اسلام – تحمل و برداشت کا مذہب


اسلام کا مصدر “سَلِم” یا “سِلم” ہے جس کا مطلب ہے سر تسلیم خم کردینا، امن و آشتی کی طرف رہنمائی کرنا اور تحفظ اور صلح کو قائم کرنا۔

اسلام تحفظ، بچاؤ اور امن کا مذہب ہے۔ یہی اصول مسلمانوں کی زندگی میں بھی سرایت کرتے ہیں۔ جب مسلمان نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو دنیا سے ان کا رابطہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ خدا کے حضور اپنے یقین اور تابعداری کے ساتھ باادب اور ہوشیار کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنی نماز ختم کرتے ہوئے جب وہ دنیا مین واپس آرہے ہوتے ہیں تو اپنے دائیں بایئں والوں کو امن کی دعا دیتے ہیں ” تم پر سلامتی ہو اور رحمت ہو”۔ امن و امان، تحفظ، آشتی اور سکون کی دعاؤں کےساتھ وہ اپنی عام زندگی کی طرف ایک بار پھر لوٹ رہے ہوتے ہیں۔

دوسروں کو امن اور تحفظ کی دعایئں دینا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا اسلام میں بہت اہم اور کارآمد چیز قرار پائی ہے۔ جب آپﷺ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ اسلام میں سب سے فائدہ مند کام کون سا ہے۔تو آپ ﷺ نے فرمایا ” دوسروں کو کھلانا، اور انکو سلام کرنا، چاہے آپ انہیں جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں”

یہ کتنا بد شگون ہے کہ اسلام جو کہ سمجھ اور روحانی اقدار کا مذہب ہے، اسے کچھ حلقوں کی طرف سے دہشت گردی کا مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑا تاریخی المیہ ہے ایسے نظام کو جو تحفظ اور اعتبار پر قائم ہو ،اسے دہشت گردی کا لبادہ پہنانا محض اسلام سے نا واقفیت کی علامت ہے۔اگر کوئ اسلام کے مرجع، تاریخ اور صحیح نمائندوں سے اسلام کی حقیقت معلوم کرے تو اسے پتہ چلے گا کہ اسلام سختی، ظلم، یا شدت پسندی پر مشتمل نہیں ہے۔ یہ عفو و درگذر اور تحمل کا مذہب ہے جیسا کہ اولیاء کرام اور محبت اور تحمل کے بادشاہوں، رومی، یونس آمرے، احمد یسوی بدیع الزمان اور ان جیسے بہت سوں نے بڑے واضح طور پر اس کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگیاں تحمل اور برداشت سکھانے میں صرف کردیں اور ان میں ہر ایک اپنے وقت کا محبت اور تحمل کا امام بن گیا۔

جہاد تو اپنے دفاع کا نام ہے۔ یہ خدا اور بندوں کے درمیان اختیار کی آزادی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا نام ہے۔ ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح یہ اصول زندگی میں نافذ کیے گئے۔

ایسے واقعات لازماً ہونے چاہئیں اور ہیں بھی کہ جہاں جنگ سے بچنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ لیکن قرآن مین موجود جہاد کی آیات جو اس طرح کے خاص حالات کے تحت اتری تھیں، کو کچھ تنگ نظر افراد نے عمومی درجہ دے دیا ہے۔ جبکہ حقیقت میں جنگ کو ایک ثانوی حیثیت حاصل ہے اور ان لوگوں نے اس کو ترجیح دیکر اہم ترین مشغلہ بنا لیا ہے۔ یہ لوگ اسلام کے صحیح اور اصلی مفہوم کو نہیں سمجھتے۔ ان لوگوں کے اولوی اور ثانوی میں صحیح فرق نہ کر سکنے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہے کہ اسلام بد نیتی اور نفرت کا درس دیتا ہے۔ حالانکہ اس کے برعکس صحیح مسلمان تو سب مخلوقات کیلئے محبت اور الفت سے بھرپور رہتے ہیں۔ اس موضوع پر یہ شعر موزوں ہے۔

محمد کا وجود محبت کے بطن سے ہی ہوا

محبت سے سوائے محمد کے اور نکلتا ہی کیا

فخر کائنات محبت اور الفت کا نمونہ تھے آپﷺ کا ایک نام حبیب اللہ تھا۔ اسکا مطلب ہے محبت کرنے والا، اور وہ بھی جس سے محبت کی جائے۔ یعنی جو خدا سے پیار کرے اور خدا جس سے پیار کرے وہ حبیب ہوتاہے۔ علم تصوف کے بڑے استاد جیسا کہ امام ربانی، مولانا خالد اور شاہ ولی اللہ سب نے یہ لکھا ہے کہ روحانی سفر کی منزل محبت ہی ہے۔

خدا نے کائنات، خصوصاً انسان کو اپنی محبت کا مظہر بنانے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور اسلام اس محبت کا بنا ہوا کیڑا بن کر سامنے آیا ہے۔ بدیع الزمان کے الفاظ میں محبت مخلوق کی ماہیت ہے۔ جس طرح ایک ماں کی محبت اور شفقت ایک جراح کو مجبور کرتی ہے کہ اس کے بیٹے پر عمل جراحی کر کے اسکی زندگی بچائے، اسی طرح خدا نے جہاد کو بھی مشروع قرار دیا ہے تا کہ جب ضرورت پڑے تو بنیادی انسانی حقوق اور زندگی اور مذہب کی آزادی کی حفاطت کے لئے لڑائی کی جا سکے۔ جہاد کا مطلب صرف جنگ نہیں ہے۔

ایک مرتبہ میرے ایک دوست نے مجھ سےکہا “آپ بغیر کسی استثناء کے اور کسی مذہب کی قید کے بغیر ہر کسی سے ملتے ہیں۔ جس سے مسلمانوں کا اپنے رشتوں کے خلاف تناؤ کم ہوتا ہے۔ لیکن اسلام کا اصول تو یہ ہے کہ ہر چیز اور انسان سے صرف اللہ کے لئے محبت کی جائے اور اللہ ہی کی خاطر کسی سے بغض رکھا جائے” اصل میں اس اصول کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے اسلام میں خدا کی خاطر محبت کرنے کے قاعدے پر ہر کسی مخلوق سے پیار کیا جانا چاہئے۔

اور خدا کی خاطر بغض رکھنے کا مطلب صرف احساسات، خیالات اور لگاؤ تک ہے۔ چنانچہ ہمیں بداخلاقی، کفر اور شرک سے نفرت ہونی چاہئے لیکن جو لوگ اسمیں مبتلا ہیں ان سے نہیں۔ خدا نے انسان کو شرافت کا پیکر بنایا ہے اور ہر انسان ایک خاص درجے تک اس شرافت میں شریک ہے۔ پیغمبر خدا ایک مرتبہ ایک یہودی کے جنازے کے لئے صرف انسانیت کی خاطر ایستادہ ہوگئے تھے۔ جب آپ کو باور کرایا گیا کہ یہ تو یہودی ہے، تو آپﷺ کا جواب تھا کہ “انسان تو ہے!” جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام انسان کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔

اس عمل سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ہر انسان سے کتنا پیار کرتے تھے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ خود ساختہ لوگوں یا تنظیموں کا دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہونا کسی بھی طرح اسلام میں جائز نہیں ہے۔ دہشت گردی کی وجوہات کا انہی کاروائیوں کے اندر ایمان کی غلط تشریح اور دوسرے عوامل اور محرکات سے ہی جاننا ضروری ہے۔ اسلام دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا، تو ایک مسلمان جو اسلام کو صحیح طور پر سمجھتا ہےکیسے دہشت گرد ہو سکتا ہے۔

اگر ہم اسلامی تعلیمات کا نیازی مصری، یونس آمرے اور رومی جیسے عالمی محبت کے ہیرو کی طرح تعارف کر وائیں اور انکی محبت، مکالمہ کا پیغام ان لوگوں تک جو اسکے پیاسے ہیں پہنچائیں، تو ھر ایک ایسی محبت، امن اور تحمل کو اپنائے گ جسکے ہم نمائندے ہیں۔

اسلام میں تحمل کی تعریف ایسی ہے کہ پیغمبر ﷺنے غیر مسلموں کو بھی برا بھلا سے روکا ہے۔ جیسے کہ ابو جہل باوجود آپﷺ کی کوششوں مسلمان نہ ہوسکا جسکی اسلام دشمنی اس حد تک تھی کہ اسے ابو جہل(یعنی جہالت اور لا علمی کا باپ ) کا خطاب ملا، اسکی اسلام کے ساتھ عداوت مسلمانوں کے نزدیک ایک خار کی طرح تھی۔

اس دشمنی کے باوجود جب صحابہ کے دربار میں ایک مرتبہ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ بھی موجود تھے، تو کسی صحابی نے ابو جہل کو برا بھلا کہا اس پر حضور ﷺ نے فرمایا “کسی کو انکے باپ داداؤں پر تنقید کرکے ایذا مت دو”۔ ایک اور موقع پر فرمایا “اپنے ماں باپ کو برا بھلا کہنا گناہ عظیم ہے”۔ کسی صحابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول! “کیا کوئی اپنے ماں باپ کو برا بھلا کہے گا”؟ سیدالمرسلین نے جواب دیا: جب تم سے کوئی کسی دوسرے کے ماں باپ کو برا بھلا کہے اور وہ جواب میں اس کے ماں باپ کو برا بھلا کہے تو گویا اس نے خود اپنے ماں باپ کو برا بھلا کہا”۔

جہاں رحمۃ للعلمینﷺ دوسروں کی عزت کرنے کے معاملے میں انتہائی حساس تھے وہاں آج کچھ مسلمان بدسلوکی کو اسلام کی بنیادوں پر صحیح قرار دیتے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ وہ اسلام کو سمجھتے نہیں۔ جبکہ اسلام میں بدنیتی اور نفرت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ قرآن کریم بڑی شدت سے عفو و درگزر اور تحمل پر زور دیتا ہے ایک آیت میں نیک لوگوں کی صفت یوں بیان کی گئی ہے:

“وہ غصے کو پی جاتے ہیں، اور دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے”۔(آل عمران:134)

دوسرے لفظوں میں جب مسلمانوں کو گالی دی جائےیا ان پر حملہ کیا جائے تو انہیں مزاحمت نہیں کرنی چاہئے۔ اور جیسا کہ یونس کہتے ہیں، اگر ممکن ہو تو ایسا رویہ اختیار کرتا چاہئے جیسا کہ ان کے ہاتھ یا زبان ہی نہیں ہیں کہ ان کے ذریعے جواب دیں اور دل ہی نہیں کہ خفا ہوں۔ ان کو اپنا غصہ پی کر آنکھیں بند کر لینی چاہئیں، اور دوسروں کی غلطیوں کو بھلا دینا چاہئے۔ اس آیت میں استعمال کئے گئے الفاظ معنی خیز ہیں۔ “کظم” کا معنی ہے “نگل جانا: یعنی ایسی چیز کا نگل جانا جو بظاہر نگلی نہ جا سکے جیسا کہ کانٹا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے غصے کو ہر حال میں، چاہے مشکل ہی کیوں نہ ہو نگل جانا چاہئے۔

مسلمانون کی صفات بیان کرتے ہوئے دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: “اور جہاں ان کو لغو بات یا رویہ سے واسطہ پڑتا ہے تو با عزت طریقے سے وہاں گزر جا تے ہیں”۔ (الفرقان:72)

جب ہم حضورﷺ حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ انہوں نے قرآن میں پیش کردہ اخلاق کو اختیار کیا جیسا کہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے کہا “میں نے زنا کیا ہے” تو سیدالمرسلینﷺ نے فرمایا “واپس جاؤ اور توبہ کرو، اس لئے کہ اللہ ہر طرح کے گناہ بخش دیتے ہیں”۔ یہ بات آپﷺ نے تین مرتبہ دہرائی۔ ایک اور دفعہ، ایک صحابی نے کسی دوسرے کے متعلق چوری کی شکایت کی۔ لیکن جب اسے سزا ہونے لگی تو وہ صحابی کہنے لگے، “میں نے اپنا ذہن بدل لیا ہے میں اپنے کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا، میں نے اسے معاف کر دیا ہے” اس پر حضور ﷺ نے فرمایا “تم یہ معاملہ عدالت میں لیکر کیوں آئے تمہیں چاہئے تھا کہ اسکو شروع سے ہی معاف کردیتے”

حضرت محمدﷺ لق و دق صحرا میں صاف پانی کے فوارے کی طرح ہیں اور گھٹا توپ اندھیروں میں روشنی کا ذریعہ ہیں۔ جو اس فوارے تک پہنچ جاتے ہیں وہ اتنا پانی لے لیتے ہیں جس سے انکی پیاس بجھ سکے تا کہ وہ اپنے گناہوں سے پاک ہو سکیں اور ایمان کی روشنی سے منور ہو سکیں۔ حضورﷺ کے ہاتھوں میں رحم، ایک کنجی کی طرح تھا، جس کےذریعے آپﷺ نے ایسے قلوب کو کھولا جو سخت اور زنگ آلود ہو چکے تھے اور جنہیں کھولنے کا کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ آپﷺ تو اس سے زیادہ کر گئے کہ ان دلوں میں ایمان کی شمع روشن کر دی۔

لیکن آپ نے ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جنہوں نے آپ پر زیادتی کی اور ستایا۔ وہ جنہوں نے آپ اور آپ کے صحابہ کو خدائے واحد کی عبادت سے روکا۔ جنہوں نے آپﷺ کو ختم کرنے کے لئے اسلحہ اٹھایا۔ آپ کو ان سے لڑائی بھی کرنا پڑی لیکن پھر بھی رحم انکے دامن سے نہ چھوٹا اسی وجہ سے احد کی لڑائی میں جب آپﷺ شدید زخمی تھے تو اپنے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی:

“اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ جانتے نہیں”

اہل مکہ جو آپﷺ کے اپنے تھے انہوں نے آپ کو اتنا ستایا کہ آخر کار آپ کو مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ حتی کہ ہجرت کے بعد بھی 5 برس تک امن نہ تھا۔ لیکن نبوت کے اکیسویں برس جب مکہ فتح ہوا تو آپﷺ نے اہل مکہ سے پوچھا” تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو کہ تمہارے ساتھ معاملہ کروں گا؟ ان سب نے جواب دیا: “آپﷺ شریف ہیں اور شریف باپ کے بیٹے ہیں۔ پھر آپﷺ نے اپنا فیصلہ یوں سنایا “آج تم پر کوئی قدغن نہیں؛ اللہ تمہیں معاف کرے! اس لئے کہ وہ بہت معاف کرنے والاہے”۔ اس واقعے کے825 برس بعد سلطان محمد دوئم نے قسطنطنیہ فتح کر کے بازنطینی حکمرانوں کو یہی جملے دہرائے۔ اسلام کی رحمت ایسی ہے۔

جب ایک صحابی کا انتقال ہوا تو آپ نے جنازہ والوں سے پوچھا کہ متوفی مقروض تو نہیں ۔ اور جب بتایا گیا کہ ایسا ہی ہے تو آپﷺ نے مذکورۃ الصدر آیت سنانے کے بعد فرمایا اگر کوئی قرضخواہ ہے تو آ کر مجھ سے اپن قرضہ وصول کریں۔

آپ ﷺ کا کرم منافقین اور کفار پر بھی برابر رہتا تھا۔ آپ کو اچھے طریقے سے پتہ تھاکون کون منافق ہیں لیکن آپ نے کبھی انکی شناخت نہین کرائی کہ کہیں وہ اسلامی شہریت کے اس حق سے جسے وہ ظاہراً اسلام قبول کر کے اپنا چکے تھے سے محروم نہ ہو جائیں۔ چونکہ وہ مسلمانون کے بیچ رہ رہے تھے ان کا اپنے سے جدا کرنا شکوک کو بڑھا سکتا تھا جس سے انکا موت کا خوف اور مرنے کے بعد ابدی عدم وجود کا درد ختم ہو جاتا۔

خدا نے توبہ کا دروازہ بھی قیامت تک کھلا رکھا ہوا ہے۔ کوئی بھی شخص اسلام قبول کر سکتا ہے اور کوئی بھی شخص کسی بھی وقت چاہے وہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو، اللہ سے معافی مانگ سکتا ہے۔ اس بنا پر مسلمانوں کا کفار کے ساتھ دشمنی رکھنا قابل جرم ہے۔ حضرت عمر ایک مرتبہ 80 سالہ بوڑھے کو دیکھ کو بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ کسی نے رونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے، “خدا نے اسکو اتنی لمبی عمر عطا کی ہے لیکن پھر بھی وہ صراط مستقیم تک نہ پہنچ سکا”۔ حضرت عمر پیغمبر خدا کے خلیفہ تھے اس پیغمبر کے جنہوں نے فرمایا تھا۔ “مجھے لوگون کے لئے زحمت بنا کر نہیں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے”

“میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں مقفی (آخری نبی) ہوں، میں حاشر (وہ آخری نبی جن کی نبوت کے ساتھ حشر ہوگا)، میں توبہ کا نبی ہوں (یعنی وہ نبی جس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے) اور رحمت کا نبی ہوں”۔

پیغمبر خدا ﷺبچوں کے ساتھ خصوصاً مہربان تھے۔ جب کبھی وہ کسی بچے کو روتا دیکھتے تو اسکے ساتھ بیٹھ جاتے اور اس کے احساسات سنتے۔ ان کو بچوں کی ماؤں سے زیادہ ان کا درد ہوتا تھا ایک دفعہ آپﷺ نے فرمایا۔

“میں نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں اور اسے لمبی کرنا چاہتا ہوں تو مجھے کسی بچے کی رونے کی آواز آتی ہے، جس کی وجہ سے نماز مختصر کرتا ہوں تا کہ اسکی ماں کی پریشانی کم ہو”۔

آپ بچوں کو اپنے بانہوں میں لے کر ان کو سینے سے لگاتے۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے حضرت حسن کو سینے سے لگا کر پیار کیا تو حضرت اقرع بن حابس کہنے لگے “میرے تو 10  بچے ہیں، لیکن میں نے کسی کو آج تک بوسہ نہیں دیا!’ تو رسول خداﷺ نے جواب دیا: “اگر خدا نے تمہارے دل سے رحم نکال دیا ہے تو میں کیا کروں”

قبیلہ مقرن کے ایک شخص نے ایک مرتبہ اپنی لونڈی کو مارا۔ اس نے پیغمبر خدا ﷺکو اطلاع دی۔ آپ نے مالک کو بلایا اور فرمایا “تم نے ناحق اس کو مارا، اس کو آزاد کر دو”۔ ایک لونڈی کو آزاد کرنا آسان تھا، بنسبت اس کے کہ برائی کا بدلہ کل قیامت کو ملے۔ رسول خداﷺ نے ہمیشہ بیواؤں، یتیموں، غریبوں اور معذوروں کی، اعلان نبوت سے قبل بھی، حفاظت اور مدد کی۔ جب آپﷺ غار حرا سے پہلی وحی لیکر تحیّر کے عالم میں واپس آئے، تو انکی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ نے فرمایا:

“مجھے امید ہے آپ اس قوم کے نبی ہوں گے اس لئے کہ آپ نے ہمیشہ سچ بولا، وعدے کو پورا کیا، اپنے اقربا کی مدد کی، غریبوں اور کمزوروں کی امداد کی اور مہمانوں کا کھاناکھلایا”۔

ایک مرتبہ ایک غزوہ سے لوٹتے ہوئے چند صحابہ نے گھونسلے سے پرندے کے بچوں کو شغل کے طور پر نکال لیا۔ پرندوں کی ماں آئی اور بچوں کو گھونسلے میں نہ پا کر ادھر ادھر پھڑپھڑانے لگی۔ جب آپﷺ کو پتہ چلا تو آپﷺ نہایت غضبناک ہوئے اور حکم دیا کہ پرندوں کو واپس ان کے گھونسلوں میں چھوڑ دیا جائے۔

آپ کی مخلوقات سے محبت آج کے خود ساختہ انسانی حقوق کے نمائندوں سے یکسر مختلف تھی۔ وہ اپنی محبت اور شفقت میں مخلص اور پکے تھے۔ وہ خدا کی طرف سے پیغمبر تھے جو سب مخلوق کا خالق اور پالنے والا ہے۔ جنہیں ثقلین – جن و انس- کی رہنمائی اور فلاح کے لئے اور موجودات میں ہم آہنگی کے لئے بھیجا گیاتھا۔ اس طرح وہ اپنوں کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے جیتے تھے۔ وہ تمام عالم کے لئے رحمت تھے۔

آپﷺ نے رنگ اور نسل کی بنیاد پر قائم ہر طرح کے تضادات ختم کئے۔ ایک مرتبہ حضرت ابو ذر ،حجرت بلال سے ناراض ہوئے اور انکی بے عزتی کردی” اور کالی عورت کے لڑکے” کہا “حضرت بلال حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور روتے ہوئے واقعہ سنایا۔ آپؑ نے حضرت ابو ذر کو بلا کا تنبیہ کی اور فرمایا “کیا ابھی بھی تمہارے اندر جاہلیت کی نشانی موجود ہے؟” اس پر اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے حضرت ابو ذر زمین پر لیٹ گئے اور فرمانے لگے” میں یہاں سے اپن سر اس وقت تک نہیں اٹھاؤں گا جب تک حضرت بلال اپنا پاؤں اس پر نہیں رکھ دیتے” حضرت بلال نے ان کو معاف کردیا اور اس طرح دونوں کی صلح ہوگئی”۔ یہ وہ تعلق اور رشتہ تھا جو اسلام نے ان لوگوں میں پیدا کیا تھا جو کبھی وحشی ہوا کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).