عام آدمی اور عید


ماہِ رمضان اختتام پذیر ہے ۔ پورا مہینہ بڑے بڑے تاجروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے ٹھیلوں اور کھوکھوں کے مالک دکان داروں تک سب نے مصنوعی مہنگائی کے ثمرات سے بے پناہ فائدہ اٹھایا ۔ اس دوران میں مساجد میں معمول سے زیادہ عبادت گزار نظر آئے فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ تراویح اور نفل نمازوں کا اہتمام بھی کیا گیا ۔۔ شب بیداری اور نفلی عبادات سے روحانی تربیت کا عمل یقینی بنایا گیا۔ ہر قابلِ ذکر ٹی وی چینل پر رمضان مبارک کے حوالے سے خصوصی پروگرام نشر کیے گئے ۔ اس دوران میں بڑے بڑے مذہبی اجتماعات بھی دیکھنے کوملے ‘ انفرادی اور اجتماعی افطاریوں کا سلسلہ عروج پر رہا ۔۔۔

جہاں عام مہینوں سے زیادہ عبادات کی گئیں وہاں روزمرّہ اخراجات کی شرح میں بھی اضافہ ہو گیا۔۔ افطاری و سحری پر کئی کئی ڈشیں تیار کی گئیں ۔ مختلف ہوٹلوں نے افطار بوفوں کے خاص پیکج متعارف کرائے۔ افطار پارٹیوں میں زیادہ تر افسرانِ بالا کی خوشنودی کو پیشِ نظر رکھا گیا اس کے علاوہ مخصوص سیاسی اور کاروباری و تجارتی نوعیت کی افطاریوں پر بھی بے دریغ دولت خرچ کی گئی۔ عام آدمی کا سال بھر کا بجٹ ایک ایک افطاری پر خرچ کیا گیا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی عید کی خریداری کے نام پر کپڑوں اور جوتوں پر پانی کی طرح روپیہ پیسہ بہایا گیا۔۔۔ عید کے تین دنوں کے لیے سال بھر کے کپڑے جوتے اکٹھے کر لیے گئے ۔۔ خواتین نے جیولری ‘ مہندی اور چوڑیوں پر ہی مہینے بھر کا بجٹ خرچ کر دیا۔۔۔ دکانوں پر صبح و شام ایک ہجوم دیکھنے کو ملا۔۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً چھے مہینے کا بجٹ اس ایک ماہ میں لگا دیا گیا ۔

صدقات و زکوٰۃ اور ایثار و قربانی کے اس مقدس مہینے کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت کو بہت کم محسوس کیا گیا ۔۔۔۔ بعض مخیر افراد اور اداروں کی طرف سے ناکافی کوششیں قابلِ ستائش تو ہیں لیکن مجموعی طور پر مستحقین کی مالی مدد کا رجحان بہت کم دیکھا گیا ۔ مزدور کے دن اسی طرح دھوپ میں کام کرتے اور دو وقت کی روٹی کمانے میں گزرتے رہے ۔۔۔ پیشہ ور بھکاریوں نے حقیقی مستحقین کے حصہ بھی اچک لیا۔۔۔ یتیموں اور بیواؤں کی آنکھیں دہلیز پر لگی رہیں لیکن کوئی مدد کو نہ آیا۔۔۔۔ حکومتی سستے رمضان بازار بھی سستے نہ رہے۔ اس سال بھی عام آدمی اشیائے صرف سے کہیں زیادہ سستا رہا ۔ اور تو اور کوئٹہ ‘ پارہ چنار اور کراچی میں عام آدمی کے خون سے دہشتگردوں نے اپنے ہاتھ اور وطنِ عزیز کا چہرہ رنگین کر دیا۔ مقتدرہ اور سیاسی حلقوں میں پانامہ پانامہ کا کھیل جاری رہا ۔۔۔۔ سیاسی بیان بازی اور الزام تراشی کو پارٹی کی کامیاب پالیسی قرار دیا گیا ۔۔۔۔ مساجد سے مولویان عوام کو صبر و شکر کا درس دیتے رہے ۔۔۔۔ اور جنت کی بشارت سناتے رہے ۔۔ فطرانہ کے نام پر ایک معمولی سی رقم بھی بڑے بڑے خیراتی اداروں کو ملتی رہی ۔۔۔ یہ نہ سوچا گیا کہ پڑوسی کے گھر عید کے روز بھی فاقہ رہے گا ۔۔۔ نمود و نمائش اور جھوٹی شان و شوکت پر بے دریغ خرچ کرنے والے ہجوم کو قوم بنانے کے لیے نامعلوم کتنا عرصہ درکار ہے ۔۔۔۔ مایوسی گناہ ہے لیکن کیا کریں حقیقت حال ایسی ہے۔ عام آدمی غریب مزدور ‘ یتیموں اور بیواؤں ‘ معذوروں اور بیماروں کی عزت نفس کو مجرح کیے بغیر جب ضرورت زندگی میسر آئیں گی تو اس وقت یہ نکبت و افلاس زدہ معاشرہ خوشحال ہو جائے گا ۔ کشکول بدست قوم ہو یا فرد وہ کبھی سر اٹھا کر زندہ نہیں رہ سکتا ۔۔۔ آئیں اس قوم اور اس کے افراد کی حقیقی زندگی کے لیے دعا کریں ۔ شاید رمضان المبارک کے انعام اور اجر کے طور پر خدا ہماری یہ دعا قبول کر لے ۔۔۔۔ عام لوگوں میں عید کی خوشیاں بانٹ کر عید منانے کی التجا کے ساتھ آپ سب کو عید کی پیشگی مبارک قبول ہو۔۔۔

ڈاکٹر اصغر علی بلوچ
Latest posts by ڈاکٹر اصغر علی بلوچ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر اصغر علی بلوچ

ڈاکٹر اصغر علی بلوچ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد میں شعبہ اُردو کے چیئرمین ہیں۔

asghar-ali-baloch has 4 posts and counting.See all posts by asghar-ali-baloch