جناب وزیراعظم ! تماشا تو آپ نے خود لگایا ہے


وزیراعظم نواز شریف نے کل سعودی عرب سے لندن پہنچنے پر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے خلاف وہی الزامات عائد کئے ہیں جو ان کے حامی، پارٹی لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرنے والے صحافی اور مبصر گزشتہ کئی ہفتوں سے دہرا رہے ہیں۔ اب جبکہ جے آئی ٹی دو تین ہفتے میں اپنا کام مکمل کرکے سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کرنے والی ہے، نواز شریف کی طرف سے اس کے خلاف جارحانہ انداز یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ جے آئی ٹی ان کے خلاف رپورٹ مرتب کرے گی۔ اب وہ اس ممکنہ منفی تحقیقاتی رپورٹ کا سیاسی طور سے مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا ہے کہ اصل جے آئی ٹی 2018 کے انتخابات میں لگے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’جے آئی ٹی کسی ایک طرف جا رہی ہے اور قوم کسی اور طرف۔ اس کے سامنے ہمارے بدترین دشمنوں کو گواہی کےلئے بلایا گیا ہے‘‘۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ ’’جے آئی ٹی کے ذریعے احتساب کے نام پر تماشا ہو رہا ہے اور ان کے ذاتی کاروبار کو کھنگالا جا رہا ہے‘‘۔ وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی مقرر کردہ جے آئی ٹی پر الزامات لگانے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اصل تماشا انہوں نے خود لگایا ہے۔ مسلمہ جمہوری اور پارلیمانی روایت کے مطابق گزشتہ برس پاناما پیپرز میں اپنے خاندان کے مشکوک وسائل کا حوالے آتے ہی انہیں مستعفی ہو کر خود کو تحقیقات کےلئے پیش کرنا چاہئے تھا۔

نواز شریف یہ حوصلہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کیونکہ سیاست میں 30 برس گزارنے اور اس کے گرم و سرد کا تجربہ کرنے کے باوجود وہ جمہوریت کو صرف اقتدار کا راستہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک جمہوریت عوام کی حکمرانی اور منتخب لوگوں کی جوابدہی اور احتساب کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے بعض لوگ یا خاندان ملک کا اقتدار اچکنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ اس سے دستبردار ہونے کےلئے تیار نہیں ہوتے۔ کیونکہ پاکستان کا جمہوری نظام مضبوط سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر استوار نہیں کیا گیا بلکہ یہ چند افراد یا شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔ اسی لئے اگر کسی سیاسی انتظام میں سے کوئی مرکزی شخص باہر ہو جائے تو اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ اس انتظام پر بھروسہ کرکے پارٹی یا گروہ یا اس شخص کو کامیاب کروانے کےلئے ابن الوقت اور مفاد پرست خاندان، برادری یا گروہ فوری طور پر کسی ایسے شخص کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کریں گے جو ان کے نزدیک ’’جیتنے والا گھوڑا‘‘ ہو، تاکہ وہ بہرصورت اقتدار میں رہیں۔ نواز شریف اس تلخ حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر وہ مالی بدعنوانی کے الزامات میں اپنے خاندان کا نام صاف کروانے کے نقطہ نظر سے مسلمہ جمہوری طریقہ کے مطابق اقتدار سے علیحدہ ہو جاتے ہیں تو فوری طور پر مسلم لیگ (ن) میں توڑ پھوڑ کا آغاز ہو جائے گا۔ یہ تاثر عام ہو جائے گا کہ اب نواز شریف کی چھٹی کروا دی گئی ہے۔ اب ان کے واپس آنے کا کوئی امکان نہیں۔ لہٰذا نام نہاد ’’منتخب ہونے والے‘‘ یعنی ELECTABLES اس پارٹی کی طرف رجوع کرنے لگیں گے جس کے سر پر ان کے خیال میں خفیہ قوتوں کا ہاتھ ہوگا۔ یہی خوف نواز شریف کو استعفیٰ نہ دینے پر مجبور کرتا ہے اور وہ مسلسل دشنام طرازی اور الزامات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنا عہدہ، پارٹی ہی کے کسی دوسرے لیڈر کے حوالے کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔

اس عمل کو اگر وہ احتساب کے نام پر تماشا قرار دیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ سارا فساد خود پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد خود ان کی اختیار کردہ حکمت عملی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ان کے سیاسی دشمنوں نے اس سے صرف فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر نواز شریف اپوزیشن میں ہوتے تو وہ بھی اسی طرح اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف میمو گیٹ کا معاملہ خود نواز شریف ہی سپریم کورٹ میں لے گئے تھے تاکہ آصف علی زرداری کو اقتدار سے محروم کیا جا سکے یا ان کے سیاسی اختیار کو محدود کیا جا سکے۔ آج وہ یہی الزام عمران خان پر عائد کرتے ہیں۔ لیکن وہ جو خفیہ باتیں اشاروں کنایوں میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا صاف سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ عمران خان فوج کے اشارے پر سپریم کورٹ کے ذریعے ان کے خلاف گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے نمائندے اور ہمدرد کئی دوسرے ذرائع سے بھی اس بات کو اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ معاملہ احتساب کا نہیں ہے بلکہ فوج نواز شریف کو علیحدہ کرنا چاہتی ہے حالانکہ وہ عوامی لیڈر ہیں اور 2018 میں ایک بار پھر منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان سازشی تھیوریوں پر یقین کرنے کےلئے ضروری ہے کہ نواز شریف خود یہ اعتراف کریں کہ وہ کس کے اشارے پر یا کسے خوش کرنے کےلئے 2011 میں میمو گیٹ مقدمہ میں فریق بنے تھے۔ اگر یہ سچ سامنے آ سکے تو پھر نواز شریف کے خلاف طاقتور اداروں (جن میں فوج اور سپریم کورٹ کو ملوث کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے) کی سازشوں پر بھی غور ممکن ہے۔

نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کی سنگین بازی کھیل رہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر جے آئی ٹی کو بے توقیر کرنے اور متنازعہ بنانے کےلئے بیان جاری کیا ہے۔ ان سطور میں یہ موقف اختیار کیا جاتا رہا ہے کہ پاناما کیس اپنی ہئیت اور نوعیت کے اعتبار سے ایک سیاسی معاملہ بن چکا ہے اور اس کا فیصلہ عدالتوں کی بجائے عوام کو ہی کرنا چاہئے۔ لیکن اس موقف کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کوئی بدعنوان شخص یا کسی دوسرے جرم میں ملوث کوئی فرد لوگوں کے ووٹ لے کر منتخب ہو جائے اور وزیراعظم یا کسی دوسرے اعلیٰ پبلک عہدہ پر فائز ہو جائے تو اس سے اس جرم کا حساب نہیں لیا جائے گا۔ جرم کی تحقیق کرنے کا کام متعلقہ اداروں اور اس پر سزا دینے یا بری کرنے کا فریضہ ملک کی عدالتوں کو سونپا گیا ہے۔ کوئی شخص خواہ وہ کسی بھی اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز ہو ۔۔۔۔ اس جوابدہی سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ عدالتوں، تحقیقاتی کمیٹی یا اپوزیشن پر الزام تراشی کے ذریعے کوئی شخص خود کو بے گناہ ثابت ثابت نہیں کر سکتا۔ اس کےلئے اسے اپنی پاک دامنی کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ نواز شریف اور ان کے خاندان سے یہی ثبوت مانگ رہی ہے۔ اس میں چیں بچیں ہونے اور سازشیں تلاش کرنے کی بجائے مناسب دستاویزات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ برس اپریل میں پاناما پیپرز کے انکشافات سامنے آنے کے بعد خود ہی یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس ساری دستاویزات موجود ہیں اور وہ اپنی خاندانی دولت کی پائی پائی کا حساب دینے کےلئے تیار ہیں۔ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں۔ چوکس اور باخبر میڈیا اس معاملہ کی پل پل خبر سامنے لا رہا ہے۔ ایسے میں اگر جے آئی ٹی کے بعض ارکان بدنیت بھی ہیں اور ان کے سیاسی مخالفین کے بیان بھی ریکارڈ کئے جا رہے ہیں تو بھی نواز شریف اور ان کے بچے ٹھوس دستاویز سامنے لے آئیں گے تو کوئی جے آئی ٹی یا عدالت انہیں مسترد کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر آپ کروڑوں روپے کی منتقلی کے بارے میں کہیں گے کہ وہ نقد رقم کی صورت میں ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ملک منتقل کی گئی تھی تو جج اور ماہر تحقیقاتی افسر ہی نہیں، عام آدمی بھی یہ سوال ضرور کرے گا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ ہم اس وقت اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ شریف خاندان کے معاملات قرون وسطیٰ کا قصہ نہیں ہیں کہ خاندانی دولت اشرفیوں اور جواہرات کی صورت میں گھوڑوں یا اونٹوں پر لاد کر بیرون ملک منتقل کی جاتی تھی۔

نواز شریف کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ’’احتساب کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے نام پر ان کے ذاتی کاروبار کو کھنگالا جا رہا ہے‘‘۔ کیا بطور چیف ایگزیکٹو نواز شریف یہ بتا سکتے ہیں کہ کیا ریاست کا کوئی شہری یا خاندان اپنے کاروباری معاملات میں اتنا خود مختار ہوتا ہے کہ وہ کسی سرکاری ادارے کو جوابدہ نہ ہو۔ اور اس سے آمدنی اور خسارہ کا حساب پوچھنے والا ’’بدنیت‘‘ کہلائے گا۔ اگر یہ اصول ریاست اور شہریوں کے تعلق کے حوالے سے بنیاد بنا لیا جائے تو ٹیکس اور محاصل کی وصولی کا موجودہ نظام دھڑام سے نیچے آ گرے گا۔ نواز شریف اس معاملہ کو سیاسی طور سے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دراصل بالواسطہ ہی سہی یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کے پاس زیر بحث وسائل کی فراہمی کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ ایک مہذب آدمی کے طور پر انہیں اگر اس بات کا احساس ہے تو انہیں از خود اس سچائی کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہئے۔ اس صورت میں قانون شاید ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت بھی کر سکے۔ بصورت دیگر انہیں اس بحران کی سیاسی قیمت تو ادا کرنا ہی پڑے گی لیکن ذاتی عزت و توقیر بھی داؤ پر لگے گی۔

نواز شریف کی یہ دلیل بھی بے بنیاد ہے کہ انہوں نے جے آئی ٹی میں پیشی کے دوران اس کے ارکان سے دریافت کیا کہ ’’آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیا میرے خلاف کرپشن کا کوئی الزام ہے۔ کیا سرکاری خزانے میں کوئی خرد برد ہوئی ہے‘‘ پھر خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکے۔ نواز شریف کو جان لینا چاہئے کہ اہل پاکستان بھولے ضرور ہیں، بے وقوف نہیں ہیں۔ وہ اپنی مجبوریوں میں بندھے ہونے کی وجہ سے گروہ بندی اور برادری ازم کی وجہ سے خاص سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دینے کی غلطی بھی ضرور کرتے ہیں لیکن برائی کا انتخاب کرتے ہوئے بھی انہیں اصل حقیقت حال کی خبر ہوتی ہے۔ سب یہ جانتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ سوال کرنے نہیں، سوالوں کے جواب دینے کےلئے بلایا جاتا ہے۔ اگر نواز شریف نے سوال کئے بھی ہیں تو جے آئی ٹی کے ارکان جواب ہونے کے باوجود انہیں یہ بتا نہیں سکتے تھے۔ وہ یہ جواب اپنی رپورٹ میں سپریم کورٹ کو پیش کریں گے۔

نواز شریف کی اصل پریشانی یہی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ وہ پاناما کیس ہار رہے ہیں۔ اس پر جھنجھلاہٹ اور جارحیت کا اظہار کرنے کی بجائے، ان سیاسی اور قانونی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے جو نواز شریف اور ان کے خاندان سے گزشتہ ایک برس کے دوران سرزد ہوئی ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali