آج کی پھیکی عیدیں


 نجانے کیوں آج کل جب بھی قلم اٹھاتا ہوں۔ تو پرانے لوگ اور پرانے زمانے کی باتیں یاد آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اب ہم اتنے بڑے بھی نہیں ہوئے ہیں یہی 1980کی دہائی کے پیدوار ہیں۔ مگر آج جب دونوں ادوار کا تقابلی جائزہ لیتاہوں تو بہت کچھ بدلا سا لگتا ہے۔ اب رمضان المبارک کے مہینے کو ہی لے لیں۔ جوں ہی ماہ رمضان شروع ہوتا، کوشش شروع ہوجاتی کہ عید پر دوستوں کو کارڈز بجھوائیں۔ والد محترم چونکہ شاپ کے لئے عید کارڈز لاتے تو ہم رمضان المبارک کے مہینے میں عید کارڈز کی چوری کرتے۔ اور دل کو تسلی دیتے کہ اپنی دکان سے چوری چوری کہاں ہوتی ہے۔ تو کچھ بہترین سے کارڈ اُڑا لیتے تھے۔ اور باقی فلمی ستارو ں کے کارڈز دوستوں کو پارسل کردیتے تھے، جو اچھے کارڈز ہوتے وہ اخبار کے چلڈرن صفحات کے انچارج صاحبان یا دل کے بہت نزدیک لوگوں کو بجھواتے۔ جس دوست کو تنگ کرنا ہوتا تو اسے کوئی مزاحیہ سا مثلاً بندر یا گدھے والا کارڈ دیا جاتا۔ استادوں کو عموماً اسلامی کیلی گرافی یا حرمین شریفین کی تصویر والا کارڈ دیتے اور اس پر شعر لکھتے ہوئے احترام کا خاص خیال رکھتے۔ چچا، ماموں اور کئی رشتہ دار بیرونِ ممالک سے کارڈ بھیجا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم انہیں بھیجتے۔ ٹیکنالوجی اتنی تیز نہیں تھی، موبائیل کمپنیوں کا تصور نہیں ہوتا تھا، پھر ای کارڈز کا زمانہ آیا اور فاروڈ ایس ایم ایس کے ذریعے عید کی مبارکباد دینے کا ابھی رواج پروان چڑھا عید کارڈز پر عجیب وغریب شعر اور باتیں لکھ کر دوستوں کو دینے کا زمانہ چلا گیا۔ مگر الیکٹرونک کارڈ یا مبارکباد میں وہ مزا نہیں جو تب کے ”پرنٹڈ کارڈز“ میں ہوا کرتا تھا یا شاید ہم بڑے ہو چکے ہیں۔ کیا خوب زمانہ ہوتا تھا۔

آج کل تو فارورڈ ایس ایم ایس سے بھی بات آگے نکل گئی ہے، چاند رات سے پہلے ہی فیس بک پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کردیا۔ اب کسی نے لائک دیا، کمنٹس میں عید مبارک کہہ دیا تو اس کی وال پر جاکر لائک اور کمنٹس دے ڈالے۔ اگراس نے مبارکباد نہیں دی تو جواباً اسے بھی نظر انداز کرنا ہوتا۔ بلکہ اب تو عید کے دن میسج آجاتا ہے اور پھر اس دوست کا نمبر سیو کردیا جاتا ہے، جس سے پھر دوسرے عید پر ہی میسیج آتا ہے یہ صرف لڑکوں کا نہیں لڑکیوں کا بھی حال ہے۔ نہیں بدلا ہے تو صرف لڑکیوں کا میک اپ اور کپڑوں کا انتظام۔ چاند رات سے پہلے لڑکیاں اچھی سے اچھی مہندی کا انتظام کر رکھتیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی مہندی لگاتیں اور ساری رات اسے سکھاتیں۔ دوسرے دن ایک دوسرے کو دکھاتی پھرتیں کہ دیکھو میری مہندی کا رنگ گاڑھا ہے۔ اور آج بھی ویسا ہے۔ وہی مہندی ہے اور وہی طریقے ہیں۔ لڑکوں کے طریقے بدل گئے ہیں، موٹر سائیکلوں پر مٹر گشتیاں شروع ہوئیں ہیں جس سے آئے روزحادثات رونما ہورہے ہیں، ہوائی فائرنگ تب بھی ہوتی تھی، مگر اس میں پاگل پن کا عنصر نہیں ہوتا تھا۔ ایک ہی عید اور ایک ہی دن رمضان کے روزے رکھے جاتے تھے، نہ کوئی مفتی منیب تھا اور نہ ہی کوئی پوپلزئی ہوا کرتا تھا۔ علاقے کا مولانا ہی فیصلہ کیا کرتا تھا۔ کہ روزہ ہے اور عید ہے۔

رمضان کا چاند نظر آتے ہی آب و ہوا تبدیل ہو جاتی۔ ایک عجیب سا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ خوشی کی نامعلوم سی لہر ہر ایک میں دوڑتی۔ سکون کی فضا چھا جاتی۔ شیطان قید ہو جاتا اور اس کے چیلے منہ چھپاتے پھرتے۔ ویسے بھی تب ان کی تعداد آج سے کافی کم تھی۔ اوپر سے چیلے آج جیسے نہیں تھے بلکہ ان میں کچھ شرم و حیا بھی ہوتی تھی۔ بے غیرتی کے کچھ اصول وہ بھی رکھتے تھے۔ اکثر چیلے کہتے: ٹھیک ہے کہ روزہ نہیں رکھا لیکن احترامِ رمضان بھی کوئی چیز ہے۔ چیلے اپنی برائی تسلیم کرتے، چوری اوپر سے سینہ زوری جیسا معاملہ نہایت ہی کم دیکھنے کو ملتا۔ لوگ دن میں معمول کے مطابق کام کاج کرتے، مگر گناہ سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرتے۔ کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے، ایسے فقرے کہنے کی ضرورت کم ہی پڑتی تھی بلکہ جس کو یہ کہا جاتا کہ رمضان میں تو کچھ شرم کرو، وہ بیچارا تو شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔ چھپ کر روزے توڑے جاتے تھے، اتنی ڈھٹائی کے ساتھ کوئی روزہ توڑنے کا تصور ہی نہیں کرسکتا تھا، مولوی اور مفتی سے فتوے نہیں لائے جاتے تھے۔ اور نہ ہی مولوی صاحبان پیسے لے کر روزوں سے بری الذمہ قرار دیتے تھے۔ کہ دو ہزار روپے دیدو۔ اور کوئی روزہ نہیں رکھو۔ گھر میں مار پڑتی، بڑے بوڑھے غصہ کرتے، بات کرنا چھوڑ دیتے تھے۔ مگر آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ اب روزوں کے حوالے سے ہمارے سیاست دانوں کے بیانات آتے ہیں کہ جو رمضان کے قوانین بنائے گئے ہیں یہ ٹھیک نہیں۔ چاند رات پر بے غیرتی نہیں ہوتی تھی۔ کہ عورتوں کے بازاروں میں مرد نظر آیا کرتے تھے۔ عید کے دن ایک رنگ اور ایک تھان سے خاندانی ٹیلر یا پھر اکثر نانی، دادی کے ہاتھووں سلے کپڑے پہننے کا رواج عام ہوا کرتا تھا۔

نئے کپڑے عید، بقرعید، شادی بیاہ اور صرف ضرورت کے وقت بنائے جاتے تھے۔ کیا دور تھا سب کو سب کی فکر، سب کو سب کا خیال ہوا کرتا تھا، آنکھیں لڑانے اور پھر اس تک دل کی بات پہنچانے تک ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا تھا۔ جس میں یہ بھی دھڑکا لگتا تھا کہ کوئی اور پہل نہ کردے۔ پھر خطوں کی ترسیل کے لئے پاپڑ بیلنے پڑتے۔ عید کے دن جب سب ملتے مگر جس کا تعلق ہوتا وہ کچا کچا سا رہتا۔ لڑکی بھی شرم کے مارے دور سے ہی نظارے کرتی اور یو ں عید گزرجاتی، پھر نئی عید کا انتظار شروع ہوجاتا۔ کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی، کبھی کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا، سب کے دکھ ایک جیسے تھے۔ سب غریب تھے، سب خوشحال تھے۔ کیوں کہ ان کے دلوں میں کدورتیں نہیں ہوتی تھیں۔ عید عید ہوتی تھی۔ آج سب چیزوں کی فراوانی ہے مگر عید یں پھیکی ہیں۔ کیونکہ دلوں میں بغض ہے کینہ ہے اور حسدہے تو عید کا مزہ کیا خاک ہوگا۔ وہ لوگ بھی نہیں جن سے آنکھیں حیا کرتی تھیں۔ جن کا ایک رعب ہوا کرتا تھا ایک دبدبہ ہوا کرتا تھا جن سے رونق تھی وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے تو عید یں تو پھیکی ہو گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).