اسلام اور عمران کی محبت میں مبتلا سپر سٹار (2)۔


(پہلا حصہ) کرسٹیانا کو انگلینڈ میں اپنی نئی مذہبی شناخت کے بارے میں ایک مختلف رویہ نظر آیا۔ یورپ میں اسلاموفوبیا کی لہر کے باوجود برطانیہ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ کرسٹیانا کی رائے میں اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ برطانیہ آنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد عام طور پر تعلیمی اور دانشورانہ مقاصد کی تحصیل کے لئے آتی ہے جب کہ جرمنی میں آنے والے تاریخی طور پر مزدوروں کی حیثیت سے آتے رہے ہیں۔

لیکن مسلمان کے طور پر زندگی وہاں بھی آسان نہیں ہے، خاص طور پر ایک مذہب تبدیل کرنے والی شخصیت کے طور پر۔ مسلمانوں میں عام طور پر کمیونٹی کا ایک احساس ہے جو کہ نومسلموں کے لئے ایک عجیب سی تنہائی پیدا کر دیتا ہے۔

’ہم ایک اقلیت کے اندر موجود اقلیت ہیں۔ ہم کہاں عبادت کریں؟ ہم کس مسجد میں جائیں؟ پاکستانی میں، ایرانی میں یا ترک مسجد میں؟‘

ان نسلی گروہوں میں شامل کیے جانے کے احساس کی بجائے یہ نومسلم بسا اوقات یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کو پکا مسلمان قرار نہ دیتے ہوئے ایک طرف دھکیلا جاتا ہے۔ یا پھر مسلمان ان کو تمغوں کی مانند اپنی پارٹیوں اور تقریبات میں پیش کرتے ہیں اور نومسلم کے جذبات کا رتی برابر احساس نہیں کرتے۔ کرسٹیانا نے کہا۔

کرسٹیانا کے لئے اپنے خاندان سے اس طرح قبول نہ کیا جانا اور مسلم کمیونٹی کی طرف سے مسترد کیا جانا ایک بڑی وجہ ہے کہ وہ استقامت سے خود کو ایک نمایاں مسلم ٹی وی میزبان کی حیثیت سے انگلینڈ میں پیش کرتی رہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس طرح وہ اسلام کے بارے میں مغرب کے احساسات کو تبدیل کر پائیں گی۔

وہ مغربی معاشروں میں یک جان ہونے کی کوشش کرنے والے مسلمانوں کو نصیحت کرتی ہیں کہ ’آپ جو بھی کرتے ہیں، اتنے اچھے طریقے سے کرتے رہیں کہ لوگ آپ کو داد دینے پر مجبور ہو جائیں۔ یاد رکھیں کہ آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں، آپ نہ صرف یہ کہ اللہ کے بندے ہیں بلکہ اسلام کے ایک سفیر بھی ہیں‘۔

لیکن کرسٹیانا جانتی ہیں کہ صرف اپنی کمیونٹی کے اندر ہی اپنے طور پر اچھا کام کرنے والے مسلمان ایک خاص حد تک ہی جا سکتے ہیں۔ اس لئے میڈیا کے ایک رکن کے طور پر وہ پوپ کلچر میں مسلمانوں کی ایک زیادہ جاندار اور بہتر نمائندگی کی وکالت کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ان دنوں دہشت گردانہ کارروائیوں کی ایک بے جا حد تک بڑھی ہوئی اور بسا اوقات اسلامو فوبک کوریج کی وجہ سے ’مسلمانوں کو میڈیا کے دوسرے شعبوں میں اس نیوز کوریج کی تلافی کرنی چاہیے، مسلمان تہذیب پر ڈاکیومینٹری بنانی چاہئیں، اور مختلف ڈراموں میں مسلمان کرداروں کو شامل کرنا چاہیے‘۔

اسلام اور مسلمانوں کی اسی درست نمائندگی کی خاطر انہوں نے اپنے عقیدے کے سفر کے متعلق ایک کتاب شائع کی ہے۔ اپنی کتاب ‘ایم ٹی وی سے مکہ تک: کس طرح اسلام نے میری زندگی کو تحریک دی’، میں کرسٹیانا یورپیوں کو یہ دکھانا چاہتی ہیں کہ خبروں میں دکھائی جانے والی دہشت گردی اور جبر و استبداد سے ہٹ کر مسلمانوں کی اکثریت درحقیقت معاشرے کے نارمل، مفید اور کارآمد رکن ہوتی ہے۔

وہ اس حکمت عملی کے نتائج دیکھ رہی ہیں۔ یورپ میں اسلام کے ترجمان کے طور پر وہ جرمنی میں اپنے متعلق رویے کو نمایاں طور پر تبدیل ہوتا پا رہی ہیں۔ کرسٹیانا کہتی ہیں کہ اسلام کا مستقبل ان سے نہِیں بلکہ مسلم نوجوانوں سے وابستہ ہے۔ نوجوان مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دنیا کو سکھائیں کہ اسلام ایک جدید مذہب ہے اور یہ ایک فرسودہ اور مغرب سے غیر مطابقت رکھنے والا مذہب نہیں ہے۔

کرسٹیانا کہتی ہیں کہ ’یورپ میں اسلام کچھ فرسودگی کا شکار ہے۔ یہ اب نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اسلام کے مواخذ کو جانیں۔ مذہب کو تفصیل سے موجودہ اور پرانے علما کی نظر سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد نہ صرف یہ کہ وہ عام معاشرے کو بلکہ اپنے والدین کو بھی سکھائیں۔ کیونکہ میں ہمیشہ یہ سن کا ایک صدمے کا شکار ہوتی ہوں کہ نوجوان مسلمان اپنا عقیدہ کھو رہے ہیں‘۔

کرسٹیانا کہتی ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ دوسروں کو اپنے عقیدے کے بارے میں سمجھایا جائے اور فاصلے گھٹائے جائیں، جیسا کہ عمران خان نے اتنے برس پہلے پاکستان میں ان کے ساتھ رویہ اختیار کیا تھا۔

’دوسرے لوگوں کو دوست بنانا، ان کی طرف ہاتھ بڑھانا، یہ وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے میں مسلمان ہوئی۔ کیونکہ میں جن مسلمانوں سے ملی ان کی سخاوت، دوستی اور اعلی اخلاق سے متاثر ہوئی تھی‘۔

پیدائشی اور نومسلم مغربی مسلمانوں کو وہ نصیحت کرتی ہیں کہ وہ ’بالکل بھی صرف اپنے دائرے تک محدود مت رہیں بلکہ معاشرے کے مرکزی دھارے میں شمولیت اختیار کریں‘۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر مغرب کے پیشہ ورانہ اہلیت رکھنے والے مسلمان اپنے دفتروں میں اچانک اپنی جائے نماز نکال کر ایک طرف ہو کر نماز پڑھتے ہیں یا رمضان میں روزے رکھتے ہیں تو ان کے ساتھی اسلام سے متعارف ہوں گے اور اس طرح وہ اسے ایک بہتر انداز میں سمجھیں گے۔

وہ نصیحت کرتی ہیں کہ ’اسلام کی خوبصورت اقدار اور ہمارے پیارے نبیؐ کی تعلیمات مغرب کے لئے ایک پوشیدہ ترین راز ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ پردہ ہٹا دیں‘۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments