ہم سب مرزا ہیں


منافقت اک مربوط طرز زندگانی ہے۔ اس کا اندازہ مجھے گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے۔ جب کسی روزے دار ٹریفک پولیس سارجنٹ پر سے کوئی حرام کی کمائی پرپڑھا پلا سیاست دان گاڑی گزار لے اور سوشل میڈیا پر بھرپور شور کے باوجود دوبارہ بھی منتخب ہونے کا اہل ترین امیدوار ہو۔

خا لہ سعدیہ ہمارے محلے کی بے حد مذہبی خاتون ہیں ۔ درس بھی دیتی ہیں۔ان سے بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مذہب میں کوئی تخصیص نہیں یعنی کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت ہے تو صرف نیکی کو۔ خالہ آج بھی اپنے گھر میں ان کے حصے کی مزدوری کرنے والی ماسی کو زمین پر بٹھاتی ہیں اور اسے مزدور کی قانونی مروجہ تنخواہ کا ایک چوتھائی حصہ دیتی ہیں۔ اسے تین دن کا بچا سالن بھی لازمی دیتی ہیں کہ کہ رزق ضایع کرنا گناہ کبیرہ ہے۔

اشفاق جی منجھے ہوے سیاستدان ہیں۔ وہ لبرل رجحان رکھنے والی پروگریسو سیاسی جماعت کے سرکردہ لیڈر ہیں۔ ان کی جماعت کے جلسوں میں آج کی ماڈرن عورت کو پیش پیش رکھا جاتا ہے- فارن کوالیفاییڈ اور روشن خیال ہیں ان کے علاقے میں تعلیم کا تناسب کم اور عزت کی خاطر عورت کا قتل بہت عام ہے۔ ہر سال وہ اپنی خاندانی پیری گدی پر بیٹھ کر مریدوں کو درشن دے کر نذرانے لیتے ہیں۔آخر نظام بھی چلانا ہے، پارٹی کو بھی فنڈ چاہیے ہوتا۔

ماجد صاحب کی معاشرے میں بہت عزت ہے۔ ان کے والد حامد صاحب بیوروکریٹ تھے۔اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کرپشن اور ڈوبتے ریاستی اداروں کے سدھار پر بہت لکھا۔ کئی ریاستی اداروں کی ڈوبتی کشتی  سے دوران ملازمت وہ کود چکے تھے۔ بہرحال ماجد صا حب نے بھی مقابلے کا امتحان پاس کیا اب وہ میرٹوکریسی کے چمپئن ہیں، ان کے جیسے اصولوں والے لوگ اب تو خود ان کے نزدیک بھی عنقا ہیں۔ ہر نئے آنے والے افسر کو وہ درس دیتے ہیں کہ عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں، گھاس کھا لینا، حرام نہ کھانا۔ ماجد صاحب کے اہل خانہ نے ان کی نوکری لگ جانے کے بعد سے آج تک کبھی شہر کی ناخالص خوراک نہیں کھائی، نہ ہی کبھی ذاتی گاڑی یا پیٹرول استعمال کیا ہے۔ ماجد صاحب پر اللہ کا بڑا کرم ہے۔

کل ہی کمال بھائی ایک پوش ریستوران میں افطار پر ذکر کر رہے تھے کہ ایدھی سینٹر میں بچوں سے بدسلوکی کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے ، “سنا لوہے کی سلاخوں سے پیٹتے ہیں ، ذرا خوف خدا نہیں”۔ ان کی سات سالہ ملازمہ قریب بیٹھی بچہ کھلا رہی تھی، اسے دو وقت کا کھانا ہی ملتا ہے، ریستورانوں میں ساتھ بٹھا کر کھلانے سے نوکر خراب ہوتے۔ تنخواہ دینی ضروری نہیں، باپ غربت کے خوف سے بچی کو بیچ گیا تھا-ملازمہ سےمچل کر بچہ رونے لگا، کمال انکل نے جوتے سے ٹہوکا دیا، جاہل ذرا عقل نہیں تمہیں۔

سدرہ ایک ڈاکٹر ہے۔ اس کی شادی میڈیکل کے تیسرے سال میں ہی ہو گئی تھی، اس کی ساس ہر کسی کو فخر سے بتاتیں میرے بیٹے کے لیے رشتے بہت تھے مگر ہم نے تو ڈاکٹر لڑکی ہی کرنی تھی- سدرہ کی ایک بیٹی ہے، سدرہ کا شوہر اس کی سب تنخواہ رکھ لیتا، بچی کی ضروریات اس کا ننھیال پوری کرتا۔ بالآخر طلاق ہو گئی۔اب بچی باپ کے پاس ہے، دادی کہتی ہے “زیادہ تعلیم لڑکیوں کا دماغ خراب کر دیتی ہے، اپنی پوتی کی شادی میٹرک کرتے ہی کر دوں گی”۔انھوں نے نئی بہو ڈھونڈھ لی ہے۔ وہ سکول ٹیچر ہے۔

رحمت صا حب کی بیوی مر چکی ہیں، انہوں نے گھر کا بالائی حصہ کراٰۓ پر دے رکھا ہے ، وہاں اجمل اور ان کی بیوی، جوان بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ بیوی کینسر میں مبتلا ہو کر گزر گیں۔ اجمل نے بچوں کے مشورے سے دوبارہ شادی کر لی۔ رحمت صاحب، محلے والوں کے ساتھ مل کر اجمل پر تھو تھو کرتے ہیں،” بچوں کی شادی کی عمر تھی، خود کر لی، ایسی بھی کیا بےچینی تھی”۔ رحمت صا حب کی بیس سالہ ملازمہ پچھلے دنوں بچہ ضایع کراتے ہوۓ مر گئی، اس کی غمزدہ ماں کو پیسے دے کر رحمت صاحب نے راضی کر لیا ہے۔

اوپر ذکر کیے ہوئے لوگ، بڑے ہی کامیاب لوگوں میں سے ہیں، معاشرے میں ان کا نام ہے، مقام ہے۔لوگ ان کی عزت کرتے ہیں، یہ سب منافقت کی کرامات ہیں۔

ہمیں منافقت کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ۔کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ہمارے معاشرے میں بقا کے لیے منافقت بنیادی ضرورت ہے، بنیادی ضرورتوں کے مینار میں سب سے اؤل ضرورت، روٹی، کپڑا، مکان اور واٰئی فائی کے بالکل برابر منافقت۔ کامیاب زندگی گزارنے کا بڑا ہی زبردست کلیہ ہے۔ اپنی ذاتی اور منافقانہ زندگی کو الگ الگ رکھیں- یہ ایک دوست نے سمجھایا جو یقینا کامیاب ہے اور ترقی کے زینوں پر فراٹے بھرتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مروجہ منافقت کی تحقیق کی جائے تو یہ کم از کم مغلوں کے دور تک تو ٹریس ہو جائے گی۔

ابھی پچھلے دنوں راقم کی نظر سے ایک سترھویں صدی کے مغل جوانان کے اطوار کی رہنمائی کے لیے مرتب کردہ کتابچہ ‘مرزا نامہ” گزرا- مرزا ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمارے معاشرتی کامیاب انسان کی جد امجد ہے۔ مرزا نامہ ، مرزا خلیل نے لکھا جو تب کے فارس اور آج کے ایران سے ہندوستان میں لاہور چار سو سال قبل تشریف لائے۔ جیسے چانکیہ نے ہندوستانیوں کو سیاسی گر سکھانے کا بیڑہ اٹھایا ویسے ہی مرزا خلیل نے منافقت کے اصول سکھانے کی بھاری ذمہ داری اپنے فارسی کندھوں پر اٹھا لی۔

 مرزا نامہ کے مطابق ایک مرزا یا کامیاب انسان وہ ہے جو اپنی درست تنخواہ صرف اس انسان ہی کو بتائے جس سے اسےیہ خدشہ نہ ہو کہ وہ اس کی نوکری کی امیدواری کے قابل ہے۔ مرزا کی مقدم ترین قابلیت اس کا لباس اور ظاہری سبھاؤ ہے۔ اندر کیا غلاظت پنپ رہی ہے، وہ معنی نہیں رکھتی۔ سب سے ضروری خوبی جو مرزا اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے وہ ہے درست لوگوں کے ساتھ منافع بخش تعلقات رکھنا۔ مرزا کو چند معاشرتی طور پر قابل قبول آرا رٹ لینی چاہیں اور محافل میں حتی المکان منافقت سے کام لیتے ہوئے وہی دہرانا چاہیے۔

منافقت پر تنقید کرتے کرتےمجھے اچانک ایک پتھر سا آکر لگا ہے۔ممتاز مفتی کی لبیک یاد آ گئی، جب شیطان نے خود پر پتھر اٹھانے والے منافقوں کو رکھ رکھ کر جوابی پتھر مارے۔ تو مرزا کو پتھر کیسے مارے تو، تو خود مرزا ہے۔

قرۃ العین فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

قرۃ العین فاطمہ

قرۃ العین فاطمہ آکسفورڈ سے پبلک پالیسی میں گریجویٹ، سابق ایئر فورس افسراور سول سرونٹ ہیں۔

quratulain-fatima has 16 posts and counting.See all posts by quratulain-fatima