آئل ٹینکرکا حادثہ اور نام نہاد دانشور


اتوار کی صبح جہاں پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں عید کی خوشیاں لے کر آئی۔ وہیں پر میرے وسیب کی ایک پور ی بستی حادثے کاشکار ایک آئل ٹینکرسے سٹرک پر بہنے والے تیل کو جمع کرتے ہوئے آگ کے شعلوں کی نذر ہو گئی ہے۔

جنوبی پنجاب کے علاقے احمدپور شرقیہ کی بستی رمضا ن جوئیہ اور اس کے گردونوا ح کے دیہاتوں کے مکینوں کے لیے قومی شاہراہ پر حادثے کا شکار یہ آئل ٹینکر موت کا فرشتہ ثابت ہوا۔ تیل سے بھرا ٹرک جیسے ہی ان کی بستی کے قریب الٹا، خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے اس بستی کے مکینوں نے اس ضائع ہوتے پٹرول کو کو مال غنیمت سمجھا۔ گھر سے جو بھی برتن ہاتھ آیا مرد خواتین، بچے سب موت کے خطرے کی پروا کیے بغیر اس آئل ٹینکر کی طرف دوڑ پڑے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس ٹینکر کے گرد تقریباَ 300 افراد جمع ہو گئے۔ ایک گھنٹے تک یہ لوگ تیل جمع کرتے رہے لیکن انتظامیہ، پانچ کلومیٹر پر واقع موٹروے پولیس، پٹرولنگ پولیس، ٹریفک پولیس، مقامی تھانے کے پولیس اہلکاروں سمیت کوئی بھی حادثے کی جگہ پر نہ پہنچا، اگر یہ لوگ بروقت وہاں پہنچ جاتے تو لوگوں کو یہاں سے پیچھے دھکیلا جا سکتا تھا۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ اچانک ٹینکر میں آگ بھٹرک اٹھی اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اردگر کھڑے تمام افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق 140افراد زندہ جل کر جاں بحق ہوگئے ہیں اور ا تنی ہی تعداد میں لوگ شدید زخمی حالت میں ہسپتالوں میں ہیں جن میں سے آدھے سے زائد کی حالت تشویشناک ہے جن کا 60 فیصد جسم جھلس چکا ہے۔

اکثر حادثات انسانی غلطیوں سے ہی رونما ہوتے ہیں۔ میں مانتا ہوں میرے وسیب کے یہ محروم لوگ اگر وہاں نہ جاتے تو یہ حادثہ نہ ہوتا لیکن شاید انہیں مجبوریا ں وہاں لے گئی۔ چلیں چند سو روپے کا فائدہ ہی ہو جائے گا لیکن انہیں کیا معلوم یہ تیل تو ایک بہانہ ہے۔ موت کا فرشتہ ان کا منتظر بیٹھا ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ آج پوری کی پوری بستی مکینوں سے خالی ہونے والی ہے۔ گھروں کے گھر ویران ہونے والے ہیں۔ لاشوں کی شناخت کے لیے کس کا ڈی۔این ۔اے کا نمونہ لیا جائے متعدد خاندانوں کا تو کوئی ایک فرد ہی زندہ نہیں بچا۔ ابھی جھلسی ہوئی لاشوں کی شناخت نہیں ہوئی،

میرے ملک کے نام نہاد دانشوروں کو بحث کا موقع مل گیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے وہ تیل چور تھے۔ کوئی کہہ رہا ہے وہ جاہل تھے، ان کو ان کی جہالت لے ڈوبی ہے۔ کچھ کہہ رہے ہیں وہ لالچی تھے، اسی کی سزا انہیں ملی ہے۔ ایک فیس بک دانشور ماہ رمضان میں تیل چوری کی وجہ سے اس حادثے کو خدا کا عذاب قرار دے رہا ہے۔ میرے وسیب پر لگنے والا ہر الزام سر آنکھوں پر۔ ہاں ہم جاہل ہیں لیکن ہمیں تعلیم دینا کس کی ذمہ داری تھی؟ ہاں ہم غریب ہیں، اس لیے لالچی ہیں۔ چند سو روپے کے تیل کی خاطر ہم نے موت کو گلے لگا لیا۔ آخر ہماری اس پسماندگی کی وجہ کون ہے؟ کہاں تھی آپ کی وہ ہائی الرٹ انتظامیہ جو پورے ملک میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے ہائی الرٹ ہے۔ مان لیا یہ تو تیل چور تھے اگر یہ آگ ساتھ گزرتی مسافر بسوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ کتنے لوگ عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ کوئی تو ان سے بھی پوچھے آخر پورے بہاولپور اور گردونواح کے ہسپتالوں میں برن یونٹ کیوں نہیں ہیں؟ پورے جنوبی پنجاب کا اکلوتا ملتان نشترہسپتال کا برن یونٹ بنیادی سہولیات سے کیوں محروم ہے، کیوں پنجاب کا 70 فیصد بجٹ صرف ایک لاہور شہر پر خرچ ہو رہا ہے۔ زندہ جل جانے والے تیل چور تو ہمارے دانشوروں کو نظر آتے ہیں لیکن ملکی خزانے سے اربوں روپے چوری کر کے بیرونِ ملک جائیدادیں بنانے والے وہ حکمران کیوں نظر نہیں آتے جنہوں نے لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کر دیا ہے۔ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے جنوبی پنجاب کو تباہی کے اس دہانے پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).