آئل ٹینکر حادثے کا ذمہ دار کون؟


سارا سال جب گورنمنٹ اپنی احمقانہ پالیسیاں بناتی رہتی ہے تو ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ خواہ وہ غریب کے فائدے کے لئے ہزاروں درخت کاٹ کر بنائی جانے والی میٹرو ہو، جس پر یقینا روز کے بیس روپے دے کر وہ روٹی کی تلاش میں نکلتا ہوگا۔ یا لیپ ٹاپ سکیم میں دیے جانے والے لیپ ٹاپ ہی کیوں نہ ہوں، جو افورڈ ہم کر سکتے ہیں لیکن میرٹ پر ہے تو لینا تو ہے ہی آخر ہمارے ٹیکس کا پیسہ ہے، لیکن آوازنہیں اٹھانی اس بیکار پالیسی اور اس پر ضائع کئے جانے والے پیسے پر، تو کیا ہوا اگر تعلیم یافتہ ہونے کے بعد بھی نوکری نہ ملے تو۔ سولر پینلز لے لیں گے لیکن ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور بجلی نہ بھی ملے تو گزارا تو ہو ہی رہا ہے کیونکہ پاکستان کے حالات ہی ایسے ہیں، اس کا کچھ نہیں بننا کہہ کر پلا جھاڑنا زیادہ آسان ہے ہمارے لئے ۔

بہارلپور کے اس حولناک حادثے میں سو سے زاید لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور لگ بھگ اتنے ہی اپنی جان کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کوئی کرے تو کیا کرے؟ ان افراد کو فوری امداد کے لیے کہاں لے کر جایا جائے؟ جنوبی پنجاب میں نام کے برن یونٹ ہیں جو غالباً ایسے حادثے کو سنبھالنے کے لیے ناکافی ہیں۔ یہ حال پاکستان کے ایک جانے مانے شہر کا ہے جس کو نوابوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اور یہ اپنی ہی مثال خود ہے یا شاید تھا۔ اور یہی حال رہا تو چند سال میں بہارلپور کی خاصیت بھی یہ لال بس بن کر رہ جائے گی۔

موجودہ حکومت سے سوال کا مقصد یہ ہے کہ 9 سال سے مسلسل یہ پنجاب میں حکومت کر رہے ہیں اور پچھلے تیس سال سے ویسے حکومت کا اہم حصہ ہیں۔ لیکن پاکستان کے حالات وہی ہیں جو ہم اپنے بچپن سے سن اور دیکھ رہے ہیں۔ اگر کچھ بدلا ہے تو صرف اس حکومت سے وابستہ لوگوں کے اپنے ذاتی حالات۔ کیوں ہم یہ نہیں سمجھتے اور نہ یہ حکمران کہ وہ بھی اتنے ہی انسان ہیں جتنے کہ ہم سب۔ ان حکمرانوں کی اپنی جان پر بنے تو یہ سب بھاگے ولایت جاتے ہیں علاج کے لئے، خواہ وہ پیٹ کا معمولی سا درد ہی کیوں نہ ہو۔ تب ان سے کوئی کیوں نہیں پوچھتا کہ اسی ولایتی معیار کے ہسپتال یہاں کیوں نہیں بنائے جاتے؟ آخر کن حالات کے باعث یہ طے پایا کہ پاکستانیوں کی جانوں کی قیمت اتنی سی ہی ہے؟ کس کے کہہ دینے سے؟ ہر بار، ہر بار جب بھی ہم درجنوں جانیں کھو بیٹھتے ہیں، درجنوں گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے تب ہی کیوں ہمیں خیال آتا ہے کہ ہمارے لئے، ہم انسانوں کے لئے یہ بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں؟ کیوں حکومت کو احساس نہیں؟ یا ان حکمرانو کے اپنے ان حادثات سے محفوظ ہیں، اس لئے اب تک انہیں ضرورت محسوس نہیں ہوئی؟ یا ہم ہی ہیں کسی حد تک اس سب کے ذمہ دار؟ ذمہ دار کون، ہے جواب؟ آپ، میں، یا ہم سب جو آواز نہیں اٹھاتے؟ یا حقیقت میں ہمارا معیار میٹرو، لیپ ٹاپ، سولر پینلز، بے روزگار سکیم ہی ہے؟ جھلس گیا ہے اس ساری خود غرضی میں پاکستان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).