کوک فریدا کوک


بہت سے لوگ ایسے بھی ہماری زندگی میں آتے ہیں جن سے ہمارا کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہوتا ۔لیکن وہ کوئی ایسی بات کہہ جاتے ہیں ، کر جاتے ہیں ، یا ان سے منسوب کوئی ایسی بات ہم تک پہنچتی ہے جو کہ ہماری سوچوں کو ایک نیا رخ دے دیتی ہے اور گویا ہماری زندگیوں کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتی ہے۔اس نشست میں میں ایک ایسی ہی شخصیت اور ایک ایسی ہی بات کا ذکر کروں گا۔

جب سن 1957 میں ہم لوگ اپنے آبائی گاوں کوٹلی لوہاراں پہنچے تو وہاں ہمارے خاندان کے گھروں کے علاوہ ایک اور احمدی گھرانہ بھی رہتا تھا۔ اس گھرانے کے سر براہ تھے تایا یوسف، ہم نے ان کو تایا یوسف اس لئے کہنا شروع کیا کہ ہمارے تایا زاد سب کے سب ان کو چچا یوسف کہتے تھے۔

مجھے اور گھرانوں کا اتنا علم نہیں ہے لیکن ہمارے گھرانے کی یہ ریت رہی کہ اپنے سے بڑوں کو ہمیشہ کسی مناسب رشتے سے پکارتے تھے۔ مثلاً اپنے گھر میں کام کرنے والی عیسائی خاتون کو ہم چھوٹوں نے ہمیشہ چاچی رکھی پکارا اور گھر کے نائی کو ہمیشہ چاچا جی ہی کہا۔ اس لئے، بغیر کسی رشتے کے، ہم ان کو تایا جی کہتے تھے اور انکی بیگم کو تائی جی۔ ہم گاؤں آنے کے کچھ عرصے کے بعد ہی ان کے بچوں کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔ انکا بیٹا ناصر احمد مجھ سے کو ئی دو ڈھائی سال ہی چھوٹا تھا لیکن جب میں نے اسکول جانا شروع کیا تو وہ میرا دوست ہی بن گیا، حالاں کہ وہ مجھ سے دو تین کلاسیں آگے تھا۔

تایا یوسف کے ہمارے گاؤں آنے کی بھی ایک کہانی تھی۔ ساری عمر کسی باہر کے ملک میں ملازمت کرکے جب لدے پھندے پاکستان آئے تو انکو اپنی جمع پونجی کو کسی کاروبار میں لگانے کی سوجھی ۔ ایسے میں کہیں میرے تایا عبدالخالق صاحب سے بھی ملاقات ہو گئی۔ اور تایا جی نے انکو ـبیلے میں اراضی ٹھیکے پر لینے کا مشورہ دیا۔بیلے سے مراد دریائے توی کے آس پاس کا جنگل تھا ہیڈ مرالہ کے قریب۔

تایا جی کی منطق اس حد تک تو درست تھی کہ زمین زرخیز ہے اور اگر جدید مشینری سے زمین تیار کرکے کاشت کی جائے تو سونا اگلے گی۔ لیکن قدرتی آفات یعنی سیلاب وغیرہ کی طرف انکی توجہ نہ گئی۔ خیر تو جب ہم گاؤں پہنچے تایا یوسف بہت سارا نقصان اٹھا چکے تھے ، لیکن چونکہ زمینیں ایک خاص مدت کے لیے پٹے پر لی تھیں، اس لیے مارے باندھے لگے ہوئے تھے۔ تایا عبدالخالق صاحب کا عمل دخل تقریباً ختم ہو چکا تھا۔

اتنا ڈھیر سارا روپیہ ضائع ہونے کا اور پھر انہی زمینوں پر ایک بچے کی وفات کا ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ اثر تو ہوا ہوگا۔ ان کی بیگم تو اکثر شکوہ کرتی سنائی دے جاتی تھیں، لیکن ان کو ہم نے ہمیشہ ہنستے مسکراتے ہی دیکھا۔ یہ نہیں کہ ان کو غصہ ہی نہیں آتا تھا۔ انہوں نے جو گھر کرائے پر لے رکھا تھااس کی دیوار ہمارے گھر کے ساتھ ہی تھی۔ اس لئے ادھر سے گزرتے ہوئے، کبھی کبھار ان کے اونچا بولنے کی آواز بھی سنائی دے جاتی تھی۔ غرضیکہ ایک نارمل آدمی تھے۔

تایا یوسف نے پرانے زمانے میں بی ایس سی کیا تھا، ریاضی کے ساتھ، ناصر کو اگر کبھی ضرورت پڑتی تو ان سے سوال سمجھتا تھا ۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ ناصر کو کم ہی ضرورت پڑتی ہوگی۔ مجھے اس چیز کی کرید کچھ کم ہی ہوتی تھی کہ کون کتنا پڑھا ہوا ہے۔ مجھے تو یہی فکر لگی رہتی تھی کہ میں شاید نہ پڑھ پاؤں۔ مجھے کچھ یوں پتا چلا کہ کسی نے ایک حساب کا سوال پوچھا اور وہ میں نے کر دیاعام حساب ہی کے طریقے سے ۔ بعد کو پتا چلا کہ وہ تو بہت ہی مشکل سوال تھا، ناصر کے ابا نے بھی اس کو الجبرا کے طریقے سے کیا تھا، وہ تو بی ایس سی ہیں۔

تایا یوسف کی حساب دانی سے زیادہ مجھے ان کے قرآن کریم کے ساتھ شغف نے متاثر کیا۔ ان کی بیٹھک میں، ہر طرف قرآن ہی قرآن نظر آتے تھے۔ چونکہ قرآن ہی تھے میں نے ان کو کھول کر پڑھنے کے لئے کبھی اجازت نہ مانگی،اور نہ ہی مجھے کسی نے ٹوکا۔ اکثر حاشیوں میں تفسیری نوٹ بھی لکھے ہوتے تھے۔ جب ابا مرحوم کے ساتھ رہتے تھے ہم لوگ تو ابا بلند آواز کے ساتھ قرآن مع ترجمے کے پڑہا کرتے تھے۔ اماں ناظرہ ہی پڑھتی تھیں پر ہمیں یہ پتا تھا کہ قرآن کی آیات کے معنی ہوتے ہیں، لیکن اس بات کی سمجھ تایا یوسف کے قرآنوں کے حاشیے پڑھ کر آئی کہ بعض آیات کے معانی اور طرح بھی ہو سکتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ تایا یوسف کو عربی خوب آتی تھی۔ کچھ تو یقین ہے کہ انہوں نے پڑھی ہوگی اور کچھ اس لئے بھی کہ ایک عرب ملک میں عمر کا ایک بڑا حصہ گذار کر آئے تھے۔ میں نے ان کو عربی بولتے تو نہ سنا، کہ ایسا کوئی موقع نہ نکلا لیکن نمازوں میں ان کی قرآت سے کچھ اندازہ ہو جاتا تھا کہ جو پڑھ رہے ہیں جانتے ہیں۔ فجر کی نماز میں تو اکثر سماں بندھ جاتا تھا، بغیر جانے کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں دل اثر پذیر ہوتا تھا۔

گو کہ گھر میں نماز قرآن کا چرچا رہتا تھا لیکن میں نے باوجود سولہ سترہ سال کا ہونے کے قرآن مکمل طور پر نہیں پڑھا تھا۔ وجہ اس کی کچھ تو یہ تھی کہ گھر پہ پڑھتا تو اماں پڑھاتیں اور اماں کو حلق سے حلوے والی ح نکالنی نہیں آتی تھی اور کسی مسجد وغیرہ میں پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھاکہ بچپن زیادہ تر سفروں میں کٹا۔ پہلا اور آخری سپارہ پڑھ رکھا تھا اور پانچ سات چھوٹی سورتیں بھی یاد کر رکھی تھیں جب کبھی مذہب کا جوش اٹھتا نماز وغیرہ پڑھ کر وہیں سے کچھ پڑھ لیا کرتا تھا۔

 تایا یوسف کے قرب کا اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے کا ایک فایدہ تو یہ ہوا کہ مجھے بھی قرآن پڑھنے اور اسے مکمل طور پر پڑھنے کا شوق ہوا۔ اور ایک رمضان میں میں نے پورا قرآن پڑھ ہی لیا۔ آپس کی بات ہے، اگر صرف تایا یوسف کی بات ہوتی تو شاید میں ان کو بھی ٹال جاتا آخر اتنا عرصہ ابا کو بھی تو ٹالا تھا۔ بات کوئی خاص تو نہیں پر اس وقت تھی۔ میرے ایک تایا زاد تھے جو کہ مجھ سے دو تین سال چھوٹے تھے پر یہی ایک کمی تھی ان میں۔ ورنہ وہ ہر بات میں مجھ سے آگے تھے ۔ میں چھ جماعت پاس کرکے ڈنڈے بجایا کرتا تھا اور وہ آٹھوین یا نویں میں تھے ۔ مجھے بس ایک دو پاروں سے زیادہ قرآن نہیں آتا تھا اور انہوں نے بچپن ہی سے قرآن ختم کر رکھا تھا اور ہر رمضان میں پورا قرآن ختم کرتے تھے اس پر مستزاد یہ کہ بہت ہی خوش الحان تھے۔ روزانہ فجر کے بعد بھی پڑھتے تھے پر اس کا مجھ پر اثر کم ہی ہوتا تھا کہ میں اکژ فجرکے بعد لمبی تان لیتا تھا یا پھر دیر سے اٹھ کر پڑھتا تھا اور امی کی ــویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں (وقت کی نماز اور نا وقت کی ٹکریں )جیسی جلی کٹی سنتا تھا۔

خیر کچھ عرصہ تو میں نے برداشت کیا پر ایک رمضان میں بس یہ سمجھ لیں کہ پانی سر سے گزر گیا۔ وہ شاید کالج میں تھے اور میں بھی خیر سے دوبارہ اسکول جانے لگا تھا۔ بیسواں روزہ اور اماں نے ان سے پوچھا کہ وہ کون سے پارے پر ہیں۔ انہوں نے بائیسواں یا تئیسواں بتایا۔ اور اماں نے بڑی حسرت سے میری طرف دیکھا۔ بس سمجھ لیں کہ وہ ایک نظر کھا گئی مجھ کو۔ ظہر کا وقت تھا، شپا شپ وضو کیااور نماز پڑھی، بلکہ ٹھونکی، اور بیٹھ گیا قرآن کھول کر۔ پہلا اور آخری پارہ پڑھنے کی وجہ سے کچھ حرف شناسی تو تھی ا ور کچھ تاؤ بھی تھا پانچ پارے پڑھ کر اٹھا۔ الغرض میں نے وہ رمضان ختم ہونے تک قرآن پڑھ لیا، جیسا بھی پڑھا۔ بیگم کا خیال ہے کہ غلط ہی پڑھا ہوگا۔ اب درست غلط کا تو مجھے پتا نہیں پر یہ ضرور پتا ہے کہ قاف پر اور صاد پر مجھے خاصی محنت کرنا پڑی، بعد کو۔ اور سچی بات یہ ہے کہ آج بھی جب کسی قاری کو سنتا ہوں تو بہت غور سے سنتا ہوں تاکہ کوئی نئی بات ہو تو اسے پلے باندھ لوں۔

خیر تو بات ہو رہی تھی کہ تایا یوسف اور عزیز عبدالسمیع کی وجہ سے میں نے قرآن پورا پڑھا۔ اللہ تعالی ان دونوں کو غریق رحمت کرے۔ اورتایا یوسف کا مجھ پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ ان کا قرآن کریم کے ساتھ شغف اور اس کی تفسیر کے ساتھ دلچسپی نے بعد کو میری تعلیم میں بہت مدد دی۔ تایا یوسف کا ایک اور احسان بھی ہے مجھ پر کہ جب میں نے دوبارہ اسکول میں داخلہ لینا چاہا تو باوجود اس کے کہ ان کا میرا کوئی رشتہ نہیں تھا اور میرے اپنے میرے اسکول میں داخلے کے مخالف تھے یہ میرے ساتھ گئے تھے مجھے ہائی اسکول مں داخل کروانے۔ اور سب سے بڑھ کر جس بات نے میرے کردار کی تشکیل کی سوچتا ہوں ہوں کہ وہ بھی کہ دوں کہ شاید ، جس طرح وہ بات میرے کام آئی کسی اور کے بھی کام آجائے۔

تایا جی (تایا یوسف) کی دور کی نظر بے حد کمزور تھی، یہ موٹے موٹے شیشے ہوتے تھے ان کی عینک کے۔ ان کو دیکھ کر خیال یہی ہوتا تھا کہ کیا نظر آتا ہوگا بے چارے کو، پر انکی نظر گردو پیش پر خوب رہتی تھی، اپنی تیز رفتاری کے باوجود۔ ایک روز میں جو گھر سے نکلا اور ان کے گھر کے دروازے سے ذرا ہی آگے گیا ہوں گا کہ وہ گلی کا موڑ مڑ کر اپنے گھر کی طرف آتے نظر آئے۔انکے قریب آنے پر میں نے سلام کیا تو جواب دیتے ہوئے رک گئے اور قریب قریب ایسے انداز میں جیسے کہ کوئی ضروری پیغام دینا ہو کہنے لگے بابا فرید کا ایک شعر ہے۔ کوک فریدا کوک جویں راکھا جوار جب لگ ٹانڈا نہ گرے تب لگ کوک پکار (اے فرید جوار کے رکھوالے کی طرح شور مچا اور جب تک فصل نہ کٹ جائے شور مچاتا رہ) یہ کہ کر وہ اپنے گھر کو چل دئے اور میں اپنی راہ لگا۔

میری ایک عادت ہے اسے میں جگالی کرنا کہتا ہوں ، وہ یہ کہ جب فراغت ہو تو میں گزشتہ واقعات پر غور کرتا ہوں۔اور پھر ان پر اپنی رائے قائم کرتا ہوں۔ تو اس واقعے کے بعد پہلی جگالی میں میں نے اس شعر پر غور کیا تو یہ معرفت کا شعر لگا کہ جوار کا راکھا بھلا کیوں شور مچائے گا ؟ اسی لئے ناں کہ پنکھ پنکھیرو اور توتے وغیرہ فصل پر نہ بیٹھیں اور کیوں نہ بیٹھیں؟ بیٹھیں گے تو جوار کھائیں گے فصل خراب ہوگی۔ پر یہ تو جوار کے راکھے کا کام ہے، باوا فرید کو کیا پڑی تھی کہ جوار کے راکھوں کا سبق ہم کو سنائیں۔ اس لئے اس شعر کو یونہی نہیں ٹالنا چاہئے۔ اگلی جگالی پر یہ کھلا کہ اگر جوار کی فصل سے مراد انسان کی اپنی زندگی لی جائے تو گناہ وغیرہ ہوئے فصل کو نقصان پہنچانے والے پنکھیرو اور شور مچانے کا مطلب ہوا ان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنااور باوا فرید کا فرمان ہے کہ اس وقت تک کوشش کرتے رہو جب تک فصل کٹ کر گھر نہ آجائے یعنی جان جان آفرین کے حوالے نہ کردی جائے۔

ایک اور جگالی میں عقدہ یہ کھلا کہ اس شعر کے اور مطالب بھی ہوسکتے ہیں گو کہ باوا فرید کامطلب شاید وہی تھاجو کہ میں پہلے بیان کر چکاہوں۔ ایک مطلب مثلا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر کسی کام کے کرنے کا بیڑا اٹھاو تو اسے پورا کرنے میں جان لڑا دو اور اس کام کے رستے میں آنے والی ہر دلچسپی ہر ترغیب سے بچنے کی کوشش کرتے رہو یعنی اگر پیادہ پا صحرا عبور کرنے کی ٹھانی ہے تو ۔ لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول۔

شاعروں کے یہی تو مزے ہیں کہ اپنی رو میں ایک بات کہ جاتے ہیں اور لوگ باگ ان سے اپنی استعداد کے مطابق معانی اخذ کرتے رہتے ہیں۔بہر حال یہ شعر اور اس پر غور وفکر مجھے سوچنا اور محنت کرنا سکھا گیا۔ اللہ تعالی جزا دے حضرت بابا صاحب کو بھی جنہوں نے یہ شعر کہا اور تایا یوسف کو بھی جنہوں نے مجھے یہ شعر سنایا۔

بعض قارئین کو یہ کرید ہوگی کہ یہ بزرگ جن کو میں تایا یوسف کہتا ہوں، باوجود اس کے کہ میرا ان سے کوئی جسمانی رشتہ نہیں تھا، کون تھے؟ مجھے ایسی کوئی کرید نہیں تھی۔ بس یہ کہ احمدی تھے، عالم آدمی تھے اور میرے دوست ناصر کے ابا تھے میرے لئے کافی تھا۔ سنا تھا کہ ناصر کے کچھ رشتہ دارلاہور میں اور کچھ کوئٹہ میں رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہ سنا نہ جاننے کی خواہش کی۔ پر جب میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں داخل ہوا تو وہاں شیخ نثار سے یاد اللہ ہو گئی کہ میرا کلاس فیلو بھی تھا اور میرے ایک روم میٹ کا جگری دوست بھی تھا۔ جب شییخ کو پتا چلا کہ میں کوٹلی لوہاراں سے ہوں تو اس نے بتایا کی اسکی پھوپھی رہتی ہیں کوٹلی لوہاراں مغربی میں۔ شیخ نثار کے والد کا پرنس ٹرانسپورٹ میں بھی حصہ تھا اور وہ کوئٹہ کے سرکردہ احمدیوں میں شمار ہوتے تھے۔یہ جان کر میرے دل میں تایا یوسف کے لئے جو تکریم تھی اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، شاید اس لئے کہ کوئی گنجائش ہی نہیں تھی کہ مرے دل میں ان کی تکریم پہلے ہی بہت تھی اور وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).