بھٹو کا وارث۔۔۔ ایک تنہا آرٹسٹ


بھٹو کا پوتا ہونا کوئی معمولی بات نہیں وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں صرف بھٹو کے نام ہر لوگ جانیں نچھاور کر دیا کرتے ہوں مگر یاد رہے اس ہی سماج نے بھٹو کے بیٹے کی لاش کو سڑک پر گھسیٹا بھی ہے۔۔۔

ذرا سوچیں کہ چھ سال کے بچے نے خون میں لت پت اپنے باپ اور اس کے قریبی دوستوں کی لاشیں دیکھیں تو اس پر کیا گزری ہو گی۔

ممکنہ طور پر تو ایک ہی حل ہے کہ ایسا بچہ جس سماج میں بندوقوں کے سائے تلے پرورش پا رہا ہو وہ جلد یا کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنے باپ چچا کے قاتلوں کے خلاف ایک اور الذوالفقار کی بنیاد رکھے اور ملک میں دہشت گردی کو ہوا دیتا ہوا کسی دن کسی مقابلے میں مار دیا جائے۔

جو کہ اس ملک کے انتہائی پسماندہ صوبے کا ایک قبائلی نظام بھی ہے کہ باپ کے قاتلوں سے حساب چکانا ہے چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔۔۔

مگر بھٹو کے پوتے اور اس کے حقیقی وارث نے ایسا کیا کر دیا جو اس کے خلاف ایک طوفان آن کھڑا ہوا ہے؟

آرٹسٹ کی ایک زندگی ہوتی ہے اور اس زندگی کے ایک نہیں بلکہ کئی ایک رنگ ہوا کرتے ہیں ایسی ہی زندگی آرٹسٹ ذوالفقار جونئیر کی بھی ہے۔۔۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب ہمیں ان علم کے دریاؤں کو بھی سمجھانا پڑے گا کہ ایک آرٹسٹ اپنی زندگی کیسے گزارتا ہے؟

جی ہاں یہ بات درست ہے کہ بھٹو کا پوتا ایک آرٹسٹ ہے وہ آرٹ ہی کو اپنا اوڑھنا اور آرٹ ہی کو اپنا بچھونا سمجھتے ہوئے اپنی بقیہ زندگی کسی انتقامی کارروائی سمیت پاکستانی سیاست سے دور رہ کر گزارنا چاہتا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور؟

سوال بہت اہم ہے کہ یا وہ بندوق اٹھا کر روایتی سیاستدان بن جائے وہ بھی ایک ایسے سماج میں جہاں اس کی مخالف اپنے ہی پھوپھا کی طاقتور ترین حکمران سیاسی جماعت ہو…

وہ کسی صورت بھی ان لوگوں کے خلاف الیکشن نہیں جیت سکتا جو اس وقت اس کے مخالف ہیں اور دوسری جانب وہ جنہیں اپنے دادا کا قاتل سمجھتا ہے ان قاتلوں سے وہ مفاہمت کر کے کبھی سیاست میں آنا نہیں چاہے گا۔

میرے محترم علم کے دریاؤں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کے دو رخ ہیں ایک روایتی سیاست جس کا اس وقت وارث بلاول بھٹو زرداری کو بنایا گیا ہے.

اور ایک بھٹو کا ادبی پہلو ہے جس کی وراثت کی ذمہ داری شاید بہت دکھ درد الم کیساتھ مرتضٰی بھٹو کے خاندان نے اپنے کمزور کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے.

یہی سماجی پہلو ہے جس کی قدر ہم بحیثیت ایک سماج ہرگز نہیں کریں گے کیوں کہ ہمارا نفسیاتی مسئلہ ہے کہ ہمارے منہ کو مزہ لگ چکا ہے بھٹو کی لاشیں دیکھنے کا……

اور اب اتنی لاشیں دیکھنے کے بعد فاطمہ بھٹو اور مرتضٰی بھٹو بہت حساّس طبیعت کے مالک ہیں وہ ذہنی سکون کی تلاش میں کتابیں نہ لکھیں، شاعری نہ کریں، تصویریں نہ بنائیں تو بتائیں، وہ اور کیا کریں….؟

بھٹو کا خاندان اب حساسیت کے اس دو راہے پہ آن کھڑا ہے کہ اسے رونے کے لیے کاندھے بھی میسر نہیں خصوصاً مرتضٰی بھٹو کے خاندان کو۔۔۔

ہمارے لیے سوچنے کی بات ہے کہ ایک زبردست ذہین لڑکا سیاسی انتقام اور دہشت گردی سے دور ایک الگ دو کمروں کے فلیٹ کو مسکن بنائے خاموش ایک آرٹسٹک زندگی گزار رہا ہے اور صرف آرٹ کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے وہ اسٹیج کرتا ہے وہ تھیٹر پرفارم کرتا ہے وہ دکھوں کو کم کرنے کے لیے لوگوں میں تفریح کا سامان مہیا کرتا ہے…

مگر ہم اس کے لیے کیا سوچتے ہیں ؟

یقیناً ہم نفسیات کو سمجھنے سے عاری لوگ ہیں…..

صاحبو یہ بھٹو کا ڈی این اے ہے جو کہ اس حد تک ظرف رکھتا ہے کہ چند گھڑی اپنے جیسے راندہ درگاہ لوگوں کو ہنسا لیتا ہے ورنہ اگر یہی شخص چاہے تو سندھ کے حالات برباد کرنے میں دیر نہ کرے۔

بھٹو کے پوتے سے سیاسی امیدوں سمیت اسے طنز کے نیزوں پر اٹھائے رکھنے والوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کسی بھی سیاسی بکھیڑے، شعبدہ بازی یا نانا، دادا، باپ، پھوپھی کے خون کو کیش کرائے بغیر صرف آرٹ کے سہارے ہی اگر عوام میں شعور بانٹ رہا ہے تو کیا برا کر رہا ہے؟

سچ پوچھیں تو اب ہمیں ایسے ہی شعور کی ضرورت ہے…


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).