آنکھیں بند رکھنا بہت ضروری ہے


وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عیدالفطر کے موقع پر سکیورٹی اداروں کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ خوشی کے اس تہوار پر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ اہل پاکستان کو خوش ہونا چاہئے کہ ان کے وزیر داخلہ ان کی حفاظت کے بارے میں اس قدر فکرمند ہیں۔ اگر وہ یہ ہدایت جاری نہ کرتے تو سوچئے کہ کیا ہوتا۔ ہو سکتا ہے ملک میں سکیورٹی فراہم کرنے والے اداروں کو خبر ہی نہ ہو پاتی کہ عیدالفطر آ گئی ہے، لاکھوں لوگ عید کی نماز ادا کرنے اور خوشیاں منانے کےلئے گھروں سے نکلیں گے۔ اس موقع پر ان کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ حیرت ہے کہ چوہدری نثار علی خان کو یہ خیال جمعتہ الوداع کے موقع پر نہیں آیا کہ وہ حفاظتی انتظامات کرنے والے اداروں کو چوکنا کر دیتے تاکہ کوئٹہ اور پارا چنار میں ہونے والے حملوں کو روکا جا سکتا۔ ان دونوں حملوں میں آخری اطلاعات آنے تک 64 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ درجنوں شدید زخمی حالت میں اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ اپنے چہیتے اور چوکنے وزیر داخلہ سے یہ کہنا تو نامناسب ہوگا کہ وہ کل ہونے والی تباہی اور انسانی جانی نقصان کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں لیکن ان سے یہ درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ مستقبل میں ہر تہوار اور اہم موقع پر بیان جاری کرنا نہ بھولا کریں۔ تا کہ سکیورٹی ادارے چوکس رہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا یہ بیان کسی خود کار کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے اہم مواقع پر جاری کرنے کا اہتمام کرلیں۔ اس طرح انہیں اپنے روزمرہ معمولات میں پریشانی بھی لاحق نہیں ہوگی اور عوام کی حفاظت کا اہتمام بھی ہو سکے گا۔

یوں بھی چوہدری نثار علی خان انسان دوست مگر نازک مزاج آدمی ہیں۔ وہ دہشت گردوں کی بے ادائیوں اور سکیورٹی عملہ کی لاپرواہی پر خود ہی بے چین رہتے ہیں۔ ایسے میں کوئی ناہنجار کسی ناخوشگوار واقعہ پر ان سے جوابدہی کی بات کرنے یا ذمہ داری قبول کرنے کے بارے میں سوال کرے تو ان کا برہم ہونا لازم ہے۔ اس برہمی کی وجہ چوہدری صاحب کی نازک مزاجی کے علاوہ یہ سچ بھی ہے کہ اب وزیر داخلہ تو ہر دہشت گرد حملہ کو تو نہیں روک سکتا۔ وہ بیان دے کر اور پریس کانفرنسوں میں مخالفین کے الزامات رد کرکے اور ان کی کوتاہیوں کی یاد دہانی کروا کے اپنی سی کوشش ہی کر سکتا ہے۔ پورا زمانہ گواہ ہے کہ مقبول وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس کام میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ البتہ کسی معاملہ پر توجہ دلوانے کےلئے ان سے کوئی درخواست گزاری جائے تو وہ اس پر نہایت شفقت سے ہمدردانہ غور ہی نہیں کرتے بلکہ فوری طور پر احکامات جاری کرنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے عید الفطر کے اجتماعات کی حفاظت کےلئے حکم جاری کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری اور عوام دوستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ محبوب وزیر داخلہ کی بلند اقبالی کی دعا کرتے ہوئے ان کی فکر مندی اور مستعدی کی داد دیں اور اگر آئندہ کسی پریشانی کا سامنا ہو تو ٹائر جلانے ، مظاہرے کرنے اور حکومت کو برا بھلا کہنے کی بجائے، اس بات پر غور کریں کہ چوہدری نثار علی خان خود ایسے سانحات سے کتنے دل گرفتہ ہوتے ہیں۔ عوام کا حوصلہ بڑھانے کےلئے وزیر داخلہ سانحہ کے چند روز بعد ہی سہی حاضر ہوتے ہیں، لیکن جب چوہدری نثار پر غم اور سوگ کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو انہیں تو کوئی ڈھارس دینے والا بھی میسر نہیں ہوتا۔ عوام کو حکومت کی کوتاہیوں کے نام پر اشتعال دلانے والے بھی خبردار رہیں کیونکہ چوہدری نثار علی خان کو غصہ آ گیا تو وہ سب کا کچا چٹھا الیکٹرانک میڈیا کے مستعد کیمروں کے سامنے کھول کر رکھ دیں گے۔

دہشت گردی کے زخموں سے چور قوم کو ایک سہارا وزیر داخلہ کے بروقت بیان کا ہے جیسا کہ انہوں نے اب عیدالفطر سے دو روز پہلے سکیورٹی اداروں کو چوکنا کر دیا ہے۔ ان لوگوں کا دوسرا سہارا پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مستعد اور باخبر سربراہ میجر جنرل آصف غفور کا ہے۔ وہ کسی بھی سانحہ کے بعد کوئی وقت ضائع کئے بغیر یہ سراغ لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ کس دہشت گرد حملہ کی منصوبہ بندی سرحد پار کی گئی تھی اور اس مذموم کارروائی کےلئے کہاں سے ہرکارے روانہ کئے گئے تھے اور انہیں یہ حملہ کرنے کےلئے کہاں سے ہدایات دی جا رہی تھیں۔ کوئٹہ اور پارا چنار حملوں کے بعد بھی آئی ایس پی آر نے ان کا سراغ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بیٹھے ہوئے عناصر میں تلاش کیا ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ کوئی فوج یا سکیورٹی و جاسوسی ادارے اپنی سرحدوں میں تو ناپسندیدہ عناصر کا پتہ لگا کر ان کا آپریشن ردالفساد کے ذریعے خاتمہ کر سکتے ہیں لیکن وہ سرحد پار اس قسم کی کارروائی کرکے نہ تو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہمسایہ ملک کو ناراض کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان اداروں کی مستعدی اور ہوشیاری بلکہ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی داد تو بنتی ہے کہ دھماکہ کی دھول بیٹھنے سے پہلے ہی وہ اس کے خفیہ ہاتھوں کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ جو مر گئے، انہیں واپس لانا تو کسی کے بس میں نہیں ہے لیکن مرنے والوں کے ورثا کو یہ معلومات فراہم کر دینا بھی بڑا کام ہے کہ ان کے بیٹوں ، بھائیوں ، باپوں ، چچاؤں اور دیگر عزیزوں کو ہلاک کرنے والے کون لوگ ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ مقتول کے لواحقین کو مارنے والے کا پتہ چل جائے تو دل میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔ آئی ایس پی آر یہ سہولت فراہم کرنے میں تاخیر نہیں کرتی۔ اسی لئے تو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو دنیا میں نمبر ون حیثیت حاصل ہے۔

کچھ بدخواہ ضرور یہ کہیں گے کہ وزیر داخلہ کا بیان دراصل اپنی کوتاہی کا اعتراف اور عوام کو دھوکہ دینے کی نئی کوشش ہے۔ وہ ہر المناک سانحہ کے بعد اسی طرح کی عذر خواہی کرکے سرخرو ہونا چاہتے ہیں لیکن ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کےلئے کوئی موثر کارروائی نہیں کرتے۔ بلکہ بعض انتہا پسند ناقد تو اس حد تک بھی جائیں گے کہ نواز شریف کی حکومت اور ان کے وزیروں کو اس وقت صرف پانامہ کیس میں وزیراعظم کو بچانے کی فکر ہے۔ خاص طور سے وزیر داخلہ پر تو خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ انہی کو ان اداروں کی نگرانی کرنا پڑتی ہے جن پر وزیراعظم کے خلاف ایک خاص ایجنڈے پر کام کرنے والی جے آئی ٹی، انگلیاں اٹھا کر اپنی نااہلی اور ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ لیکن ان عناصر کو یہ سوچ کر وزیر داخلہ کے حوصلہ اور مستعدی کی داد دینی چاہئے کہ وہ اتنی مصروفیت اور سپریم کورٹ کے احکامات کو بجا لانے کی کوششوں میں مصروف ہونے کے باوجود لوگوں کی حفاظت کے فرض سے بے خبر نہیں ہیں۔ لیکن باتیں بنانے والوں کی زبانیں اور بلا جواز اعتراض کرنے والوں کی انگلیاں کون پکڑ سکتا ہے۔

ایسے میں ایک دور کی کوڑی یہ بھی لائی جا سکتی ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے حلیف امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں اس وقت صبح شام پاکستان پر اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان تو اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی کا سراغ افغانستان میں تلاش کرتا ہے لیکن امریکی کانگریس کے بعض پاکستان دشمن ارکان کا کہنا ہے کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان جن دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، انہیں کے اس ساتھ دوستی کی پینگیں بھی بڑھاتا ہے۔ اس لئے اب دو ارکان نے کانگریس میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان سے امریکہ کے حلیف کا درجہ واپس لیا جائے۔ اس حیثیت میں پاکستان کو فوجی امداد کے علاوہ جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی بھی تیز تر عمل کے ذریعے فراہم ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان نے ان امریکی ’’احسانات‘‘ کا بدلہ چکانے اور امریکہ کو محفوظ بنانے کےلئے، اس کی جنگ لڑنے کی بجائے خود اپنے خلاف دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف جنگ کا ڈھونگ رچا کر امریکہ کو دھوکہ دیا ہے۔ یہ امریکہ سے دوستی نہیں، دشمنی ہے۔

یہ باتیں سامنے لانے والے اور انہیں تشویشناک قرار دینے والے یہ جان کر مطمئن ہو سکتے ہیں کہ اول تو ایسی باتیں بنانے والے عادی پاکستان دشمن ہیں اور کانگریس کے ارکان کی اکثریت انہیں منہ نہیں لگاتی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی پاکستان مخالفت کی اصل وجہ پاک فوج کا کردار نہیں بلکہ ان لوگوں کی اسلام اور مسلمان دشنی ہو اور یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ وہ بھارت پر بھاری ایٹم بموں کے ذریعے صرف اہل پاکستان ہی کی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ ایسے میں اسلام دشمنوں کے گھروں میں صف ماتم تو بچھے گی اور وہ پاکستان کو بدنام کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی ہتھکنڈہ تو اختیار کریں گے۔ اس لئے خاطر جمع رکھی جائے کہ اس قسم کی حرکتوں سے نہ پاکستان کی امداد بند کی جا سکتی ہے اور نہ امریکی کانگریس میں کوئی قرارداد منظور کروائی جا سکتی ہے۔ اور یہ سچائی بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کو سپلائی پاکستان کے راستے سے ہی فراہم ہوتی ہے، اس لئے امریکہ پاکستان سے ’’پنگا‘‘ لینے کا حوصلہ نہیں کر سکتا۔ اس سب کے باوجود اگر امریکی کانگریس یا ٹرمپ حکومت پاکستان کے خلاف کوئی اقدام کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو ہمیں ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ۔۔۔۔۔۔ مسلمان کبھی دنیاوی وسائل پر تکیہ نہیں کرتا۔ اس کی امیدوں کا مرکز تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ابھی رمضان المبارک کے دوران جو دعائیں مانگی گئی ہیں وہ سب اللہ کی بارگاہ میں جمع ہیں۔ دشمن نے اس ملک کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا تو اللہ اس پر اپنا عذاب نازل کر دے گا۔

عیدالفطر کی خوشیوں کو گہنانے کےلئے بعض لوگ اہل پاکستان کو یہ یاد دلانے کی کوشش بھی کریں گے کہ جب اہل وطن عید منا رہے ہوں گے تو پاکستان کے دشمن ملک کا متعصب وزیراعظم نریندر مودی امریکہ کے دورے پر ہوگا۔ اس دورے سے پہلے خیر سگالی کا اظہار کرنے کےلئے امریکہ میں ٹرمپ حکومت نے 2 ارب ڈالر مالیت کے 22 گارڈین MQ-9B قسم کے جاسوسی کرنے والے ڈرون بھارت کو فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت اپنی فوج کو جدید اسلحہ سے لیس کرنے کےلئے جو 100 ارب ڈالر صرف کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، امریکہ کا تاجر اور حریص صدر ٹرمپ، نریندر مودی کو شیشے میں اتار کر زیادہ سے زیادہ اسلحہ بھارت کو فروخت کرنے کی کوشش کرے گا۔ تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی خسارہ بھی کم ہو اور بے روزگار امریکیوں کو روزگار بھی میسر آ سکے۔ ایسے ہی ماحول میں ٹرمپ کو رام کرنے کےلئے نریندر مودی بھی انہیں یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ فساد کی اصل جڑ پاکستان ہے۔ وہی دہشت گردوں کا سرپرست ہے۔ بس اس کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی ضرورت ہے۔

عید کے مقدس اور خوشی کے موقع پر اس قسم کی دور کی کوڑی لانے والے پاک فوج کی صلاحیت اور عزم، اہل پاکستان کے حوصلہ اور اللہ کے کرم سے غافل ہوتے ہیں۔ اس لئے پاکستان کے لوگوں کو ان باتوں سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ ایسی باتوں سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آنکھیں اور کان بند رکھے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali