خدارا غریبوں کو رسوا نہ کریں


مفہوم حدیث ہے کہ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮ ﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ : ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺳﺎﺕ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮ ﻣﺎﺋﮯ ﮔﺎ ‏اور ان سات اشخاص میں ایکﻭﮦ ﺷﺨﺺ بھی ہو گا ﺟﻮ ﭼﮭﭙﺎ ﮐﺮ ﺻﺪﻗﮧ ﺩﮮ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﻧﮧ ﭼﻠﮯ ﮐﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﺮﭺ ﮐﯿا۔

آج حسب معمول فیسبک کھولی تو ایک اخباری تراشے پر نظر پڑی۔ یہ ایک دس سالہ بچی کا خط تھا جو اس نے خیراتی اداروں کے نام لکھا تھا۔ خط کا عنوان کچھ یوں ہے ”انکل اپنا راشن اور کپڑے واپس لے جائیں“پہلے خط پڑیں پھر اصل مدعا کی طرف آتا ہوں۔

“میرا نام۔ ہے۔ ہم آپ کے دفتر کے پیچھے والی بستی میں رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے آپ ہمارے غریب خانے تشریف لائے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ ہم غریب ہیں یا نہیں۔ تاکہ آپ ہماری مدد کرسکیں۔ کچھ دن بعد آپ پانچ لوگوں کے ہمراہ ہمارے گھر آئے۔ ہمیں راشن دیا۔ امی، میرے اور بھائی کےلئے عید کے جوڑے دیے تصاویر بنوائی اور چلے گئے۔ انکل آپ کو معلوم ہے کہ جب میں چار کی تھی تو میرے بابا اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بابا کےجانے کے بعد دادی نے امی کو مار کر گھر سے نکال دیا۔ ہم دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ کسی رشتہ دار نےہماری مدد نہیں کی۔ ہمارا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ امی لوگوں کے گھروں کے برتن صاف کرتیں جو پیسے ملتے اس سے ہم اپنا پیٹ بھرتے۔ امی کا تو امیر لوگوں کی گالیاں سن کر ہی بھر جاتا تھا جن کے گھروں میں وہ کام کرتی تھیں۔ امی میرے سامنے تو مسکراتی تھی لیکن اپنا غم ہلکا کرنے کےلئے رات کو چھپ کر روتی تھیں۔ کل امی پھر رورہی تھیں۔ وہ چپ ہی نہیں ہو رہی تھیں۔ جب آنکھوں سے آنسو خوش ہو گئے تو وہ سو گئیں۔ میں اٹھکر ان کے پاؤں دبانے لگی تاکہ کچھ آرام ہو جائے۔ پاؤں دباتےدباتے میری نظر امی کے ہاتھوں میں اخبار پر پڑی۔ اخبار میں میری بھائی اور امی کی آپ سے راشن اور کپڑے بطور امداد وصول کرنے والی تصویر تھی۔ میں سمجھ گئی امی کیوں رو رہی ہیں۔ پچھلے سال بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ان تصاویر کی وجہ سے محلے والوں نے ہمارا خوب مذاق اڑایا۔ جب ہم کپڑے پہن کر باہر کھیلنے گئے تو ہمیں بھکاری بھکاری کہہ کر تنگ کیا جا رہا تھا۔ انکل آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے نئے کپڑے اور جوتے واپس لے جائیں۔ امی کے آنسو مجھ سے برداشت نہیں ہوتے۔ ویسے بھی ہم غریبوں کی عید نہیں ہوتی۔ آپ سے ایک اوردرخواست ہے کہ کسی غریب کی مدد کیا کریں تو اس کی تصاویر اخبار میں نہ دیا کریں۔ اس کے بعد اسے جو تکلیف ہوتی ہے اد کا آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کو دولت دی ہے اس میں آپ کا کمال نہیں ہے اور اللہ نے ہمیں غریب بنایا اس میں ہمارا بھی قصور نہیں ہے۔ اللہ سب کو خوش رکھے۔ آمین“

اس میں شک نہیں کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والا ملک ہے۔ لیکن مندرجہ بالا حقیقت جیسی کئی حقیقتیں ہمارے معاشرے کا ایک بھیانک روپ ہیں۔ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺯﺭ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻭ ﺑﯿﺸﯽ ﺍﻭﺭﻣﻌﯿﺸﺖ ﮐﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﻃﮯ ﮐﺮﺩﮦ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﺎﻝ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﺤﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﻨﺎﯾﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﯽ ﺛﻤﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﻭ ﺗﻨﮓ ﺣﺎﻝ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﺼﻠﺤﺖ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﺎﻡ ﮨﺴﺘﯽ ﭼﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﻨﺼﻮﺑﮯ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﭘﺲ ﻣﻨﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺁﻧﺎ ﺍﻭﺭﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﻥ ﭘﺴﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮐﺮﺩﮦ ﻣﺎﻝ ﻭﺯﺭ ﮐﻮ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺮﻭﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﻼﺡ ﻭ ﺑﮩﺒﻮﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﺮﭺ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮐﯽ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻣﺜﺎﻝ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮭﻼﺋﯽ، ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮐﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻓﺮﻭﻍ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﺬﮨﺐ ﮨﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﻓﻄﺮﯼ ﻃﻮﺭﭘﺮ ﺻﺪﻗﮧ ﻭﺧﯿﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺍمداد ﻓﯽ ﺳﺒﯿﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮨﻞ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺍﻭﺭ ﻻﺯﻣﯽ ﺻﻔﺖ ﮨﮯ۔

ﭘﺮﺍﻧﮯ ﻟﻮﮒ ﺩﺭﯾﺎؤﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﮑﯽ ﮈﺍﻝ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ لیکن ﮨﻤﺎﺭﮮ سیلفی ﺩﻭﺭ ﮐﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﺮﮐﮯ چینخ چینخ کر دوسروں کو بتا کر فخر محسوس کرتا ہے کہ دیکھو میں نے نیکی کی ہے۔ لوگوں کو اپنی نیکی دکھانے کےلئے سیلفی نے ہمارا کام مزید آسان کر دیا ہے۔

یہ ﮐﯿﺎ ہو ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ؟ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺱ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﮐﺎ ﻣﺤﺮﮎ ﺍﻭﺭﻣﻘﺼﺪ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﭙﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﯾﮩﯽ ﻧﯿﺎ ﻓﯿﺸﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﺪﮨﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ۔ ﻧﯿﮑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﮩﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﺎﻡ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﺋﺞ ﺍﯾﮏ ﻧﺎﻣﺴﻌﻮﺩ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ میں ﺂﮔﺎﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﻻﻧﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﺒﻮﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﮐﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ، ﯾﺘﯿﻤﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﺍؤﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻨﮭﮯ ﻣﻨﮯ ﺍﺳﮑﻮﻟﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﮐﻮﺳﻮشل ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﺴﮏ ﺳﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺪﺍﺩﯼ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﻣﮩﻤﺎﻧﺎﻥ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﻣﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻮﭦ ﺑﮑﺲ، ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ، ﯾﻮﻧﯿﻔﺎﺭﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﯿﻤﺮﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﯾﺘﯿﻢ ﺑﭽﯿﻮﮞ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﻣﻔﻠﺲ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ، ﮐﻤﺰﻭﺭ ﻭ ﻧﺤﯿﻒ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮﺳﻼﺋﯽ ﮐﯽ مشینیں، ﺭﺍﺷﻦ، ﺭﻣﻀﺎﻥ ﮐﭧ، ﻋﯿﺪ ﮐﭧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺍﺭﺑﺎﺏ ﻗﻮﻡ ﺍﻭﺭ ﻋﻄﯿﮧ ﺩﮨﻨﺪﮔﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺣﺪ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻔﺖ ﺧﺘﻨﮧ ﮐﯿﻤﭗ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮐﺮﮐﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﻄﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺻﺪﻗﺎﺕ ﻭ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻭ ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﮯ ﻧﯿﮏ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺸﮩﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺑﮭﻮﻧﮉﮮ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﭘﺮﮨﺮ ﻏﯿﺮﺕ ﻣﻨﺪ کا ﺩﻝ ﮐﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ ‏

ﯾﮧ ﻣﺴﺘﺤﻘﯿﻦ ﮐﯽ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﺫﺭﺍ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﻮﭼﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﮐﻮ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﮐﺘﻨﮯ ﮨﯽ ﮔﺮﻭﭘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻭﭖ ﺩﺭ ﮔﺮﻭﭖ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺭﻭﺍﮞ ﺩﻭﺍﮞ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﺤﺮﻭﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻧﻔﺲ ﮐﻮ ﮐﺘﻨﯽ ﭨﮭﯿﺲ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻏﺮﺑﺖ ﻭ ﺍﻓﻼﺱ ﮐﯽ ﺗﺸﮩﯿﺮ ﺍﻥ ﺗﺼﻮﯾﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺟﺎﻧﮯ کی ﺧﺒﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﯾﮧ ﺟﻮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﭽﮯ ﺁﺝ ﮐﯿﻤﺮﮮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﺨﻮﺷﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﻮﺯ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ہیں اور ﭘﻮﺯ ﺩﯾﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﮐﺴﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺳﮑﻮﻟﯽ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﺗﻮ ﺍﻥ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻧﻔﺲ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﯽ ﭨﮭﯿﺲ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ؟ ﭘﮭﺮ ﮐﻞ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﻥ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﺍﻭﺭﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻓﻀﻞ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﺎﻣﻞ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﺍﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ، ﺗﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﺎﺳﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮﺍﻧﮩﯿﮟ ﺫﻟﯿﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﮈﺍﻟﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ ؟

ﺳﭻ ﮐﮩﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻏﺮیب ﺍﻭﺭ مفلس ﮐﺎ ﺍﺳﺘﺤﺼﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮨﯽ، ﺳﺨﺎﻭﺕ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺎﺿﯽ ﮐﮯ ﭘﺮﭼﻢ ﻟﮩﺮﺍﻧﮯ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ خدارا غریبوں، مسکینوں اور لاچاروں کی آرزووں پر دھماچوکڑی مچانے کے بجائے ان کی دلجوئی کریں ان کی اشک شوئی کریں۔ ان کی عزت نفس کا جنازہ نکال کر اپنی فیاضی کے علم بلند کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ بیان کی گئی حدیث مبارکہ کے موافق چپکے سے ان کا مدد کریں۔ تاکہ آپ کا دیا ہوا ان کےلئے زحمت کے بجائے نعمت کے باعث بنے اور آپ کے لئے بھی دنیا اور آخرت کی بھلائی کی راہیں کھولنے میں ممد ثابت ہو سکے۔
اللہ پاک ہم سب کو آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).