کیا جرگے یا پنچایت کو قانونی حیثیت مل گئی؟


پارلیمنٹ نے حال ہی میں متبادل تنازعہ جاتی تصفیہ بل دو ہزار سترہ کی منظوری دی جو صدر مملکت کی توثیق کے بعد ایکٹ آف پارلیمنٹ کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ اس اہم قانون پر اپوزیشن کی بعض جماعتوں خصوصا خواتین قانون سازوں کی طرف سے کچھ خدشات اور تحفظات بھی ظاہر کئے گئے تھے کہ اس قانون پر عمل درآمد سے استحصال زدہ طبقات خصوصا خواتین اپنی مرضی سے کسی تنازع کو عدالت میں چیلنج بھی نہیں کر سکیں گی اور ان کی قسمت کے فیصلے جرگہ یا پنچایت کے ذریعے ہوں گے۔ اس قانون کا اطلاق ابتدائی طور پر وفاقی دارالحکومت اور اس کی حدود میں کیا گیا ہے تاہم یہ سفارش کی گئی ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی اسی طرز کی قانون سازی کریں۔

یہاں مجھے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی کچھ عرصہ قبل صوبہ سندھ کے علاقے جیکب آباد میں دو معصوم بچیوں کو ونی کرنے کی خبروں پر از خود نوٹس لینے اور پولیس حکام سے رپورٹ طلب کرنے کا واقعہ یاد آ گیا۔ چار سے آٹھ سال کی عمر کی بچیوں کو ونی کرنے کا فیصلہ مقامی جرگے نے ناجائز تعلقات کے ایک تنازع کا فیصلہ کرتے ہوئے کیا تھا۔ جس غریب ہاری کی بچیوں کو ونی کیا جا رہا تھا اس کا قصور یہ تھا کہ وہ اس مبینہ ملزم کا بھائی تھا جسے جرگے نے مقامی زبان میں سیاہ کاری کے الزام میں کارو قرار دیا تھا۔ عدالت عظمی کے چیف جسٹس کی طرف سے غیر قانونی جرگے کے فیصلے کا نوٹس اس وقت لیا گیا تھا جب صرف سات روزقبل اسی دن ہی قومی اسمبلی نے پنچایت اور جرگے کو تنازعات نمٹانے کا یہ متبادل تصفیہ جاتی نظام قرار دینے کا بل منظور کرتے ہوئے اسے قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔ تنازعات نمٹانے کا یہ بل بذات خود متنازع رہا ہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے اس بل کو منظور کرنے کے خلاف سخت تنقید کی گئی جبکہ کچھ حلقوں نے اسے سینیٹ میں مسترد کرنے کی تجویز بھی پیش کی تھی لیکن سینیٹ نے بھی اسے متفقہ طور پر منظور کردیا۔

بل کی متنازع ہونیکا پس منظر یقیناً پاکستان کے مختلف علاقوں میں رائج پنچایت اور جرگے کا وہ نظام ہے جس نے کارو کاری،ونی یا سوارا جیسی قبیح سزائوں کے ذریعے انسان کے اشرف المخلوقات اور مہذب ہونے پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کئےہیں۔ جب پنچایت اور جرگے کے اس نظام کو قانونی اور آئینی تحفظ دینے کی بات کی جائے گی جس میں کسی ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے کبھی دہکتے انگاروں پر چلنا پڑتا ہے تو کبھی اسے خطاوار نہ ہونے کا یقین دلانے کیلئے دیر تک پانی کے نیچے سانس روکے ڈوبے جیسے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ خطا کار ہونے کی صورت میں کبھی اس کی غلطی کی سزا اس کی بیٹی،بہن یا بیوی کو ونی یا سوارا ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہے تو کبھی کاروکاری کی صورت میں اسے خود زندہ درگور ہونا پڑتا ہے تو یقیناً کوئی بھی ذی شعور اس نظام کی حمایت نہیں کریگا۔ لیکن یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور کردہ آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیشن المعروف اے ڈی آر کے ذریعے کیا معاشرے میں رائج پنچایت اور جرگے کے غیر قانونی نظام کو قانونی حیثیت دی گئی ہے تو اس ضمن میں غلط فہمی اور ابہام پایا جاتا ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔

اس غلط فہمی کے جنم لینے یا ابہام کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی نے جس متبادل تنازعہ جاتی تصفیہ بل دو ہزار سترہ کو منظور کیا اس میں اس متبادل نظام کی جو تعریف کی گئی اس میں لکھا گیا کہ متبادل تنازع جاتی تصفیہ اے ڈی آر سے مراد وہ عمل ہے جس میں فریقین تنازع کے تصفیہ کرنے کے طریقہ کار میں عدالتوں کے علاوہ تجویز کردہ ثالثی، مصالحت کار، غیر جانب دار شخص اور پنچایت یا جرگہ سے رجوع کر سکیں گے۔ بل میں پنچایت کے بعد یا؛ جرگہ؛ کا لفظ بھی اپوزیشن ارکان کی طرف سے پیش کی گئی ترمیم کی روشنی میں شامل کیا گیا اور بل میں شامل پنچایت یا جرگہ کے انہی الفاظ نے سارے تنازع کو جنم دیا کیوں کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ پنچایت اور جرگہ کے موجودہ نظام کو متبادل تصفیہ کا نظام قبول کرتے ہوئے قانونی اور آئینی حیثیت دے دی گئی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس قانون کا اطلاق صرف وفاقی دارالحکومت یعنی اسلام آباد اور اس کی حدود میں کیا گیا ہے۔ متبادل تصفیہ کے اس نظام کی کامیابی کی صورت میں اگر اس کا دائرہ کار ملک کے دیگر حصوں تک بڑھانا مقصود ہوا تو اسی بل کی طرز پر صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کریں گی کیوں کہ دیوانی مقدمات میں قانون سازی کا اختیار انہی کو حاصل ہے۔

اس قانون میں واضح کیا گیا ہے کہ تنازعات کی تئیس دیوانی اقسام میں تصفیہ کے اس متبادل نظام سے استفادہ کیا جا سکے گا۔ ان دیوانی اقسام میں مالک مکان اور کرایہ دار کے درمیان تنازع، شفعہ کے مقدمات، زمین اور جائیداد کے تنازعات،پیشہ وارانہ لا پرواہی سے متعلق تنازعات، تنسیخ نکاح اور نان نفقہ کے خاندانی تنازعات،غیر منقولہ جائیداد کی تقیسم کے ذریعے علیحدہ قبضے، مشترکہ جائیداد کے کھاتوں کی سپردگی، کمپنیات اور بنکنگ کے امور سمیت دیگر تنازعات شامل ہیں۔ متبادل نظام کے ذریعے ایسے فوجداری مقدمات یا تنازعات میں بھی تصفیہ کیا جا سکے گا جو قابل ضمانت ہیں۔ بل کی منظوری کے عمل کے دوران یہ سوالات بھی اٹھائے گئے کہ اے ڈی آر کے عمل میں خواتین کا استحصال ہوگا اور وہ مردوں یا خاندان کے دبائو کی وجہ سے انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں سے رجوع نہیں کر سکیں گی تاہم بل میں یہ واضح طور پر درج کیا گیا ہے اور وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے بھی وضاحت کی تھی کہ عدالتیں اس وقت تک کوئی بھی مقدمہ اے ڈی آر کومنتقل نہیں کریں گی جب تک دونوں فریقین اس پر رضامندی ظاہر نہیں کرتے۔

فی الوقت رائج پنچایت یا جرگے کی ہئیت کے برعکس متبادل تنازع جاتی تصفیہ کے نظام کے تحت حکومت ہائی کورٹ کی مشاورت سے ہر ضلع میں غیر جانب دار افراد پہ مشتمل ایک پینل تشکیل دے گی۔ ان میں وکلا، اعلی اور ماتحت عدلیہ کے ریٹائرڈ جج صاحبان، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، سماجی کارکنان، علماء، ماہر قوانین اور اپنے شعبے کے معروف اور ایماندار افراد شامل ہو سکتے ہیں۔ عدالت کی طرف سے فریقین کی رضامندی کی صورت میں بھیجے گئے کسی بھی مقدمے یا تنازع میں یہ غیر جانب دار افراد ثالثی،مصالحت یا مفاہمت کے ذریعے تصفیہ کرا سکیں گے۔ قانون سازوں کی طرف سے منظور کئے گئے بل میں اگرچہ پنچایت یا جرگہ کے موجودہ نظام کو آئینی تحفظ نہیں دیا گیا لیکن اسی بل کی شق چودہ میں پنچایتی نظام کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ جہاں کسی بھی قانون کے تحت پنچایتی یا جرگہ کا نظام قائم کیا گیا ہو تو یہ اس ایکٹ میں فراہم کئے گئے طریقہ کے مطابق دیوانی تنازعات کے دوستانہ تصفیہ میں آسانی پیدا کرے گا ۔ مزید کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کی شرائط پنچایت کے ذریعے تنازعات کے تصفیے میں مناسب تبدیلیوں کے ساتھ لاگو کی جائیں گی۔ اگرچہ ان دفعات میں پنچایت یا جرگہ کی تشکیل میں قانون کی قدغن کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اسے مزید واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ متبادل تصفیہ کے نظام کے حق میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے،تاخیر سے بچنے اور سستے انصاف کی فراہمی میں مدد ملے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت بھی انیس لاکھ سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں، صرف عدالت عظمیٰ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد اکتیس ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ ملکی عالتوں میں جتنے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں اس سے ڈیڑھ گنا زیادہ سالانہ نئے مقدمات دائر ہو جاتے ہیں۔ نسل در نسل مقدمات کی پیروی ایک تلخ حقیقت ہے جبکہ حال ہی میں قیدیوں کو بعد از مرگ رہائی کے فیصلوں نے بھی انصاف کے نظام میں موجود کمزوریوں کا پردہ چاک کیا ہے لیکن متبادل کے طور پر ملک بھر میں ایسا قانون سوچ بچار کے بعد وضع کیا جائے تاکہ یہ نا ہو کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا، والی صورتحال پیدا ہو جائے۔

بشکریہ: روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).