جلنے والے ہم سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم اپنے اقدار اور اپنی روایات کا پاس اس حد تک ضرور کریں کہ جس کو اردو میں اخلاق اور انگریزی میں Courtesy  کہتے ہیں۔ ہم انہیں میں سے ہیں، ہماری جڑیں بھی یہیں ہیں، ہمارا تنا بھی اسی مٹی میں گڑا ہے، ہماری شاخیں بھی اسی دھرتی میں پنپنی ہیں، ہمارے پتے بھی یہیں گرنے ہیں اور ہمارا پھل بھی یہیں لگنا ہے۔ ولائتی کھاد ہو یا دیسی ہو، اگر حد سے زیادہ ڈال دی جائے تو جڑیں تک جل جاتی ہیں پیارے دوستو! لکھنا اور سوشل میڈیا پر کوئی بھی پوسٹ کرنا، آپ کے کردار کا عکس ہیں، جس طرح ظاہری لباس پر توجہ دی جاتی ہے، کوشش کیجے کہ عکس بھی سنور جائے تو کیا کہنے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments