وزیر اعظم جھوٹ بول رہے ہیں


جے آئی ٹی کا کھیل اپنے عروج پر ہے۔ابتدا میں جسے ایک روایتی انکوائری تصور کیا جا رہا تھا اب اس کے ہاتھوں میں نظام کی لگام آ گئی ہے۔ بساط کے سارے مہرے ایک ہی چال چل رہے ہیں۔ شاہ کو شکست دینا مقصد بن گیا ہے۔ اس مقصد میں گھوڑے، پیادے اور وزیر سب شامل ہو گئے ہیں ۔جے آئی ٹی کی غیر جانبداری روز بہ روزمشکوک ہوتی جا رہی ہے۔ وٹس ایپ کال سے جس بد گمانی کا آغاز ہوا اب اس کے مزید جانبدارانہ پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ خفیہ طاقتیں پھر میدان میں اتر گئی ہیں۔ بہت سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔کچھ اس جے آئی ٹی کوجمہوریت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں اور کچھ اس کے توسط سے سچ کا بول بالا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ابھی تک جو کچھ ہوا ہے اس کو ایک نظر دیکھ کر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
اس جے آئی ٹی کی ساکھ کو پہلی زک اس وقت پہنچی جب وٹس ایپ کال والی خبر منظر عام پر آئی۔ یہ بات درست ہے کہ ممبران کا انتخاب بنچ کا استحقاق ہے۔ اس کیلئے ایک عدالتی خط سے بھی کام لیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کارروائی سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے خفیہ ہتھکنڈے اختیار کئے گئے۔جس نے معاملے کو ابتدا سے ہی مشکوک کر دیا۔
ان ممبران کے انتخاب کیلئے کون ہے جو مثبت اور منفی رپورٹیں دے رہا ہے؟سلیکشن کا معیار کیا ہے؟انتخاب کون کر رہا ہے اور منتخب لوگوں کو کیسے چنا جا رہاہے ؟ اس بارے میں بہت سے سوال اٹھے مگر کوئی بھی جواب دینے سے قاصر ہے۔ یہ سوال بھی اٹھا کہ صرف ایسے لوگوں کا انتخاب کیوں کیا گیا جو پہلے ہی انہی معاملات کی انکوائریوں میں اپنی جانبدارانہ رائے دے چکے ہیں۔ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کے ممبر کی جانبداری انکی اینٹی نواز سوچ سے عیاں ہے مزید براں ان کی اہلیہ پی ٹی آئی کی سرگرم کارکن ہیں اور فیس بک پر اپنے زریں خیالات کاا ظہار بھی کر چکی ہیں۔ایک سوال یہ بھی سامنے آیا کہ جس لہجے میں جے آئی ٹی کے ممبران گواہان سے گفتگو کر رہے ہیں وہ اس جے آئی ٹی کے دائرہ کار میں نہیں ۔ جے آئی ٹی کے ممبران کے پاس صرف ثبوت جمع کرنے کا اختیار ہے لیکن لہجہ مجرمان کی تفتیش کا اختیار کیا جا رہا ہے۔ کسی کی تضحیک کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے لیکن اکثر گواہان کے ساتھ یہی ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ کسی کو ڈرایا دھمکایا گیا کسی کو وعدہ معاف گواہ بننے کی پیش کش کی گئی۔اس پر بھی بات ہوئی کہ جے آئی ٹی کو کیسے پتہ چلا کہ گواہان کی بریفنگ کی جا رہی ہے۔ ان کو وزیر اعظم ہائوس بلا کر سبق پڑھائے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے فون ٹیپ کئے جا رہے ہیں اور انکی نقل حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ جے آئی ٹی کے پاس یہ ذرائع نہیں تو پھر کون ہے جو ان کیلئے یہ غیر قانونی خدمات سر انجام دے رہا ہے؟ ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ جے آئی ٹی کا دھیان پاناما کیس کے ثبوت پر رہنا چاہیے تھا مگر انکا دھیان میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ رہا ہے۔ کون ان کے لئے یہ مانیٹرنگ کر رہا ہے اس کا جواب بھی ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔ دی نیوز کے انویسٹی یگیٹو سیل کی بروزاتوار چھپنے والی خبر نے معاملے کی اصلیت کھول دی ہے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے جو شکایات میڈیا کے حوالے سے سامنے آئیں ان کے مطابق ویسے تو درجنوں صحافیوں کے ایک ایک عمل کی نگرانی کی گئی لیکن شکایات کے پلندے میں (مختلف چینلز کے انتیس ٹاک شوز کی مانیٹرنگ کے بعد ) بائیس صحافیوں، چارسیاستدانوں اور تین قانونی ماہرین کے ایسے تبصروں کا بھی ذکر ہے وہ جی آئی ٹی کے قیام سے بہت پہلے کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان افسران کو جے آئی ٹی میں اپنی شمولیت کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے جے آئی ٹی کے باقاعدہ تشکیل سے پہلے ہی اپنا کام شروع کر دیا اور اس کام میں اتنے بڑے پیمانے پر میڈیا مانیٹرنگ بھی شامل ہے۔ اس انکشاف کے بعد بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ ملک کے عوام کا حق بنتا ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ جے آئی ٹی کا شو کون چلا رہا ہے؟
حسین نواز کی تصویر کس نے لیک کی؟ یہ تصویر کس نے کھینچی ؟ کس کے ذریعے عمارت سے باہر جا کر سوشل میڈیا کی زینت بنی اس بارے میں کوئی جواب نہیں دے سکتا۔سب سے زیادہ حیران کن اور توجہ طلب وہ ناز و انداز اور شرمیلی سی ادائیں ہیں جنکے ذریعے اس مرد مجاہد اور اس کے ادارے کا نام مخفی رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان سوالات کی وجہ سے جے آئی ٹی کی غیر جانبداری واضح طور پر مشکوک ہو چکی ہے۔ اب صاف پتہ چل ر ہا کہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت اس کا قیام عمل میں لایا گیا اور خاص نتائج کے حصول کی توقع کی جا رہی ہے۔
ان سب سوالات میں سب سے دلچسپ سوال تصویر لیک کا ہے۔ ایک ایسی عمارت جہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا ، کسی شخص کو موبائل لے جانے کی اجازت نہیں ہے، داخلے پر تین تین جگہ تلاشی ہوتی ہے۔ کیمرے ہر آنے جانے والے کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں ۔ تصویر لیک کرنے والے کا پتہ لگ جانے کے باوجود اس کے ادارے کے نام کو چھپانا کیا کسی سمت سے پڑنے والے دبائو کو ثابت نہیں کر رہا ہے؟ جناب والا، یہ ثابت کرنے کیلئے کہ یہ سارے کا سارا عمل اب ہائی جیک ہو چکا اور کس کس ثبوت کی ضرورت ہے؟تصویر کے معاملے پر صحافیوں نے شور مچایا۔ اخبارات میں لکھا گیا، ٹی وی پروگرام کئے گئے مگر جواب ندارد ۔ ایک ایسی انکوائری جس میں وزیر اعظم اور انکے خاندان کو مجرموں کی طرح رگیدا جا رہا ہے ، جہاں ماضی کی ایک ایک پائی کا حساب وصول کیا جا رہا ہے، جہاں پورے خاندان کی سرعام پیشی کی جا رہی ہے وہاں اس ایک شخص کے ادارے کا نام کیوں چھپایا جا رہا ہے؟ یہ اطلاع بھی آئی کہ جس شخص نے تصویر اتاری اس کو برخاست کر دیا گیا ہے۔ لیکن کون تھا وہ شخص ؟ کس ادارے سے تعلق رکھتا تھا؟ کس نے اس کو یہ ذمہ داری سونپی تھی؟نام کیا تھا؟ عہدہ کیا تھا ان سب کے جواب نہیں مل سکے۔ کبھی سیکورٹی کا بہانہ بنایا گیا کبھی ادارے کی ساکھ کی آڑ لی گئی لیکن ابھی تک اس شخص کا کوئی اتہ پتہ نہیں معلوم۔ چند دوستوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ اگر اس شخص کا نام پتہ بتانا ناگزیربھی ہوا تو کسی نچلے درجے کے ملازم کا نام سامنے لایا جائے گا اصل مجرم کبھی بھی سامنے نہیں آئے گا۔مجھے نہ اس شخص کے ادارے کا علم ہے نہ رتبے اور رینک کا پتہ ہے لیکن میں بہت خوش ہوں کہ ادارے کس بے مثال جرات سے اپنے لوگوں کا تحفظ کررہے ہیں۔اسے کہتے ہیں ڈسپلن، اسے کہتے ہیں وفاداری ، اسے کہتے ہیں شفاف انصاف۔

اس فخریہ مثال کے بعد ایک نظر عوام کے اداروں پر بھی ڈالنی چاہیے۔ عوام کے ادارے تو قومی اسمبلی ہے، ایوان ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جنہیں ہمیشہ بدنام کیا گیا ، کرپشن کا گڑھ بتایا گیا۔ انکے عہدایدروں کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیر وں اور مشیروں کی ہمیشہ سرعام تذلیل کی گئی۔ جمہوریت کو کرپشن کی جڑ بتایا گیا۔ ہر اسکینڈل کوبڑھا چڑھا کر میڈیا کی زینت بنایا گیا۔ یہ سلسلہ کوئی آج کا نہیں ہے جب سے اس ملک کا قیام عمل میں آیا ہے ہمیں اپنے جمہوری اداروں پر فخر کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ ہر دفعہ جس کو عوام ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں اس پر چور ، ڈاکو اور غدار کے الزامات لگے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ستر سال کی تاریخ میں ایک بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ کسی کو بیچ جلسے کے گولی مار دی گئی ، کسی کو برطرف کر دیا گیا، کسی کو پھانسی لگا دی گئی کسی پر کرپشن کا الزام لگا دیا گیا۔ ہمیں کبھی عوامی نمائندوں پر فخر کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ اس ملک کے عوام کو کچھ سبق حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے ادارے سے سیکھنا چاہئے۔ اپنے منتخب کردہ لوگوں کے تحفظ کا سبق سیکھنا چاہئے۔
میرے کانوں میں جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد وزیر اعظم کی تقریر بار بار گونجتی ہے۔ جب وزیر اعظم بہت رسان سے کہتے ہیں اب کٹھ پتلیوں کا کھیل نہیں چلے گا ، اب تاریخ کا پہیہ واپس نہیں مڑے گا اب جمہوریت کی گاڑی پٹری سے نہیں اترے گی۔ میرا بہت دل چاہتا ہے کہ وزیر اعظم کوبتائوں کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔اس ملک میں کٹھ پتلیوں کا کھیل اب بھی جاری ہے۔ اب بھی انہیں کی حکومت ہے۔اب بھی جمہوریت کی گاڑی جڑواں شہروں کی سڑکوں پر ہچکولے کھا رہی ہے۔ اب بھی تاریخ کا پہیہ غلط سمت میں جا رہا ہے۔ اس لئے کہ جب عوامی نمائندوں کے احتساب کے نام پر نظام کی بساط لپیٹنے کی بات کی جا رہی ہو۔جب پائی پائی کے حساب کا نعرہ لگ رہا ہو۔ جب رسیدیں طلب کی جا رہی ہوں جب تلاشی کا مطالبہ کیا جا رہا ہو ایسے میں سارے ادارے، سارے صحافی ، سارے منصف ایک شخص، صرف ایک شخص ادارے کا نام معلوم کرنے سے قاصر ہوں تو ایسے میں جمہوریت نہیں چلتی۔ ایسے میں ووٹ کی حرمت نہیں ہوتی۔ ایسے میں عوام کی رائے کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ایسے میں جمہوری وزیر اعظم کے مثبت بیانات بس حرف تسلی ہوتے ہیں قوم کا مقدر نہیں بنتے۔

.

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar