طالبان، سعودی عرب، بشار الاسد اور ہماری کنفیوژن


دنیا بھر کے سیاسی اور جہادی معاملات ہمیشہ ہمیں کنفیوز ہی رکھتے ہیں۔ اب بھلا طالبان کو ہی دیکھ لیں۔ اگر غیر ملکی فوج کی ملک میں موجودگی کے خلاف لڑنا درست ہے اور اس بنا پرہمیں  طالبان کی حمایت کرنی چاہیے تو پھر یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ القاعدہ کی بھی تو سعودی عرب سے یہی ناراضگی تھی۔ تو کیا ہم القاعدہ کو اسی اصول کے تحت حق پر مان لیں اور سعودی عرب کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کر دیں؟ مگر سعودی تو اچھے ہیں۔ ہم ان کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے تحفظ کو اپنا تحفظ جانتے ہیں۔ اس لئے یہ اصول رہنے دیتے ہیں۔

لیکن ایک اڑچن اور ہے۔ اب اگر القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان والے یہ دعوی کرتے ہیں کہ سعودی عرب کی طرح پاکستان بھی امریکی کٹھ پتلی ہے اور اس کے خلاف اسی بنیاد پر جنگ جائز ہے جیسے سوویت یونین کی حامی افغان سوشلسٹ حکومت کے خلاف جائز تھی، تو ہم انہیں دہشت گرد مانیں یا ویسے ہی مجاہدین مانیں جیسے افغان سوشلسٹ حکومت کے خلاف لڑنے والوں کو مانتے تھے؟ اب بھی پاکستانی طالبان پاکستان میں وہی تو کرتے ہیں جو افغان طالبان افغانستان میں کرتے ہیں تو کیا ہم دونوں کو ایک ہی جیسا سمجھیں؟ ہم تو اپنی حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہیں کو درست جانتے ہیں۔ تو کیا ہم افغانستان پر بھی یہی اصول لاگو کریں اور افغان حکومت کو حق پر جانیں اور افغان طالبان کو وہی سمجھیں جو پاکستانی طالبان کو سمجھتے ہیں؟ لیکن ہم افغان حکومت کو ٹھیک کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ اس لئے یہ اصول بھی رہنے دیتے ہیں۔

لیکن اب ایک اور الجھن ہے۔ ادھر شام میں بشار الاسد نامی شخص حکمران ہے۔ سنا ہے بہت ظالم ڈکٹیٹر ہے۔ کسی چھوٹی سی اقلیت سے تعلق رکھتا ہے مگر اکثریت پر حاکم ہے۔ اس کے ملک میں چند دوسرے ممالک نے پیسے اور اسلحہ دے کر کچھ لوگ انقلاب لانے بھیج دیے ہیں جو اس کی جگہ درست والے آمر کو حکمران بنائیں گے۔ اتفاق سے ان ملکوں کی حمایت یافتہ ان قوتوں میں القاعدہ اور داعش بھی شامل ہیں جنہیں پاکستان اپنا دشمن قرار دیتا ہے۔ بشار کے جانے پر ان دونوں میں سے ایک شام پر قابض ہو گی اور پھر اس کے وسائل سے پاکستان میں دہشت گردی کرے گی۔ تو ہم اب بشار کی حمایت کریں یا اس کے مخالف شامی جہادیوں کی؟ اب دوسرے ملکوں کے ان پراکسی فوجیوں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کرنے پر بشار الاسد کی اسی اصول پر حمایت کریں جیسے طالبان کی کرتے ہیں یا نہیں؟ لیکن ہم بشار کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لئے یہ اصول بھی رہنے دیتے ہیں۔

بشار کے بارے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وہ ایک غیر جمہوری ڈکٹیٹر ہے جو اپنے خلاف بولنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔ لیکن ڈکٹیٹروں کی مخالفت کے اس اصول کی بنیاد پر بشار کی مخالفت کی تو پھر ہمیں اپنے سعودی، ایرانی، مصری، بحرینی، اماراتی، اور سب سے بڑھ کر قطری برادران کی حکومتوں کی مخالفت بھی کرنی پڑے گی۔ یہ اصول بھی رہنے دیتے ہیں۔

اب ہم مکمل طور پر کنفیوز ہو چکے ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کس کی حمایت کریں اور کس کی مخالفت کریں۔ غیر ملکوں کی حمایت سے اپنی حکومت کے خلاف لڑنے والے حریت پسند دہشت گردوں کی حمایت کریں یا پھر ان ممالک کی حکومتوں کی؟

چلیں ان دوسرے ممالک کو چھوڑیں۔ اپنے ملک کے بارے میں سوچتے ہیں۔

ایک سوال یہ ہے کہ کرپٹ اور نااہل حکمران کو ہٹانے کا کون سا طریقہ بہتر ہوتا ہے؟ پرامن جمہوری جد و جہد مناسب رہتی ہے یا پھر ہتھیار اٹھانا بہتر رہتا ہے۔ لیکن ہتھیار اٹھانے پر ہم افغانستان، شام اور ایران کا حال دیکھ چکے ہیں۔ افغانی بچارے اب تو تقریباً چالیس برس سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بے بسی سے اپنے وطن میں اپنا خون بہتا دیکھ رہے ہیں۔ شامیوں کا بھی یہی حال ہے۔ اپنے عرب برادران کو اپنی ننھی بچیاں بیچنے پر مجبور ہوئے پڑے ہیں۔ کھانے کو ٹکڑا نہیں ملتا۔ اچھے باعزت لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ ادھر لیبیا اور عراق کا حال بھی ایسا سا ہی ہے۔ ایرانی اپنے اسلامی انقلاب کے بعد سے جیسی غلامانہ زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ تو پھر کیا کریں؟ اپنے حکمرانوں کو غنیمت جانیں جو خواہ آصف زرداری یا میاں نواز شریف جیسے ہی ہوں یا پھر ۔۔۔۔

لیکن ایک لحظہ توقف کیجیے۔ جنگ زدہ افغانیوں کو ہم نے پناہ دی تھی۔ شامیوں کو ترکوں اور لبنانیوں نے پناہ دی۔ ہمیں نہ تو بھارت پناہ دے گا، نہ ایران اور نہ افغانستان۔ یقین نہیں آتا تو تحریک ترک موالات کی تاریخ پڑھ لیں کہ ہمارے مہاجرین کے ساتھ افغانوں نے کیا سلوک کیا تھا۔

کیا کرپٹ اور نااہل حکمرانوں سے نجات پانے اور شہری حقوق کے حصول کے لئے پرامن جدوجہد ہی واحد درست راستہ ہے؟ پتہ نہیں۔ ہم کنفیوز ہو چکے ہیں۔ مکمل طور پر کنفیوز۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar