لبرل آپ کی عید خراب نہیں کرتے


ہاں بھئی مرنے والے لالچی تھے، برے تھے، ہوس میں آ کر تیل اکٹھا کر رہے تھے کہ سگریٹ سلگا لی اور راکھ بن گئے۔ کیا وہ آپ ہم جیسے نہیں تھے؟ کون مفتا چھوڑتا ہے یہاں؟ یہ ہمارا عمومی رویہ ہے۔ ادھر پارا چنار والے ہیں، روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں، دس پیدا ہوتے ہیں تو بیس مر جاتے ہیں، کبھی تو ختم ہو ہی جائیں گے۔ کوئٹہ تو ویسے بھی علاقہ غیر ہے، وہاں کا دھماکہ کتنے لوگوں کو سنائی دیتا ہے یہ بس اب کوئٹے وال لوگوں کے نصیب کی بات ہے۔ سو قسم کے نظریات کی ہانڈی چڑھی ہوئی ہے، کچھ لوگ جلی ہوئی کالی لاشوں کی تصویریں لگا رہے ہیں، کوئی جہالت کی بات کر رہا ہے، کہیں پارا چنار میں مرنے والوں کے نام کی لسٹیں موجود ہیں، کہیں کراچی فائرنگ کی خبریں ہیں لیکن ایک چیز اس سب میں کامن ہے۔

مرنے والا ہمیشہ اللہ دتہ، غلام حسین، شبیر احمد، تازہ خان، مولا بخش قسم کا ہوتا ہے۔ وہ جنہیں زندگی کوئی پہچان نہیں دے پاتی مر کے بھی ڈیڑھ سو دوسرے ناموں کے ساتھ اخبار کے صفحے پر طلوع ہوتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ سارے اللہ دتے ایسے ہی مرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں، سارے غلام حسین انجانی گولیوں کا انتظار کرتے ہیں، سارے شبیر احمد اور تازہ خان چھروں اور بیرنگ والے بم دھماکوں کا رزق بنتے ہیں اور سارے مولا بخش جھولیاں پھیلائے پیٹرول یا لمحاتی خوشیاں لوٹتے ہوئے کٹ جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں، پوچھتا کون ہے۔

ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس موقعے پر پھر سے اپنی دکان داری چمکا رہا ہے۔ ان کو شکایت ہے کہ لبرل ان کی عید خراب کر دیتے ہیں۔ خدا کا خوف کھائیں بابا، کیا لبرل اور کیا لبرلوں کی عید۔ ہمارے بچے اے پی ایس میں گولیوں سے بھن جائیں اور ہم عید منا لیں؟ ہمارے بھائی پارا چنار میں اڑ جائیں، ان کی لاشیں تک ٹکڑوں میں ملیں اور ہم عید منائیں؟ ہمارے کوئٹے میں جواں مرگ پولیس کے تابوت اٹھنا ہوں اور ہم اس صبح عید کریں؟ ادھر احمد پور شرقیہ اور بہاولپور میں اجتماعی جنازے ہوں اور لبرل عید منائیں؟ جائیے بھئی بہت شوق ہے بسم اللہ کیجیے، ضرور منائیے، فیس بک پر بھی سیلیبریٹ کیجیے لیکن جو مرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ رہتے ہیں انہیں ایویں مفت میں نہ رگڑئیے۔ اپنے گھر میں، اپنے بچوں کے ساتھ، جب تک جو بھی محفوظ ہے ضرور عید منائے گا، منانی بھی چاہئیے لیکن ایمانداری سے بتائیے کیا کسی کا ضمیر اس وقت اجازت دے گا کہ وہی ٹائم لائن جس پر سوختہ لاشیں اور گود میں اٹھائے ہوئے زخمی ہیں اسی پر آپ عید مبارک کرتے ہوئے چمک دمک رہے ہوں؟ سرکار اجتماعی بے حسی اس کا نام ہوتا ہے اسے لبرل اور غیر لبرل میں تقسیم مت کیجیے۔ شوق سے عید کیجیے، عید نماز تو ویسے بھی لبرل غیر لبرل سبھی پڑھتے ہیں، بچوں کو عیدی بھی دیتے ہیں اس سے بڑھ کر اگر کچھ کرنا ہے تو فبھا آپ کے رنگ میں کوئی بھنگ نہیں ڈالے گا۔

یہ سب مسلمانوں کے ساتھ مشروط نہیں ہے، یہاں ایسٹر پر بھی یہی سب کچھ ہو چکا ہے، کرسمس کے موقعے پر بھی ہوتا ہے، کئی غیر مسلموں کے تیوہار، اگر آپ کو یاد رہیں، تو ان کے آس پاس کی خبریں یہی منظر دکھائیں گی۔ مان لیجیے کہ دہشت گرد ہماری خوشیوں کے دشمن ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ ہم کوئی بھی تیوہار منائیں، ہاں اگر ہم اجتماعی بے حسی کا شکار ہو جائیں اور ہمارا رویہ “جلنے والے جلا کریں ہم تو عید منائیں گے” قسم کا ہو تو اس میں بھی انہیں کی جیت ہے۔ کل سب نئے کپڑے پہنیں گے، پکوان بنائیں گے، بہت اچھی بات ہے لیکن یار اگر دل میں مرنے والوں کا ذرا سا خیال آ جائے تو اس میں برائی کیا ہے؟ ویسے بھی جو بچ گیا اس کی تو عید ہی عید ہے بلکہ ہر روز روز عید ہے شب شبرات ہے!

نیٹ پر وائرل ہونے والی ایک نظم جو حذیفہ شاکر کے نام سے گردش میں ہے اس کے چند حسب حال اشعار دیکھیے۔

اساں سڑ گئے ہاں تاں کیا تھی گئے؟

اساں ملک تیڈے دے کملے کوجھے

(ہم جل گئے ہیں تو کیا ہوا، ہم تمہارے ملک کے پاگل اور بدصورت لوگ ہیں)

اساں پکھی واس، کُٹانڑے، کمی

ساڈا جیونڑ کیا؟ساڈا مرنڑ کیا؟

(ہم خانہ بردوش ہیں، میلے لوگ ہیں، کمی کمین ہیں، ہمارا جینا اور مر جانا کیا وقعت رکھتا ہے)

کوئ بم دھماکہ مار ڈیوے

کوئ ٹینکر روڈ تے ساڑ سٹے

(کوئی بم دھماکا مار دے یا کوئی ٹینکر سڑک پر جلا جائے)

کوئ چوک، چوراہے، ایم پی اے

ساکوں کار دے ہیٹھ لتاڑ ڈیوے

(کسی چوک پر کوئی ایم پی اے ہمیں گاڑی کے نیچے کچل دے)

کوئ عید، بقر عید، محرم ہے

ہر جشن تے ساڈا ماتم ہے

(عید ہو، بقر عید ہو، محرم ہو، ہمارا ہر جشن ماتم داری میں گزرتا ہے)

اساں لوگ جو جمدوں مرنڑ کیتے

یا خان دی چاکری کرنڑ کیتے

(ہم لوگ مرنے کے لے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں، یا بڑے لوگوں کی نوکری کے لیے)

سرائیکی وسیب ہو یا پاکستان کا دوسرا کوئی بھی علاقہ ہو، برن یونٹ مجموعی طور پر بہت کم ہیں۔ اس صورتحال میں جہاں جلنے والے بے چارے اسی نوے فیصد جل چکے تھے وہاں جتنے بھی برن یونٹ ہوتے کسی کام نہ آتے۔ ہاں زخمیوں کی جان بچائی جا سکتی تھی، کیا خبر کتنے لوگ بچ جاتے۔ یہ موقع ترجیحات پر غور کرنے کا ہے، ہمیں عوامی ٹرانسپورٹ اور سڑکوں میں انقلاب چاہئیے یا ان میں پر سفر کرنے والوں کی زندگیوں میں؟ فروٹ بائیکاٹ والے دوست کوئی اس نوعیت کی مہم چلائیں کہ حکومتیں انہیں کے ٹیکس سے کٹے پیسے کسی بہتر جگہ خرچ کرنے پر غور کریں تو شاید پورا ملک ان کے ساتھ ہو۔ ہسپتال فی الوقت ٹاپ پرائرٹی ہیں، خاص طور پر ایسے ویل ایکوئیپڈ ہسپتال جہاں بڑے پیمانے پر ایمرجینسی سے نمٹنے کی سہولت موجود ہو۔ ہر سو کلومیٹر پر ایک اچھا ہسپتال بن جائے تو کتنا بجٹ چاہئیے ہو گا؟ شاید کئی ایسے پراجیکٹس سے کم جو صرف افتتاحی تصاویر کے لیے شروع ہوتے ہیں۔

پارا چنار اور کوئٹہ والوں کا تو میڈیا بائیکاٹ بھی چلتا ہی رہتا ہے ان کا اللہ وارث ہے۔ کچھ مسئلے کبھی نہ کبھی حل ہونے کے لیے ہوتے ہیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain