ایک لڑکی سے۔۔۔ فہمیدہ ریاض کی ایک نظم


ساٹھ کی دہائی تک اردو شاعرات میں تغزل اور ترنم کا سکہ رواں تھا ۔ پھر سندھ کے صحراﺅں سے جرات اظہار کی کوہستانی مہک لیے ایک لال آندھی اُٹھی۔ 1946ءمیں میرٹھ میں پیدا ہونے والی فہمیدہ ریاض آزادی کی “نیم شب نسل ” میں شمار کی جاتی ہیں ۔ حیدرآباد میں تحصیلِ تعلیم کے دوران حرف اور حرمتِ حرف سے ربط ہوا۔ ” بدن دریدہ ” کی چشم کشا نظموں سے آنگن میں جھولا ڈالے سہاگ گیت گاتی گرہستن شاعرات کے گویا دیدے پھیل گئے۔ ” پتھر کی زباں کی سفاک سطروں نے چائے خانوں میں کرسی نشین شاعروں کو کردار کُشی کا نیا موضوع فراہم کیا۔ 70 کی دہائی کے آخر میں جب ایک قہر بداماں آمر مطلق ہمارے اجتماعی ضمیر کی پشت پر درّانا کوڑے برسا رہا تھا اور بہت سے لکھنے والے سرکاری دربار میں سالانہ خلعت پاتے تھے، فہمیدہ ریاض ایسی دلاوری سے استبداد اور منافقت کے اس سیلاب کے سامنے کھڑی ہوئی کہ ایک عہد اس حقیقت پہ گواہ ہوا کہ جمہور دوستی اور اعلٰی اجتماعی اقدار کی پاسبانی بھی وہی کر پائیں گے جو جسم انسانی کے احترام سے متصف ہوں گے۔ جنھیں سچ کی تحقیق اور اظہار کے لیے کوچہ و بازار میں پابجولاں رسوائی کا اندیشہ نہیں ہو گا ۔ (مدیر)

آئیے فہمیدہ ریاض کی ایک نظم پڑھتے ہیں

 

ایک لڑکی سے

 

سنگدل رواجوں کی

یہ عمارتِ کُہنہ

اپنے آپ پر نادم

اپنے بوجھ سے لرزاں

جس کا ذرّہ ذرّہ ہے

خود شکستگی ساماں

سب خمیدہ دیواریں

سب جُھکی ہُوئی کڑیاں

سنگدل رواجوں کے

خستہ حال زنداں میں!

اِک صدائے مستانہ!

ایک رقصِ رِندانہ !

یہ عمارتِ کُہنہ ٹُوٹ بھی تو سکتی ہے

یہ اسیر شہزادی چُھوٹ بھی تو سکتی ہے

 

یہ اسیر شہزادی….!

جبر و خوف کی دُختر

واہموں کی پروردہ

مصلحت سے ہم بستر

ضعف و یاس کی مادر

جب نجات پائے گی

سانس لے گی درّانہ

محوِ رقصِ رِندانہ

اپنی ذات پائے گی

تُو ہے وُہ زنِ زندہ

جس کا شعلہ ہے

جِس کی رُوح آہن ہے

جِس کا نُطق گویا ہے

بازوﺅں میں قوّت ہے

اُنگلیوں میں صنّاعی

ولولوں میں بیباکی

لذّتوں کی شیدائی

عشق آشنا عورت

وصل آشنا عورت

مادرِ خُداوندی

آدمی کی محبوُبہ

 

 

 

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).