شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی سیاسی جدوجہد


کوئی صحیح مانے یا غلط سمجھے، شیخ محمد عبداللہ ہندوستان کے سیاسی آسمان پر پچاس سال تک چھائے رہے۔ وہ سیاسی سماجی طور ٹکڑوں میں بٹے اور مختلف مذہبی عقیدوں کو ماننے والے جموں کشمیر کے عوام کو بہت وقت تک اپنے ساتھ جوڑے رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس قدوقامت کے سیاسی کھلاڑی میدان میں اپنی کارکردگی کے ان مٹ نشان چھوڑ دیتے ہیں اور تفرق سے بالا تر رہ کر سب کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ ایسے قائدین کی تصویر کو پارٹی، طبقاتی یا مذہبی رنگ میں رنگنا فضول بات بن جاتی ہے۔ کشمیری نیشنلزم کی نشانی اس شخصیت کی یادوں کو،عسکریت اورریشہ دوانیوں کے ماحول میں ،جب کشمیری سماج ناسور کی رفتار سے خانوں میں تقسیم ہورہاہے، تازہ کرنا ضروری بن جاتا ہے۔ ہمسایہ وفاقی ممالک پر بھی لازم بن جاتا ہے کہ وہ سرحدی ریاستوں کے توسط سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں ۔ تلخ تنقید، خاموش ڈپلومیسی، مذاکرات کے باوجود بھی 1953ء سے لے کر اب تک کشمیر کے سیاسی حالات میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں لائی جا سکی ہے۔

میں ابھی تک حیران ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے ادارے کشمیری نیشنلزم کے معمار شیخ محمد عبداللہ کے نام اور کام کو مٹانے کے مشن پر آج تک بھی لگے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں کئی ریاستی اور بیرون ریاستی خضر صورت کرداروں کو رسیلی انداز کی نے نوازی اوربین بجانے کی تربیت دی گئی ہے۔ کنٹرول لائین کے آر پار دونوں اطراف سے کشمیری نیشنلزم اور سیاسی بیداری کی تاریخ کی بے حرمتی کرنے کا 1989ء سے بہت پہلے شروع کیا گیا کام ابھی بھی جاری ہے۔ شیخ صاحب کی قائم کردہ تنظیم، نیشنل کانفرنس پر بہت بڑا احسان ہوتا اگر پارٹی کی سیاسی جدوجہد اور قوت مدافعت کی تاریخ سے جانکاری حاصل کی جاتی۔ ایڈہاک سیاست کے طریقہ کاراپنانے سے پارٹی کو ہوئے زبردست نقصان کی تلافی نہیں کی جا سکتی ہے۔ کبھی یہ جماعت سیاسی مخالفین کیلئے لوہے کے چنے چبانے کے برابر تھی۔ اس کی بنیاد آرام کدہ کے طور پر مراعات سے لطف اندوز ہونے کیلئے نہیں رکھی گئی تھی۔

نیشنل کانفرنس تب عوام کی سانسوں میں بستی تھی۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں شاید ریاست کے سیاسی کھلاڑیوں اور غیر ریاستی کرداروں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہیں ۔ میں اسی وجہ سے ایک مدت سے فراموش کئے گئے تاریخ کے کچھ ایسے اوراق سے اقتباسات قلمبند کرنا چاہتی ہوں، جو کبھی بین الاقوامی برادری کو ہماری طرف متوجہ کر نے کا سبب بن گئے تھے اور دونوں خود پسند ممالک کو سرزنش بھی برداشت کرنا پڑی تھی۔ جنوری 1957ء میں ساڑھے چار سال کی قیدوبند کے بعد شیخ محمد عبداللہ کی رہائی پر کشمیری عوام نے شادیانے بجائے تھے اور اس حوالے سے ٹائمز اخبار نے اپنے 20 جنوری کے شمارے میں لکھا تھا۔ ” شیخ محمد عبداللہ نے اُس دن لمبی کالی اچکن اور سفید پاجامہ پہنا تھا اور کھلی 30 گاڑیوں پر مشتمل کاروان کے آگے آگے کھلی جیپ گاڑی میں استادہ، سڑک کے دونوں اطراف کھڑے عوام کے جذبات کا ہاتھ ہلا ہلا کر جواب دے رہے تھے۔ دارالخلافہ کی جانب روانہ اس کاروان کی گزرگاہ اور آس پاس کے قصبہ جات میں باقی تمام کاروبار تھم گیا تھا۔ سرینگر میں استقبال کرنے کیلئے موجود لوگ احساس مسرت سے جیسے دم بخود ہو گئے تھے۔ شیخ صاحب جوں ہی ایک زیارت گاہ کی بالائی منزل سے دکھائی دئے، وہاں موجود تمام لوگ زمین پر جھک کر جیسے ڈھیر ہو گئے۔ وہ شیخ کیلئے اپنی زندگی نچھاور کرنے کے وعدے اونچی آواز میں زور زور سے دوہرا رہے تھے۔ وزیر اعظم بخشی کہیں اور سے اپنی اس دھمکی کو دوہرا رہا تھا کہ کشمیر کا مستقبل پہلے سے ہی طے ہوا ہے اور اُس کی پولیس بھارتی وفاق کی اس سرحدی ریاست میں نظم و نسق کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کریگی۔ “

ٹایمز آف لندن کے خصوصی نامہ نگار نے 22 اپریل کے شمارے میں لکھا تھا۔ ” شیخ عبداللہ کی قید سے رہائی کے بعد وادی کشمیر میں پہلی دفعہ پہنچنے پر کوئی بھی یہ تاثر قائم کئے بنا نہیں رہ سکتا کہ کشمیری عوام کیلئے اب بھی وہی قابل اعتماد قیادت ہیں۔ پولیس اُن کی اور ان کے ساتھیوں کی کڑی نگرانی کر رہی ہے۔ شیخ کی وہاں موجودگی ہی مقامی سرکار کا آرام حرام بنائے ہوئی ہے۔ سرکار اُس مرتبے کی شخصیت کو تمام وقت کیلئے قیدی نہیں بنا سکتی ہے کیونکہ وہ عوام کیلئے جاذب نظر اور اُن کے محبوب لیڈر ہیں۔ حکومت کو بھی اس طرح کے حالات میں اپنا وجود منوانے میں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے“۔

اگرچہ کشمیر میں تب کی حکومت کے سربراہ بخشی غلام محمد اپنے آقاﺅں کے وفادار تھے اور اُنہوں نے عیارانہ طور دعوی کیا تھا کہ شیخ محمد عبداللہ، اُن کی بیگم اکبر جہاں اور دیگر ساتھیوں کے خلاف کیس بنانے کے لئے اُن کی حکومت کے پاس کافی ثبوت موجود تھا، لیکن ساتھ ہی باور کیا تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں پاکستان اور بھارت مخالف دیگر عناصر کی پروپیگنڈہ مہم کو تقویت ملنے کے مواقعہ بڑھ سکتے ہیں۔ بخشی غلام محمد نے شیخ صاحب پر پاکستان سے مالی امداد حاصل کرنے کا غیر مصدق الزام عائد کرنے کی جسارت کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس رقم کو والنٹیروں کی پرائیویٹ فوج پالنے پر خرچ کیا جاتا ہے۔ بخشی نے اپنے اس شرمناک الزام کی تصیح کی کہ شیخ نقص امن پیدا کرنے کیلئے تشدد بھڑکانے میں لگا تھا۔ اس کے بدلے کہا کہ کشمیر میں امن و امان قائم تھا اور شیخ صاحب کو پھر سے قید کرنے پر وہاں برائے نام بھی احتجاج نہیں ہوا(دی ٹائمز، 6 مئی 1958ء)۔

”ہندوستانی مسلمان“ شیخ محمد عبداللہ کی بد نصیبی کا کیا کہنا کہ اُن کو اپنے عوام کے پیدائشی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کے جرم میں ہندوستان کے اُن ہی حکمرانوں کے احکامات پر قید ہونا پڑا تھا، جو اپنی آزادی کی لڑائی لڑنے کے دوران دنیا بھر سے ہمدردی اور تعریف حاصل کر چکے تھے (ایڈوارڈ آر مورو کا تبصرہ مورخہ یکم مئی 1958ء)۔ شیخ صاحب کی دوبارہ قیدوبند سے خود اُن کیلئے اور اُن کی اہلیہ بیگم عبداللہ کیلئے دنیا بھر کے اُن حصوں میں سیاسی ہمدردی حاصل ہوئی، جہاں سے 1947ء کی ہندوستان کی آزادی کی عظیم جدوجہد کے دوران صدائے باز گشت آئی تھی۔ ایک امریکی تبصرہ نگار نے فخریہ طور کہا تھا۔ ” یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ شیر کشمیر کو طویل تر وقت تک جنگ آزادی لڑنے کے بعد اب آزادی پسند ملک میں دوبارہ قیدی بنایا گیا ہے۔ یہ شیر تھیرو کی روح ہے، جس کا کہنا تھا۔ ” میں ظلم سہنے کیلئے پیدا نہیں ہوا تھا“۔ نارمن کاروین نے کبھی لکھا تھا۔ ” آزادی کو بھلانے کیلئے حاصل نہیں کیا جاتا ہے۔ زمین سے فصل حاصل کرنے کے مطابق آزادی کے فلسفے کو بار بارنکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے“۔ ( مورُو، سی بی ایس ریڈیو نیٹ ورک سے یکم مئی 1958ءکو براڈکاسٹ)۔

کشمیر ہندوستان کے آئین کی تمہید کی صداقت پر شکوک کا سائیہ ڈالے ہوئے ہے۔ دی شکاگو ڈیلی ٹریبون نے شیخ محمد عبداللہ کی گرفتاری پر دیگر بین الاقوامی تبصرہ کاروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی طرح ہی زبردست تنقید کی تھی۔ ”شیخ محمد عبداللہ کی گرفتاری کو نہرو سرکار کے امتناعی نظربندی ایکٹ کے تحت عمل میں لایا گیا ہے۔ حکام اس ایکٹ کو بروئے کار لانے کے نتیجے میں کسی بھی مشکوک شخص کووجہ بتائے بغیر دس سال تک قید میں رکھ سکتے ہیں۔ عبداللہ کشمیریوں کیلئے رائے شماری سے بھی زیادہ زوردار مطالبہ نہ کرکے اپنے آپ کو عوام کی نظروں میں غیر مقبول بنتا جا رہا ہے۔ برٹش سرکار کے دوران عبداللہ کی گرفتاری کا ریکارڈ جواہر لال نہرو کی گرفتاریوں سے کچھ کم نہیں ہے۔ عبداللہ نے نہرو کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم نے وادی کشمیر کو ایک سیاسی قبرستان میں تبدیل کرلیا ہے اور قیدیوں کے ساتھ نازی مشقت کیمپوں جیسا برتاﺅ کیا جا رہا ہے۔ وہ خود حیران ہے،آیا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد نہرو کی حکومت میں ہندوستان واقعی طور آزادی نام کی مالا جپ رہا ہے۔ تبدیلی دکھاوے جیسی لگتی ہے ۔ برطانوی راج کے جانشینوں نے آزادی کے طالب عبداللہ کو شہادت کے قریب کھڑا کردیا ہے(5 مئی 1958ء)َ“۔

ہندوستان کی جمہوریت پر انگلی اُٹھانے کی جرات کرنے والے بچ کر نہیں جا سکتے۔ شیخ محمد عبداللہ کو کشمیر سے متعلق بھارت کی سیاست کے مخالف کروٹ لینے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ شیخ صاحب خود عدم تشدد کے پاسبان رہے تھے، وہ کسی کو کیونکرتشدد پر اُکساتے۔ اُنہوں نے فقط کشمیری عوام کو اپنا حق دلانے کی بات کی تھی اور اُن پر ستم نہیں ڈھائے جانے چاہیں (الزمان، 7مئی، 1958ء)۔

بھارت سرکار نے اُن پر پہلے 1953ء میں اور پھر 1958ء میں وعدہ خلافی کا جو الزام لگایا تھا، شیخ صاحب نے اُس الزام کی پُرزور تردید کی۔ ” میں اپنی پوری قوت سے اس الزام کو رد کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ وعدہ شکنی کا فعل کہیں اور سے کیا گیا ہے۔ عہدوپیمان یکطرفہ نہیں ہوا کرتا ہے۔ مجھ پر عہد توڑنے کا جو الزام لگایا گیا ہے، میرا یہ جاننے کا حق بنتا ہے کہ قبائلی حملہ شروع ہوجانے کے دن سے 1953ء میں میری گرفتاری کے دن تک جموں کشمیر ریاست کو ہندوستانی حکومت کی طرف سے دی گئی یقین دہانیوں اور وعدوں کو نہ عملانے کی ذمہ داری کس کے سر ہے ( عبداللہ، بریچ آف پلج ، 13۔ 23)۔ وہ کشمیر مسلے تنازعے کا حل تلاش کرنے کی کوششوں سے دست بردار نہیں ہوگئے۔ یہ حل کشمیر کی جدوجہد آزادی اور ہندوستانی عوام کی انڈپنڈنس موومنٹ کے عین مطابق ہونا چاہے۔ (عبداللہ، دی کشمیر ویوپوئنٹ۔ 14)۔

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan