بھٹو اور گھوڑے کو چینی


ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں سرکاری ڈپو کھلے تھے جہاں راشن کارڈ دکھا کر چینی ملا کرتی تھی۔

ظاہر ہے اس نظام میں بہت بدعنوانیاں تھیں لیکن ان ڈپوؤں پر غریب لوگوں کو بازار کے مقابلے میں بہت سستی چینی ملا کرتی تھی۔ مسجدوں پر اعلان ہوتا کہ ڈپو پر چینی آگئی ہے، راشن کارڈ ہولڈروں کی لائن لگتی اور لوگ اپنے خاندان کے افراد کے حساب سے چینی لے کر گھروں کو جاتے۔ اگر آج کے حالات دیکھے جائیں تو سستی چینی ملنا عیاشی لگتا ہے لیکن بھٹو خود عیاش آدمی تھا، اس نے چند سالوں تک غریبوں کو بھی عیاشی کروائی۔

ایک دن میں نے اپنے ایک رشتہ دار کے چینی ڈپو پر لوگوں کے راشن کارڈ چیک کرتے گزارا۔ راشن کارڈ چیک کرنا شاید اتنا بچگانہ کام تھا کہ انہوں نے پانچویں جماعت کے بچے کو بٹھا دیا (اگر آج یہ کام کرنا ہوتا تو ذمہ داری ظاہر ہے کسی ریٹائرڈ جنرل کو دی جاتی۔) وجہ صرف یہ تھی کہ اوپر سے حکم تھا کہ چینی سب کو دو۔

تولنے والا ظاہر ہے، ڈنڈی مار رہا تھا۔ اپنی جاننے والیوں کو مٹھی بھر زیادہ بھی دے رہا تھا لیکن لائن میں لگا آخری آدمی جب تک چینی نہ لے لیتا، ڈپو کھلا رکھنے کا حکم تھا۔

صرف دھوتی پہنے ہوئے ایک آدمی نے راشن کارڈ مجھے تھمایا۔ اس پر نام لکھا تھا گھوڑا ولدیت نامعلوم۔

میں نے تولنے والے منشی کی طرف دیکھا۔ ’یہ کیسا نام ہے؟‘ منشی جو پورے گاؤں کو جانتا تھا، بولا ’باپ ہی کا پتہ نہیں ہے تو نام کون رکھتا۔ بچپن میں تیز بھاگتا تھا، لوگوں نے گھوڑا کہنا شروع کردیا۔ لیکن ہمیں نام سے کیا کام، چینی دو باقی لوگ انتظار کررہے ہیں‘۔ گھوڑے نے چینی لی، سلام کیا اور چلا گیا۔

لاہور کے بم دھماکے میں، میں نے مال روڈ پر مرے ہوئے گھوڑے کی تصویر دیکھی تو مجھے نجانے کیوں بچپن کا وہ گھوڑا یاد آگیا۔

2008-01-24


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).