دہشت گردی سے پاک ریاست کی کہانی


میں آج کل ایک ناول لکھ رہا ہوں۔ سنا ہے کہ جب تک کوئی لکھنے والا ناول نہ لکھے، اسے ادیب تسلیم نہیں کیا جاتا۔ مجھے خود کو ادیب تسلیم کروانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ لیکن میرے پاس ایک ناول کی کہانی ہے۔ اگر میں وہ ناول نہیں لکھوں گا تو کوئی اور بھی نہیں لکھے گا۔ یہ الہام نہیں ہے کہ مجھ پر نہ اترا تو کسی اور پر اتر جائے گا۔ یہ کوئی دریافت نہیں ہے کہ میں نہ کرسکا تو کوئی اور کردے گا۔ یہ ناول میں ہی لکھ سکتا ہوں اور مجھے ہی لکھنا پڑے گا۔

یہ ناول بھوٹان کے بارے میں ہے۔ اس میں بائیسویں صدی کا بھوٹان دکھایا گیا ہے۔ اس وقت تک بھوٹان میں بادشاہت ختم ہوچکی ہے اور حقیقی جمہوریت قائم ہوچکی ہے۔ چونکہ یہاں حقیقی جمہوریت ہے اس لیے یہ مثالی ریاست بن چکی ہے۔

ریاست بھوٹان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھری ہوئی ہے اور اس کی ایک سرحد بھارت سے ملتی ہے، اس لیے اس کے ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ فوجی تربیت حاصل کرے۔ جو شہری یہ تربیت حاصل کرلیتا ہے، اسے بریگیڈیئر کا عہدہ دے دیا جاتا ہے۔ جو شہری زیادہ عمر یا بیماری یا معذوری کی وجہ یہ تربیت حاصل نہیں کرتا، اسے اعزازی بریگیڈیئر قرار دیا جاتا ہے۔

بریگیڈیئر ترقی کرکے میجر جنرل بنتا ہے، پھر لیفٹیننٹ جنرل، پھر جنرل، پھر سینئر جنرل، پھر ایگزیکٹو جنرل، پھر سینئر ایگزیکٹو جنرل۔ بھوٹان میں اعزازی بریگیڈیئر بھی ترقی کرتا ہے۔ وہ ترقی کرکے اعزازی میجر جنرل بنتا ہے، پھر اعزازی لیفٹیننٹ جنرل، پھر اعزازی جنرل، پھر اعزازی سینئر جنرل، پھر اعزازی ایگزیکٹو جنرل، پھر اعزازی سینئر ایگزیکٹو جنرل۔

بائیسویں صدی کے بھوٹان میں سب برابر کے شہری ہیں اس لیے سب کو پرکشش تنخواہ ملتی ہے، رہنے کے لیے مکان بھی، گاڑی اور پیٹرول بھی، مفت بجلی، پانی، گیس اور وائی فائی کی سہولت بھی، اعلیٰ تعلیم اور بہتر علاج بھی، سال میں ایک ماہ کی چھٹی اور بیرون ملک سفر کے اخراجات بھی۔

ہماری اس ترقی یافتہ ریاست میں سب جرنیلوں کو تنخواہ سے زیادہ پنشن دی جاتی ہے۔ یہ پنشن اتنی زیادہ ہے کہ کسی ریٹائرڈ شخص کو مستقبل کے بارے میں پریشان نہیں ہونا پڑتا۔ جب کسی ریٹائرڈ شخص کو نیپال یا صومالیہ یا پپوا نیو گنی سے ملازمت کی پیشکش آتی ہے تو وہ انکار کردیتا ہے۔ نہ کوئی شخص بیرون ملک ملازمت تلاش کرتا ہے اور نہ اس کی وجہ سے بھوٹان کی خارجہ پالیسی مشکل میں پڑتی ہے۔

ناول کی ریاست میں موثر عدالتی نظام قائم ہے۔ ماتحت عدلیہ کے جج بریگیڈیئر ہیں، ہائیکورٹ کے جج میجر جنرل، سپریم کورٹ کے جج لیفٹیننٹ جنرل۔ چیف جسٹس آف بھوٹان کا عہدہ فور اسٹار جنرل والا ہے۔ وہ خود جنرل ہیں اس لیے کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔ جب ان کے پاس کسی کا مقدمہ آتا ہے تو خود ہی جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں۔

جب آزاد اور خود مختار جے آئی ٹی کسی ملزم کے خلاف تحقیقات مکمل کرلیتی ہے تو جنرل جج فیصلہ سناتے ہیں۔ وہ ہر مجرم کو سخت ناپسندیدگی کی سزا سناتے ہیں۔ کئی مجرم یہ سزا سنتے ہی شرم سے پانی پانی ہوجاتے ہیں۔

اس مثالی ریاست میں چونکہ حقیقی جمہوریت ہے اس لیے وہاں کئی سیاسی جماعتیں قائم ہیں۔ ان جماعتوں کے کارکن اعزازی بریگیڈیئر ہیں، صوبائی عہدے دار اعزازی میجر جنرل ہیں، وفاقی عہدے دار اعزازی لیفٹیننٹ جنرل ہے، ترجمان کا درجہ چیف آف اسٹاف کا ہے، چیئرمین اعزازی فور اسٹار جنرل ہیں۔

ہماری ممدوح ریاست میں اتفاق سے کوئی اخبار نہیں چھپتا۔ اخبار نہیں چھپتا تو نہ کوئی لیک ہوتی ہے اور نہ کوئی ردی ہوتی ہے۔ ردی والوں سے بھی جان چھوٹی رہتی ہے اور قومی سلامتی کے دشمنوں سے بھی۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ بھی نہیں بنانا پڑتی۔

بائیسویں صدی کے بھوٹان میں کوئی ایف ایم ریڈیو چینل نہیں ہے۔ ایف ایم چینل نہیں تو مخرب اخلاق بھارتی گانے کوئی نہیں سنتا۔ البتہ ایک سرکاری ریڈیو چینل ہے جس پر ملی نغمے نشر کیے جاتے ہیں۔ ایک سرکاری ٹی وی بھی ہے جس پر کپاس کی فصل سے سنڈی کو ختم کرنے کے جدید طریقوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں نہ کوئی کپاس کی فصل ہے اور نہ کوئی سنڈی۔

ایک اہم بات کہ چین کی اس پڑوسی ریاست میں کوئی حساس ادارے نہیں ہیں۔ جب حساس ادارے نہیں ہیں تو ان کے حساس عہدے دار بھی نہیں ہیں۔ حساس ادارے نہیں ہیں تو کالعدم تنظیمیں بھی نہیں ہیں۔ کالعدم تنظیمیں نہیں ہیں تو دہشت گردی بھی نہیں ہے۔

ناول کا آغاز اس مفروضے سے ہوتا ہے کہ تازہ مردم شماری کے مطابق بھوٹان کی آبادی دس لاکھ ہے لیکن اس میں سے ایک شخص، جی ہاں، صرف ایک شخص لاپتا ہوجاتا ہے۔ ریاست میں ہاہاکار مچ جاتی ہے، گلی گلی شور ہوتا ہے، بات اسمبلی اور عدالت تک پہنچ جاتی ہے۔ ناول کے شروع سے آخر تک سارے کردار اس ایک شخص کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔

ناول کے آخری صفحے پر پتا چلتا ہے کہ ریاست بھوٹان کا کوئی شہری لاپتا نہیں ہے بلکہ ناول نگار لاپتا ہوگیا ہے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi